کورونا کا سایہ ،گمشدہ رمضان اور خطرنا ک اشارے(3)

ابوتراب ندوی
رمضان کا علمی پیغام
اے مسلمانوں آؤ رمضان کے پیغام کو ایک دوسرے پہلو سے بھی سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ پہلو اس کا علمی پہلو ہے، یہ پہلو اس حقیقت سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ علم جو تم نے قرآن کے ذریعہ دنیا کو دیا اور اسے بڑی تباہی سے بچالیا، اسے بڑی الجھنوں سے نجات دی وہ علم جس کا جھنڈا ابلیس کی سربراہی میں یہودیوں نے اٹھا لیا، تم پر یہ الزام آیا کہ تم علم دشمن ہو، اس لئے کہ تم نے علم پر کام کرنا چھوڑدیا ، تم نے قرآن کے علمی سرمایہ کو سمجھنے کی اپنے اسلاف کی روش سے روگردانی کی، تمہاری زندگی کے اولین فریضوں میں تھا کہ تم اس پیغام کو سمجھتے اور اپنی تعلیم گاہوں سے علم کا وہ کارواں لے کر اٹھتے کہ علم تباہی کے بجائے انسانیت کی بھلائی کی خدمت پر مامور ہوجاتا۔
انسانیت کو اس علم کی روشنی ملتی جو اسے اسکے وجود کا مقصد بتاتی ، انسانیت کو س کائنات کی تخلیق کی حقیقی کہانی معلوم ہوتی اور وہ اپنے خالق حقیقی کو پہچان سکتی ۔
لیکن حاملین قرآن کے مدارس میں علم مخالف روش کس طرح در آئی تم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔ تمہارے علما کے اندر ضد، عقل دشمنی ، حکمت سے دستبرداری کا ذہن کیسے پیدا ہوا تم اس کا دیانتدارانہ تجزیہ کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔ تم نے ان لوگوں پر ایمان قائم کرلیا جو قرآن کے مکمل پیغام کو سمجھنے سے انکار کرتے ہیں، یہی لوگ تمہارے پیشوا ٹہرے یہاں تک کہ تم حاملین قرآن کے دائرہ سے خارج ہوگئے۔
قرآن کہتا ہے کہ تمہیں قرآن کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی اطاعت میں روزہ جیسی خالص عبادت کرکے اپنے خلوص کا ثبوت دینا چاہئے ، وہ اس کا بدلہ تمہیں اپنے خاص انداز میں دیگا:
حدیث میں آتاہے: كلُّ عملِ ابنِ آدمَ لهُ إلا الصيامَ ، فإنَّه لي وأنا أُجْزي بهِ ‏ آدم کے بیٹے کا ہر عمل اس کا ہے سوائے روزہ کے ، وہ خاص میرے لئے ہے اور میں اس کا بدلہ بذات خود دونگا۔
دیکھا کتنی عظیم بات ہے کہ انسان کا ہر عمل روز قیامت دوسروں کی حق تلفی کو پورا کرنے میں کفارہ کے طور پر استعمال ہوگا سوائے روزہ کے، اس کا اجر کسی کی حق تلفی کے کفارہ میں نہیں دیا جاسکتا وہ اللہ کے پاس محفوظ ہوگا۔
اس لئے روزہ کا حق اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب تم اس مہینہ کے عظیم پیغام کو ہر پہلو سے سمجھتے ہوئے ایک نئی زندگی کا عہد کرو، ایک نئی روح کے ساتھ تم اللہ کے پیغام کو لے کر اٹھنے کا جذبہ پیدا کرو، تم یہ عہد کرو کہ حق و باطل کی جنگ کو فیصلہ کن موڑ دوگے۔
رمضان کے پیغام کا علمی پہلو اس لئے اہم ہے کہ اللہ نے اسے خاص طور پر بیان کیا۔
شَهرُ رَمَضانَ الَّذى أُنزِلَ فيهِ القُرءانُ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں کہ اس کتاب نے تمہیں ابلیس اور یہود کےخلاف جنگ میں کامیاب کیا،اور تمہیں ہلاکت سے بچالیا۔ اگر تم اس پہلوسے غور کرو کہ وہ علم وحی جو تمہیں ملا اس کی کیا قیمت ہے، تو تمہاری آنکھوں سے پردہ اٹھ جائے۔ آج تک انسانی علوم ، اپنے وجود ، اس کائنات کے خالق حقیقی کی معرفت اور انسان کے مقصد و مقام کو سمجھنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ابلیسی و یہودی طاقتیں سائنس اور مذہب کے درمیان ایک جنگ برپا کرنے میں کامیاب ہوگئیں ۔ کہا گیا کہ مذہب علم دشمن ہے، گمراہ عیسائیت علم دشمن تھی اور آج بھی ہے ، اسلام نہیں ، لیکن المیہ یہ ہواکہ انہوں نے (محرف) عیسائیت کے انہدام کے بعد اسلام کونشانہ بنایا اور ساری طاقت اس محاذ پر جھونک دی ، وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے کہ اسلا م وہ واحد طاقت ہے جو علم حقیقی کا سرچشمہ ہے جو ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
