حدیثِ رمضان المبارک

عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی
(پچیسواں روزہ )
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے کئی گنا بڑھایا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک نیکی دس گنی تک اور دس گنی سے سات سو گنی تک بڑھائی جاتی ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جُدا ہے، کیوں کہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کابدلہ دوںگا۔ روزہ دار اپنی شہواتِ نفس اور اپنے کھانے پینے کو میرے لئے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لئے دوفرحتیں ہیں۔ ایک فرحت افطار کے وقت کی اور دوسری فرحت اپنے رب سے ملاقات کے وقت کی۔ اور روزہ دار کے منہ کی بساند اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبوسے زیادہ پسند ہے۔ اور روزے ڈھال ہیں، پس جب کوئی شخص تم میں سے روزے سے ہو تو اسے چاہئے کہ نہ بدکلامی کرے اور نہ دنگا فساد کرے۔اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑے تو وہ اس سے کہہ دے کہ بھائی میں روزے سے ہوں۔ (متفق علیہ)
قرآن مجید کی تلاوت کرنا: سلمہ بن کھیل کہتے ہیں: شعبان کو قرأت کے مہینہ کا نام دیا جاتھا۔اور جب شعبان کا مہینہ شروع ہوتا تو عمروبن قیس اپنی دوکان بند کر دیتے اور قرآن مجید کی تلاوت کے لیے فارغ ہو جاتے۔اور ابو بکر بلخی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ماہ رجب کھیتی لگانے کا مہینہ ہے اور ماہ شعبان کھیتی کو پانی لگانے کا اور ماہ رمضان کھیتی کاٹنے کا مہینہ ہے۔اور ان کا یہ بھی کہنا ہے: ماہ رجب کی مثال ہوااور ماہ شعبان کی بادلوں اور ماہ رمضان کی مثال بارش جیسی ہے اور جس نے ماہ رجب میں نہ تو کھیتی بوئی ہو اور نہ ہی شعبان میں کھیتی کو پانی لگایا تو وہ رمضان میں کیسے کھیتی کاٹنا چاہتا ہے۔
بیہقی کی روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آیا ہے، جو کہ برکت والا ہے، اس مہینے میں اللہ کی رحمت تمہیں ڈھانب لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری خطائیں معاف کرتا ہے اور دعائیں قبول کرتا ہے۔ رمضان المبارک کی پہلی ہی رات سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دن رات بندوں کے لیے دعائے مغفرت مانگنے پر بندوں کو مامور کردیتا ہے اور روزہ داروں کے لیے جنت کی آرائش وزیبائش کا فرمان جاری کردیتا ہے۔ اللہ رب العزت کی جانب سے رمضان المبارک کی ہر رات بہت سے لوگوں کے لیے جہنم کی آگ سے نجات کا پروانہ جاری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ دار کے لیے بے حدوحساب اجروثواب مقرر کیا ہے اور یہ اجروثواب اللہ تعالیٰ خود عنایت فرمائیں گے۔
قرآن بندے کے اوپر اللہ کا انعام ہے، اور روزہ بندے کی طرف سے اس انعام کا عملی اعتراف۔ روزہ کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو شکر گزاری کے قابل بناتا ہے۔ وہ ایک غیر معمولی خدا ئی حکم کی تعمیل کر کے خدا کی بر تری کے احساس کو اپنے اوپر طاری کرتا ہے۔ روزہ کے کورس سے گزر کر وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق وہ دنیا میںمتقیانہ زندگی گزار سکے۔
روزہ ایک مخصوص عمل ہے۔ اس سے آدمی کے دل میں نرمی اور شگفتگی آتی ہے۔ اس طرح روزہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے اندر لطیف نفسیات کو جگائے۔ وہ ان کیفیتوں کو احساس کی سطح پر پا سکے جو اللہ کو اپنے بندوں سے اس دنیا میں مطلوب ہیں۔
روزہ کا پُر مشقت تجربہ آدمی کو مادی سطح سے اٹھا کر روحانی سطح کی طرف لے جاتا ہے۔ روزہ ایک قسم کی تربیت ہے جس سے آدمی کے اندر یہ استعداد پیدا ہوتی ہے کہ وہ تڑپ کی سطح پر خدا کا عبادت گزار بنے۔ روزہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ اللہ کی شکر گزاری میں اس کا سینہ تڑپے۔اور اللہ کی پکڑ کے خوف سے اس کے اندر کپکپی پیدا ہو۔٭٭٭
Comments are closed.