Baseerat Online News Portal

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا  نور اللہ نور

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

 

نور اللہ نور

 

یوں تو انسان فطرتاً اور طبعاً روشنی و اجالے کا خوگر ہوتا ہے اور اپنے گردو نواح تیرہ و تاریک ماحول سے خائف ہوتا ہے مگر چند کور چشم ؛ عقل و خرد سے عاری روشنی اور ہدایت کے دشمن اور اس سے متنفر ہوتے ہیں؛ رشد و ہدایت کی ضرورت انہیں ان کے شب وروز میں ہمہ وقت ہوتی ہے مگر اپنی کج روی؛ بغض و عناد کے بنا پر اس چراغ کو سرد کرنے کے در پر ہوتے ہیں ۔

 

بات چودہ سو سال قبل کی ہے کہ جب مخلوق اپنے خالق کی متعین کردہ رشد و ہدایت کی راہ سے بھٹک گئی تھی ؛ اپنے فرض منصبی سے ناآشنا تاریکی میں زندگی بسر کر رہی تھی ظلم و عدوان کی ایک فضا قائم ہوگئی تھی اور ہر سمت جہالت و ناخواندگی نے اپنا ڈیرا ڈال دیا تھا؛ اسی خالق کو اپنی محبوب ترین تخلیق کی حالت پر ترس آیا اور اس نے ایک آفتاب کو منشئے شہود پر نمودار کیا تاکہ جہالت و ناخواندگی کے بادل چھٹ سکے اور گم گشتگان راہ کو ان کی منزل مل سکے ۔

 

اس ماہتاب ہدایت کے آنے کے کچھ لوگ نے تو بڑھ چڑھ کر استفادہ کیا اور اپنی تاریک زندگی کو منور کیا مگر چند زعماء عرب اور رؤساء قوم نے صرف بغض و عناد کے بنا پر اس سے روشنی اعراض و انحراف کیا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس شمع کے قلعہ کو قمع کرنے در پے ہوگئے ساری تدبیریں ؛ حیلے ؛ سازشیں اس کی روشنی کو ماند کرنے کے لئے صرف کرنے لگے روشنی کی درکار تو ان کی بھی تاریک زندگی کو تھی مگر صرف حسد کے بنا پر کہ اس عظیم ہستی کا انتخاب ہمارے قبیلے سے کیوں نہیں ہوا وہ اس کی روشنی سے فیضیاب نہ ہوسکے مگر ان عقل کے دشمنوں کو کون سمجھائے کہ اس رتبے کا انتخاب کسی پنچایت یا سنسد بھون یا پار لیمنٹ میں نہیں ہوتا بلکہ یہ انتخاب خداوندی ہے جسے چاہے رب نواز دے۔

ہونا تو چاہیئے تھا کہ اس سے مستفید ہوتے مگر ان کی زندگی کا مقصد اب اس چراغ کو بجھانا ہوگیا تھا حق کی دولت سے اپنی حیات مستعار کو جلا بخشنے والے ؛ دنیا میں ہی جنت کے پروانہ پانے ان کی اس حماقت پر متحیر تھے اور استہزاء کر رہے تھے کہ یہ کس چراغ کو بجھانے کے لئے کوشاں ہیں جو کبھی نہ بجھنے والا ہے اور نہ ماند پڑنے والا اور تاریخ کے باب میں سنہرے حروف سے یہ بات رقم ہے کہ اس کو ماند کرنے اور بجھانے والے دنیا سے ناپید ہوگئے مگر اس آفتاب کی کرنیں ہنوز ضیاء پاشی کر رہی ہے اور تا ابد کرتی رہے گی

 

نور خدا ہے کفر کی حرکت پے خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ۔

 

حق و باطل کا یہ معرکہ اور نور و ظلمت کا تصادم اسلام کی ضیاء پاشی اور سیرت محمدی کی تشہیر کی وجہ سے یوں لگ رہا تھا کہ اب تھم جائے گا مگر ضابطہ ہے متضاد چیزیں آپس میں کھینچا تانی کرتے رہتے ہیں اس لئے اسلام کے چالیس لاکھ مربع میل پر پھیل جانے کے بعد بھی اسلام اور اسلام دشمن عناصر کی رشہ کشی جاری رہی اور ہنوز جاری رہے گی کبھی سرداران قریش اس کے پیچھے ہاتھ پیر دھو کر کے پڑ گئے تھے تو کبھی مسیلمہ کذاب ؛ اور اسود عنسی نے اس کی چمک پر داغ لگانے کی کوشش کی مگر یہ نور خدا ہے اور انتخاب خدا ہے یہ نہ رکنے والا ہے اور نہ بجھنے والا ہے