اگر تمہیں یہ معلوم ہوجائے کہ بنو اسرائیل نے کس طرح اس علم وحی کو انسانیت سے چھپاکر اسے تباہ کرنے کی کوشش کی تو تم سمجھ پاؤگے کہ قرآن اس فتح کا نوید ہے جس نے انسانیت کے لئے سعادت کے راستے کھول دئیے ، جس نے نور کو عام کیا اور گمراہی کا پردہ چاک کردیا۔ یہ نہ صرف فکری جنگ ہے بلکہ انسانیت کے وجود کی جنگ ہے جسے یہود نئے زمانے میں علم اور سائنس کے پلیٹ فارم سے لڑنے لگے۔
یاد کرو جب اللہ نے بنو اسرائیل کو ساری قوموں میں عزت بخشی، انہیں کتاب دیا ، نبوت عطا کی اور دنیا کی دولت سے بھی نوازا:
وَلَقَد ءاتَينا بَنى إِسرٰئيلَ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقنـٰهُم مِنَ الطَّيِّبـٰتِ وَفَضَّلنـٰهُم عَلَى العـٰلَمينَ ﴿١٦﴾ سورة الجاثية
اِس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی اُن کو ہم نے عمدہ سامان زیست سے نوازا، دنیا بھر کے لوگوں پر انہیں فضیلت عطا کی۔
لیکن ان کا رویہ انتہائی شرمناک اور اللہ کے ساتھ معاندانہ رہا، یہ ہمیشہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان حائل ہوکر انہیں گمراہ کرنے کی کوشش میں رہے:
لَقَد أَخَذنا ميثـٰقَ بَنى إِسرٰءيلَ وَأَرسَلنا إِلَيهِم رُسُلًا ۖ كُلَّما جاءَهُم رَسولٌ بِما لا تَهوىٰ أَنفُسُهُم فَريقًا كَذَّبوا وَفَريقًا يَقتُلونَ ﴿٧٠﴾
ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور اُن کی طرف بہت سے رسول بھیجے، مگر جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول اُن کی خواہشات نفس کے خلاف کچھ لے کر آیا تو کسی کو انہوں نے جھٹلایا اور کسی کو قتل کر تے رہے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جھٹلانے کے عمل کو ماضی کے صیغہ میں بیان کیا گیا تو انبیا کے قتل کا ذکر حال کے صیغہ میں آیا، کیا تم جانتے ہو کہ ایسا کیوں ، اسلئے کہ انبیائے کرام کے پیغام اور ان کے حاملین کے ساتھ ان کاعمل آج بھی وہی ہے جو ماضی میں تھا۔
ان کا کردار صرف جھٹلانے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ وہ علم وحی کو چھپا کر انسانیت کو گمراہ کرتے ہوئے اسے تباہی کے کگار پر پہونچاتے رہے، ان کے اس عمل کو قرآن حال کے صیغہ میں بیان کرتا ہے ، اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ آج بھی یہ سازشیں کررہے ہیں جس سے تم غافل ہوگئے۔
قرآن ان کے بارے میں کہتاہے:
وَمَن أَظلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهـٰدَةً عِندَهُ مِنَ اللَّـهِ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغـٰفِلٍ عَمّا تَعمَلونَ ﴿سورة البقرۃ، آية 140﴾
اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اُسے چھپائے؟ تمہاری حرکات سے اللہ غافل تو نہیں ہے۔
قرآن نے ان کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے عمل کی نوعیت و خاصیت بھی بتاتا ہے :
يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لِمَ تَلبِسونَ الحَقَّ بِالبـٰطِلِ وَتَكتُمونَ الحَقَّ وَأَنتُم تَعلَمونَ ﴿٧١﴾
