جمعہ نامہ :جو کرے گا امتیاز ِرنگ و خوں مٹ جائے گا

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے :’’ہم نے انسان کو سٹری ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا  اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے‘‘۔تخلیق انسانی کااعلان ہوا تو اس وقت فرشتوں کے ساتھ جنوں کا سردار ابلیس بھی موجود تھا ۔ کتابِ ہدایت میں وہ منظرنامہ یوں بیان ہوا ہے کہ:’’ پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ "میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں ۔جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا” چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا‘‘ ۔قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ انکارِ ابلیس کا سبب خود اس کی زبانی پیش کردیا گیا۔ فرمانِ قرآنی ہے:’’رب نے پوچھا "اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟ تو اس نے کہا "میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اِس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے” َ

ابلیس کے تکبراور آدم کی حقارت کاسبب تقویٰ ، عبودیت یا صلاحیت نہیں بلکہ تخلیق کے اجزائے ترکیبی کا فرق تھا ۔ آگ کےگھمنڈ میں مبتلا ہو کر مٹی سے بنے آدم کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے انکار کرنے والا ابلیس بھول گیا وہ اس خالق کائنات کی نافرمانی کررہا ہے جس نے اپنی مرضی سے ان کے اجزائے ترکیبی طے کیے۔ اس میں دونوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھالہٰذہ فخرو و تحقیر بے معنیٰ تھی مگر کبرو استکبار سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کردیتا ہے ۔ اس لیے وہ اپنے خالق و مالک سے بغاوت کرکے راندۂ درگاہ ہوگیا تو رب نے فرمایا:’’اچھا نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے اور اب روز جزا تک تجھ پر لعنت ہے” ۔ اس وعید کے بعد بھی اپنی غلطی سے رجوع کرنے کے بجائے وہ اڑ گیا اورپلٹنے کے بجائے بغاوت کی مہلت طلب کرتے ہوئےعرض کیا :”میرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کے لیے مہلت دے جبکہ سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے” ۔

رب کائنات نے جواب دیا: "اچھا، تجھے اُس دن تک مہلت ہے جو ہمیں معلوم ہے”   ۔ ابلیس اپنی حصولیابی پر رب کائنات پر الزام تراشی کرتے ہوئے بولا "میرے رب، جیسا تو نے مجھے بہکایا اُسی طرح اب میں زمین میں اِن کے لیے دل فریبیاں پیدا کر کے اِن سب کو بہکا دوں گا‘‘۔ یعنی اپنے ساتھ بنی نوع آدم کو بھی جہنم کا ایندھن بنالوں گا ۔ انسانوں کو بہکانے کے لیے گھڑے جانے والے شیطانی نظریات میں نسلی تفاخر کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال قوموں کو وہ گھمنڈ میں مبتلا کرکے کمزوروں پر ظلم ا وراستحصال کی خاطر اکساتا ہے۔ کسی کو رنگ و نسل کی بڑائی کا شکار کردیتا ہے تو کسی کو مال و دولت نشے میں دھُت کرکے اپنے جھانسے میں لے لیتا ہے۔ مغرب و مشرق میں یہی کھیل چل رہا ہے۔ہٹلر نے جرمن نسل کی برتری کے نام پر جنگ عظیم چھیڑ کرکروڈوں لوگوں کو ہلاک کروا دیا۔ آج بھی عظیم ترین جمہوریت کے دعویدار ترقی یافتہ ملک امریکہ میں’بلیک لائف میٹر‘ کے عنوان سے تحریک چلانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ظہران ممدانی کے میئر کی دوڑ میں شامل ہونے کو سفید فام صدر سمیت اس کے نسل پرست حامی اپنی توہین گردانتے ہیں۔

وطن عزیز میں ابلیس نے انسانوں کی بہکانے کی خاطر یہ عقیدہ گھڑ کر پیش کردیا کہ مختلف ذات و نسل کی تخلیق معبود حقیقی نے اپنے مختلف اعضاء سے کی ہے نعوذ بااللہ ۔ برہمن سر سے بنائے گئے اس لیے رشدو ہدایت اور پوجا پاٹ کی ذمہ داری پر معمور ہیں ۔اس کرم کانڈمیں کوئی اور ذات کا فرد مداخلت نہیں کرسکتا۔ وہ مذہبی اشلوک نہ پڑھ سکتا ہے اور اسے سنانے کا حقدار ہے ۔ کشتریوں کو بازووں سے بنایا گیا تاکہ اقتدار کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں ر ہیں ا ور جنگ و جدال بھی وہی کریں۔ کھیتی باڑی اور تجارت کے لیے ویش سماج کو پیٹ سے پیدا کیا گیا اس لیے وہ پیٹ پوجا کی سہولت فراہم کرتے ہیں اور بیچارے شودر چونکہ پیروں سے بنائے گئے اس لیے ان کا کام مذکورہ بالا تینوں ذات کے لوگوں کی بلا چوں چرا غلاموں کی مانند خدمت بجالانا ہے۔ وہ خود ساختہ اونچی ذاتوں کی خدمت کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرسکتے۔ ان میں سے کوئی اگر ایسا کرتا ہے توگویا وہ مذہبی تعلیمات کے انحراف کی وجہ سے سزا کا مستحق ہے ۔ اس غیر انسانی عقیدے کو مضبوط تر کرنے کی خاطر تناسخ کا عقییدہ گھڑا گیا جس کے مطابق اس جنم میں کا شودر اپنے پچھلے جنم کے گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے اور اعلیٰ ذاتوں کی خدمت کرکے اسے اپنا اگلا جنم سنوارنا چاہیے۔

آزادی کے 75؍سال بعد بھی چھوت چھات کے سبب صدر مملکت دروپدی مرمو کو جگن ناتھ مندر کےگربھ گرہ میں جانے سے روک دیا جاتا ہے بلکہ ان کے پیش رورام ناتھ کوند کی واپسی کے بعد مندر کو پاک بھی کیا جاتا ہے۔ سناتن دھرم کا یہ بنیادی عقیدہ ہندو عوام کے قلب و ذہن مین اس قدر راسخ ہے کہ جب یادو سماج کا مکٹ منی بھاگوت کتھا سناتا ہے تو اس کو رسوا کرنے کی خاطر اس کی چوٹی کاٹنے کے بعد سر بھی منڈوا دیا جاتا ہے۔ پچیس ہزار روپئے ہرجانہ وصول کرکے اسے پیشاب سے پاک کیا جاتا ہے۔ اس اہانت آمیز سلوک پر شرم کرنے کے بجائے بیشتر دھرم گرو اسے مذہبی صحیفوں کی بنیاد پرجائز ٹھہراتے ہیں ۔ کتھا واچک مکٹ منی پر میزبان خاتون کے ساتھ چھیڑخوانی کا الزام جڑدیا جاتا ہے اور سرکار دونوں فریقوں پر مقدمہ درج کرکے معاملہ رفع دفع کرتی ہے۔ ہندوستانی سماج کی اس برائی کو دور کرنے میں دس سال کے لیے نافذ کیا جانے والا ریزرویشن 70؍ سال بعد بھی ناکام رہا ۔اب ذات پات کی مردم شماری سے بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان واقعات کو اچھال کر خوش ہونے پر اکتفاء کرنے کے بجائے اسلامی عقائد کی روشنی میں اصلاح حال کی جدوجہد کرے۔ یہ ہمارا فرض منصبی اور ہم اس کے لیے عندا للہ مسئول ہیں۔ وشوگرو(عالمی رہنما ) بننے کا خواب دیکھنے والوں کو یہ بات بھی سمجھاناچاہیےکہ؎

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

Comments are closed.