 

اسی راہ پر چلتے ہوئے اور اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے جعلی ترقی ؛ مصنوعی شہرت ؛ اور مال و دولت کے دلدادہ ؛ مادیت پرست مغرب بھی گزشتہ چودہ پندرہ برس سے اس کی سرکوبی اور بیخ کنی کے لۓ سر گرداں اور مصروف کار ہے مگر مسلسل تگ دو اور خفیہ تدابیر کے باوجود کامیابی تک رسائی حاصل نہ کرسکے اور کبھی بھی نہیں کر سکتے وہ اپنی اس شکشت پر پیچ و تاب کھاتے رہتے ہیں اور ” کھسیانی بلی کھمبا نوچے ” کی مانند مذموم اور شنیع و قبیح فعل کو انجام دیتے ہیں تاکہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی شبیہ کو داغدار بنا سکے مگر جس کو خلق عظیم دے دیا گیا ہو اور جس کے وجود سے کائنات کا وجود ہو اس کی ذات پر کچھ اثر تھوڑی پڑنے والا ہے کیونکہ دن ہمیشہ رات پر غالب رہتا ہے اور تاریکی ہمیشہ روشنی سے مفتوح نظر آتی ہے ۔

حال ہی میں فرانس کا ملعون و مطعون اور ہزاروں لاکھوں لعنتوں کا مستحق صدر جو اسوہ محمد اور تعلیم محمدی پر زباں درازی کر رہا ہے اور اہانت آمیز فعل کا مر تکب ہو رہا ہے یہ تو اہانت آمیز ہے ہی اور پر مذمت ہے اور انتہائی نازیبا سلوک ہے محسن انسانیت کے ساتھ مگر یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ وہ تو اپنے باپ دادوں کی راہ پر چل رہا ہے جس طرح اس کے پچھلے نے شان نبوت میں گستاخی کی ویسے یہ بھی کر رہا ہے اور یہ قبیح اور بدبودار فعل ان کے اپنے ہدف و مشن میں ناکامی کی دلیل ہے جو وہ ایک عرصے سے پیغمبر اسلام کے خلاف خفیہ طور پر رہے ہیں اور پیغمبر اسلام کی تصویری خاکہ سازی ان کے مشن میں ناکامی پر جھنجھلاہٹ اور پیچ و تاب کھانے پر غماز ہے اور یاد رہے کہ بہت بار یہ مذموم عمل کا ارتکاب کیا اور اس سے پہلے بھی خاکہ سازی سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے ۔

اس اہانت کا بدلہ رب ضرور لے گا مگر مادیت اور جاہ و حشم کے دلدادہ؛ شیطانی چیلوں ؛ اور ناکارے چلغوزے کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جس طرح شاہان قریش اسے پسپا نہ کرسکے ؛ باطل طاقت اس کے وجود کو ختم نہ کرسکی اور نہ اس کی روشنی کو معدوم کرسکی اور آج بھی رشد و ہدایت کا یہ آفتاب چمک دمک رہا ہے ؛ اسی طرح ان کو بھی شکشت و ریخت سے دوچار ہونا پڑے گا ؛ خائب و خاسر تہی دامن رہنا پڑےگا ؛ ذلت و پستی ان کا مقدر ہوگی کیونکہ فطرت نے اس میں لچک رکھی ہے جتنی جنبش دوگے اتنی ہی رفتار سے یہ ابھرے گا اور ہر بار تمہیں ناکامی ہاتھ آئے گی کیونکہ یہ خدائی نور ہے اور دستور رب دو جہاں ہے اس سے بغاوت خسران کی طرف لے جائے گی اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ

 

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

جتنا کہ دباؤگے اتنا ہی یہ ابھرے گا

Comments are closed.