اے اہل کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ دیتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟
يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لِمَ تَكفُرونَ بِـٔايـٰتِ اللَّـهِ وَأَنتُم تَشهَدونَ ﴿٧٠﴾
اے اہل کتاب! کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود ان کا مشاہدہ کر رہے ہو؟
قرآن بارہا یہ حقائق واضح کرتا ہے کہ اہل کتاب یہودو نصاری اللہ کے بیان کردہ تخلیق کائنات و تخلیق انسانی کےمقصدو منزل کو چھپانے کی کوشش میں لگے ہیں، وہ اس کے خالق حقیقی سے انسانیت کو برگشتہ کرنے کا گھناؤنا عمل انجام دے رہے ہیں۔ بطور خاص یہودیوں کا عمل صرف ماضی کا حصہ نہیں بلکہ اس میں تسلسل ہے اور ان کے مستقبل کے کردار کے طرف بھی اشارہ ہے۔ ایسا نہیں کہ انہوں نے ان علوم کو بعثت نبوی سے پہلے چھپایا اور اسلام نے جب ان کے جرائم کا پردہ فاش کیا تو وہ اس سے باز آگئے۔
گویا انسانیت کے وجود کا علم ، اس کائنات کی تخلیق کا راز اور حقیقی معبود کی معرفت یہ وہ محاذ ہیں جس نے ہمیشہ انسانیت کا رخ طے کیا ہے، اور عہد جدید میں یہ جنگ ایک نیا رخ اختیار کرگئی جب یہود سائنس کے راستے ، ایک نئی تہذیب کے راستہ انسانیت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور قرآن 14 سو سالوں بعد بھی ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوجاتاہے، مثلا انسان کے مقصد تخلیق کو ہی لے لو، قرآن کہتا ہے:
وَإِذ قالَ رَبُّكَ لِلمَلـٰئِكَةِ إِنّى جاعِلٌ فِى الأَرضِ خَليفَةً پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں”
گویا یہاں یہ الجھن دور ہوگئی کہ انسان کو ن ہے، اس روئے زمین پر اسکا مقام یہ ہے کہ وہ اللہ کا خلیفہ ہے۔
اسکے برعکس یہودیوں نے اپنے بڑے بڑے صاحب قلم ، ناول نگاروں، فلم سازوں اور سائنسدانوں کے ذریعہ دنیا میں یہ فکر عام کرنے کی کوشش کی کہ ہمیں نہیں معلوم ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے، اس لئے جہاں تک ممکن ہو انسان عیش کرلے، گویا انسان کی زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں، اسکی کوئی منزل ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا حصول ہی آج سب کچھ ہے جسے تم بھی عملا قبول کرچکے ہو چاہے لاشعوری طور پر ہی صحیح۔
قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا جب اس کا کوئی وجود نہیں تھا
أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا ﴿٦٧﴾ سورہ مریم
کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟
اسکے برعکس ابلیس کے کارندو ں نے انسانیت کو تاریکی میں ڈھکیلتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انسان بندر کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ اسکی ابتدا و تخلیق نامعلوم ہے ۔
سائنس آج تک یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا جبکہ اللہ نے نوع انسانی کو آگاہ کردیا کہ :
أَوَلَم يَرَ الَّذينَ كَفَروا أَنَّ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ كانَتا رَتقًا فَفَتَقنـٰهُما ۖ وَجَعَلنا مِنَ الماءِ كُلَّ شَىءٍ حَىٍّ ۖ أَفَلا يُؤمِنونَ ﴿سورة الأنبياء، آية 30﴾
کیا كفار غور نہیں کرتے کہ یہ آسمان و زمین باہم جڑے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں (دھماکہ) سے پھاڑ کر جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی، کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو) نہیں مانتے؟
