Baseerat Online News Portal

یوں ہی حوصلے بکھرتے ہیں   نوراللہ نور

یوں ہی حوصلے بکھرتے ہیں

 

نوراللہ نور

 

ڈاکٹر کفیل صاحب کی رہائی یقینا انصاف کی جیت ہے اور اس فتح و ظفر میں ہمیں رب کی سپاس گزاری کرنی چاہیے کہ ایک بار حق پھر سے سرخرو ہوا لیکن بہت سے پہلو ہیں جو غور و فکر کرنے کا مقام ہے اور نہایت تشویش کن امر ہے ان کی خلاصی کے دن جب وہ اہل خانہ سے مل رہے تھے تو کسی نے اس جذبات بھرے لمحوں کو کیمرے میں محفوظ کر لیا تھا اسی ویڈیو کے اخیر دوچار منٹ میں ڈاکٹر صاحب ایک شخص سے معانقہ کر رہے تھے اور دونوں حضرات آبدیدہ تھے شاید وہ ان کے بڑے بھائی ہوں انہوں نے جو اپنے بھائی کو جملے کہے تھے وہ بہت ہی رنجیدہ تکلیف دہ اور باعث تشویش ہے انہوں نے کہا اب تم آگیے ہو تو کہیں مت جانا کسی کیمپ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور ساری طرح کی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو دور رکھو اور اہل خانہ کے ساتھ گزارو کہنے کو تو یہ بس ایک جملہ ہے مگر اگر غور کریں تو اس میں وہ درد رنج و غصہ ہے جو چھلک رہا ہے گویا وہ جذبہ جو ڈاکٹر صاحب کے اندر تھا اس کے شعلے کو سرد کر رہا تھا ؛ ایک متحرک شخص کو یہ بتایا جارہا تھا کہ تم تن تنہا کچھ نہیں کر سکتے ہو بلکہ تمہاری تحریک کو سازش کہا جائے گا ؛ تمہارے خلوص دل سے کام کو عصبیت کی چشم سے دیکھا جائے گا تم اگر جان بھی دے دو تو بھی کوی قدر نہیں ہوگی بلکہ تمہارے خلوص کا صلہ سلاخوں اور بندش و پابندی سے دیا جائے گا اس لیے ان سب کو درکنار کرو اپنی دنیا اور اپنے بچوں کو خیال کرو کیونکہ یہ تو اتنے سنگ دل ہیں کہ تمہارے بچوں کا‌بھی انہیں خیال نہیں آیا

.

یہ صرف جذبات بھرے اور درد‌ آمیز جملے نہیں تھے بلکہ ایک شخص جو لاکھوں دلوں کا‌ حوصلہ تھا اس کا حوصلہ غیرمساوی و حق تلفی ؛ عصبیت سے ہارگیا تھا وہ خدمت کا جذبہ اور لوگوں کے لئے دل دردمند رکھنے والے شخص کے جذبے کو سلاخوں کی ناروا سلوک اور عصبیت کے آتش کے ذریعے جلا کر خاکستر کر دیا اور واقعہ نے صرف ڈاکٹر کفیل صاحب کے ساتھ نازیبا رویہ روا نہ رکھا بلکہ کوئی بھی اب دوسرا شخص حق بولنے حق لکھنے اور حق کی طرفداری کرنے سے پہلے دس بار سوچے گا اور اس طرح ایمان داروں کی جب لب بندش ہو جائے گی تو چور اچکو قزاق کا ہی ڈیرا ہوگا اس ملک پر اور عدلیہ بس کھیل بن کر رہ جائے گا .

 

یہ صرف ایک معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ تو تازہ ترین ہے اس کے علاوہ بھی بہت سارے لوگ جو حق گوئی کی پاداش میں بغیر کسی قصور کے پا بند سلاسل ہیں ان کا جرم ہی سچ کی رونمای ہے جیسے آی پی ایس افسر سنجیو بھٹ ان کا گناہ صرف اتنا ہے انھوں نے گودھرا معاملے میں ملوث ملزمان کی پول کھول دی تھی بس کیا تھا زنجیر میں جکڑ لیا گیا اور ہنوز قید میں ہے اور اسی طرح ابھی ایک لڑکی غزالہ کو صرف اس لیے نوکری دینے سے انکار کر دیا کہ وہ سی اے اے کے احتجاج میں شامل تھی اور اسی طرح حق گوئی کے جرم میں شرجیل امام قید و بند میں ہیں آخر جب حق گوئی کے جرم میں قیدو بند ہی مقدر ہوگا تو لب کون کھولے گا اس طرح جو بے باک اور مخلص ہیں وہ اپنے حوصلے ہار جائیں گے ان کی ہمت پست ہو جائے گی اور صرف نا انصافی عصبیت ظلم و استبداد ہی باقی رہے ہیں گی اور جرم میں ہم برابر کے شریک ہوں گے .

ان جوانوں‌ کی حوصلہ شکنی اور اور نا حق صعوبت کی زندگی کے ذمہ دار ہم اور ہمارا سارا معاشرہ ہے کیونکہ وہ ہمارے حقوق کے لیے کوشاں رہے لڑتے جھگڑتے رہے حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ان کی ذمہ داری یاد دلاتے رہے مگر ہم نے کیا کیا ان کے گرفتاری کے بعد بس ایک دو دن چینخ و پکار کیا اس کے بعد خاموش ہوگئے ان کے گھر والوں کے حالات دریافت نہیں کیا ان کی غمخواری نہیں کی ان کے اس جرات مندانہ قدم پر انہیں حو صلہ نہیں دیا نہ ہی آواز بلند کیا اگر ہم یک فیصد بھی کوشاں رہتے تو سنجیو بھٹ اور شرجیل امام بھی اب تک قید میں نہ رہتے یاد رکھیے ! کل ہو کر جب شرجیل امام اور سنجیو بھٹ رہا ہوکر آیں گے تو اپنی قابلیت کے باوجود الگ تھلگ اپنی زندگی میں مصروف ہونگے وہ دوبارہ ایسا احمقانہ کام نہیں کریں گے ان کے پست حوصلگی اور اس نا انصافی کو دیکھ کر کوی بھی آگے نہیں بڑھے گا آخر جب سب خاموش تماشائی بن جائیں گے تو زبان کون کھولے گا ظالم کے گریبان میں کوی ہاتھ ڈالنے کی جسارت نہیں کرے گا اس طرح ظالموں کو بے نکیل ہونے کا موقع ملے گا ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے اور ایسے لوگوں کی آواز بننا چاہیے اور ان کے لیے آواز اٹھانا چاہیے ورنہ ہماری خاموشی ہمارے جوانوں اور آنے نسلوں کی حوصلے پست کر دے گی اور ہمیشہ کے لیے گونگا بنادے گی اس لیے تھوڑا نہیں پورا سو چیں ۔

Comments are closed.