سائنس گرچہ ایک بڑے دھماکے نتیجہ میں کائنات کی تخلیق Big bang کے نظریہ تک پہونچی ، لیکن اس نتیجہ پر پہونچنے کے باوجود لوگوں کو خالق حقیقی تک پہونچنے سے روکتی رہی تاکہ انسانیت کو الحاد کی کھائی میں دفن کیا جاسکے۔
قرآن نے نوع انسانی کو تاریکی سے نکال کر خالق کائنات کی معرفت کا نور عطا کیا:
ذٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُم ۖ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ ۖ خـٰلِقُ كُلِّ شَىءٍ فَاعبُدوهُ ۚ وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ وَكيلٌ ﴿سورة الأنعام، آية 102﴾
اللہ ہی تمہارا رب، اس کے سوا نہیں کوئی معبود نہیں، ہر چیز کا خالق، لہٰذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا ذمہ دارہے۔
لیکن اس حتمی نتیجہ تک پہونچنے سے روکنے کے لئے انسانیت کو کبھی جھوٹے معبودوں میں الجھایا گیا تو ایک بڑی آبادی کو الحاد کی طرف ڈھکیلنے کی کوشش کی گئی، اور آج ان لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے جو اس کائنات کے خالق کے عقیدہ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے خود کو ملحد کے خانہ میں درج کرتے ہیں۔
ان چند بنیادی نکات کی طرف اشاروں سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انسانیت کی گمراہی یا ہدایت کے بنیادی افکار کیا ہیں۔ وہ علوم جس کے بارے میں سائنس بڑے علمی و فکری معرکے گرم رکھتی ہے اور انہیں نکات کے گرد سارے معرکوں کا بگل بجاتی رہتی ہے ، یہ وہ علوم اور حقائق ہیں جس سے اللہ نے انسانوں کو سرفراز کیا ، انبیائے کرام کے ذریعہ ، ہر زمانہ اور ہر قوم میں ۔ بطور خاص ماضی میں بنو اسرائیل کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی ۔
مسلمانوں تم بھول گئے کہ تمہارے اسلاف نے اس دنیا کو ہزار سالوں تک اپنی برتری سے ابلیسی و یہودی لعنت سے پاک رکھا، وہ فیصلہ کن موڑ جب یہ دنیا یہودی سربراہی میں مختلف انقلابات کا شکار ہورہی تھی، انقلاب فرانس سے لے کر انقلاب روس تک اور اسکے پیچھے ایک علمی فلسفہ و ادب رائج کیا جارہا تھا ، یورپ کے ظلمت کدوں میں یہودی ایک نئی تہذیب کو پروان چڑھارہے تھے، جو اس دنیا میں مغربی تہذیب کے نام سے تھوپی جانے والی تھی، وہ ایک نئی فکر سے لیس ہوکر اس دنیا پر حملہ آور ہورہے تھے، تو اس کا سب سے بڑا نشانہ تم ہی تھے۔ یہ وہ فیصلہ کن موڑ تھا جب تم سو گئے، تمہارے صاحب نظر لوگوں نے ان خطرات کا مقابلہ اس طرح نہیں کیا جو کرنا چاہئے تھا۔
تم علم و سائنس میں پچھڑتے چلے گئے، تمہارے نا اہل علم دین کے علمبرداروں میں وہ بصیرت نہ تھی کہ وہ اس نئی جنگ میں آگے بڑھ کر محاذ سنبھالتے، پھر کیا ہوا تم عہد جدید میں قرآن کے پیغام کو لے کر نہیں اٹھ سکے ۔ تم نے سائنس کا مقابلہ اس علم وحی سے نہیں کیا، بلکہ تم علم وحی کی تشریح و تفسیر میں ہر زمانہ میں قرآن کی رہنمائی کے معجزہ کو ثابت نہیں کرسکے۔
نتیجہ کیا ہوا، اقوام متحدہ بنا ، جس کا خدو خال یہودی دماغ نے طے کیا، جس نے حقوق انسانی کا جھوٹا علم اٹھایا، جس کے تحت دسیوں عالمی ادارے بنے جس نے عورت کی آزادی کی اپنی فکر پیش کی اور بے پردگی و زنا کو قانونی حق قرار دیا۔ جس نے اسلامی ممالک میں شریعت سے دستبرداری اور اقوام متحدہ کی سربراہی کا عہد لیا۔ تمہارے ان اہل فکر و قلم کو پذیرائی ملی جنہوں نے اسلام کو پچھڑا ہوا مذہب بتا یا جنہوں نے اسلام کو ماضی کی کہانی کہہ کر مسترد کردیا ۔ تم میں ان لوگوں کو جو اسلامی افکار کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے اٹھے انہیں شدت پسند ، تنگ نظر اور بالآخر دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔
اے مسلمانوں رمضان کے اس مقدس مہینہ میں، اور اس مقدس مہینہ کی عظیم نعمت و عطا قرآن عظیم کے جشن کے موقع پر اس کتاب الہی کی دعوت کے تقاضوں کو گہرائی سے سمجھنے کا عہد کرو۔ یہ عہد کرو کہ تم ذرائع ابلاغ کو اہمیت دوگے ، اس لئے کہ قرآن نے اس پر بہت زور دیا ہے کہ اس کتاب نے اس زبان کو اختیار کیا جو زمانہ کی سب سے اڈوانس زبان تھی، اس لئے اس قرآن کا پیغام اس زمانہ کی ترقی یافتہ رائج زبانوں میں پہونچانے کے لئے اپنے نظام تعلیم کو بدلو۔
قرآن نے حکمت کی تعلیم پر بڑا زور دیا ہے، تم اپنا محاسبہ کرو کہ کیا تمہارے دینی نظا م تعلیم میں حکمت کا فقدان تو نہیں، یقینا اگر تمہارے نظام تعلیم میں حکمت کو راہ دی گئی ہوتی تو تم علمی دنیا میں اتنے ذلیل و خوار نہ ہوتے ۔
قرآن کہتا ہے:
ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَبِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ ۖ وَجـٰدِلهُم بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعلَمُ بِالمُهتَدينَ ﴿١٢٥﴾ سورة النحل
اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے۔
اب تم اس فرمان باری کی روشنی میں اپنا محاسبہ کرو کہ تمہارا موجودہ دینی تعلیمی نظام کیا اس قابل ہے کہ وہ موجودہ دور کی تبدیلیوں اور ترقیوں میں حکمت کے ساتھ عمدہ نصیحت پیش کرسکے، ہر گز نہیں ، تم اس قابل نہیں کہ دنیا کے سامنے کھڑے ہوسکو، باطل طاقتوں کو للکار سکو ، تو حکمت کے ساتھ اپنی فکر رکھنے کا سوال کہاں سے پیدا ہوگا۔
کیا تمہارا نظام تعلیم اتنی اہلیت پیدا کرتا ہے کہ وہ فکری و لسانی اور علمی و تعلیمی طور پر جوانوں کو اس لائق بنا سکے کہ وہ بہترین مباحثہ کا فریضہ انجام دے سکیں؟
اس وقت ان چند اشاروں سے زیادہ گفتگو کا مقام نہیں۔ یہ اشارے متقاضی ہیں کہ امت کے اصحاب حل و عقد ، علما و مشائخ ایک نئی روح کے ساتھ اٹھ کر اس رمضان کی روح کو امت میں جاری و ساری کردیں۔ یہاں قرآن کے اس پیغام کو ایک بار پھر دہرانے کی ضرورت ہے کہ مومن امانت دار ہوتا ہے ، اور امانت کا تقاضہ ہے کہ جو لوگ اس امت کے تعلیمی کارواں کو ترقی دینے کے اہل نہیں وہ اس پیغام کی روشنی میں کنارہ کش ہوکر ایسے راستوں کے بارے میں سوچیں جو ان کی دیانت کا آئینہ دار اور عند اللہ نجات کا ذریعہ بن سکے ۔
اس امت کے لئے بالعموم علمی پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ اس امت کو اس وقت ذہنی بیداری کا ثبوت دینا ہوگا، ایسے وقت میں جب دنیا "کورونا” جیسی وبا کا شکار ہے۔ ایک ایسی وبا جو معمہ بن کر رہ گئی ، اس وبا کے پیچھے عالمی طاقتیں ایک دوسرے کوپوری قوت سے مورد الزام ٹہرانے لگیں ۔ مطلع ابر آلودہے، دنیا کے افق پر سیاہ بادل چہار سو چھا رہے ہیں، موجودہ نظام عالم درہم برہم ہونے کو ہے۔
تاریخ انسانی کی اس بدترین آزمائش کے پیچھے یہودی دجالی تنظیم کے کردار سےچشم پوشی نہیں کی جاسکتی، ان کی تیاریاں اور اس وبا سے قبل ان کی باتیں پردہ کے پیچھے بہت سارے رازوں کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ وبا دنیا کی مکمل غفلت میں ہمارے سروں پر نازل ہوئی ہے، ماسونی طاقتیں اس وقت کے لئے پوری طرح تیار تھیں، اگر یقین نہ آئے تو ان کے لٹریچر ، ان کی فلموں کو دیکھ لو، خواہ امریکی جاسوسی ناول نگار "ڈین کونز Dean Koontz ” کا ناول The Eyes of Darkness ہو ، یا یہودی فلم ڈائرکٹر Steven Soderbergh اسٹیفن سوڈربرگ کی فلم Contagion کنٹیجن” ہو یا پھر مستقبل کی خبریں دینے والی بدنام زمانہ امریکن کارٹون سیریل The Simpsons کی پیشن گوئیاں ہو ، گویا کوئی طاقت ہے جو ان سبھوں کو کورونا کا اسکرپٹ لکھوا رہی تھی، یا پھر یہ طاقتیں اس وقت کے لئے پوری طرح تیار تھیں کہ قدرت کی طرف سے اس عہد میں اس طرح کے کسی حیاتیاتی حملہ کا مطلب پوری دنیا کے نظام کو بدلنے کی آگاہی ہوگی۔ اس لئے اس بگڑتی ہوئی دنیا میں وہ اپنی اگلی منزل بھی طے کرچکے ہیں وہ اس اخیر مرحلہ میں شاید عیسائی مغرب کے بجائے ملحد چین کو دجال کے استقبالیہ عالمی طاقت کے طور پر کھڑا کرنے والے ہیں ۔
امریکہ و چین کے مابین ایک بڑی بحث چھڑی ہوئی ہے، گویا ا س وبا میں امریکہ کو اپنا زوال حتمی طور پر نظر آرہاہے، اسی طرح یورپ بھی گھٹنوں کے بل آچکا ہے، تو کیا اس بوکھلاہٹ میں یہ طاقتیں کسی تیسری طاقت کو ابھرنے سے روکنے کے لئے آخری حد تک جاسکتی ہیں۔ وقت بڑا نازک ہے، اگلے دو تین سال شاید اس دنیا میں موجودہ شر کی طاقتوں امریکہ و چین اور روس کے زوال کا پیش خیمہ ہوں، عین ممکن ہے کہ اللہ ان سبھوں کے درمیان سے مسلمانوں کے لئے کوئی راستہ نکال دے۔
ان سارے امکانات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو اس رمضان میں قرآن کے حقیقی پیغام کو سمجھتے ہوئے دنیا پرستی سے کم از کم اب تو تائب ہوجانا چاہئے ، مسلمانوں کو باہمی اخوت کا ثبوت دینا چاہئے ، انہیں اس حالت کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ عام بھوک مری کی کی صورت میں مل بانٹ کر کھائیں گے، ضرورت مندوں کا خیال رکھیں گے، اس لئے کہ اس سارے اتھل پتھل میں ایک نئے عہد اسلامی کے طلوع کی کرنیں صاف نظر آرہی ہیں۔ اخیر زمانہ کی احادیث کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ اسی وقت میں جی رہے ہیں۔ حالات اتنی تیزی سے بدلیں گے کہ ہمیں بہت کچھ سوچنے سمجھنے کی فرصت نہیں ملے گی۔
اصحاب نظر دیکھ رہے ہیں کہ امت انتہائی کٹھن وقت سے گذرنے والی ہے، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ امت ایک عرصہ سے بہت حدتک بدل چکی ہے، اپنی شناخت کھو چکی ہے۔ اس امت کے ہاتھوں میں ایک بار پھر زمام عالم دینے کے لئے بڑے سخت اوپریشن کی ضرورت ہوگی، بڑی سرجری کرنی ہوگی، جب یہ امت اپنے اصلی روپ میں جلوہ گر ہوگی۔
اوپریشن کی یہ مدت اور اس کا عمل بڑا تکلیف دہ ہوسکتا ہے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اپنے رب کا دامن تھام لیا، جنہوں نے اپنے رسول ﷺ کی نصیحتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا، جنہوں نے ان مسنون دعاؤں کو اپنی زندگی بدلنے کی حقیقی تمنا میں بدل دیا۔
اس لئے اگلے چند صفحات میں کچھ منتخب دعائیں دی جارہی ہیں جو رمضان کے بقیہ دنوں میں اور رمضان کے بعد بھی صبح و شام کا حصہ بن جائیں تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔
إِنَّ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ إِنّا لا نُضيعُ أَجرَ مَن أَحسَنَ عَمَلًا ﴿٣٠﴾ الكهف
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے یقیناً ہم اس شخص کا اجر ضائع نہیں کرتے جو نیک عمل کرتا ہے۔
ان دعاؤں کے بعد اس رسالہ کا پانچواں حصہ ہے ” خشوع والی نماز”
(جاری)

Comments are closed.