حدیثِ رمضان المبارک

عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی
(چھبیسواں روزہ )
روزہ اور قرآن: قرآن میں روزہ کا حکم دیتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ نزول قرآن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روزہ اور قرآن میں خاصی مناسبت ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدًی للناس وبینات من الھدی والفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ (البقرہ ۱۸۵)
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا۔ ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور کھلی نشانیاں راستہ کی اور حق وباطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا۔ پس تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے۔
قرآن کا نزول ۶۱۰ء میں شروع ہوا۔یہ قمری کیلنڈر کے اعتبار سے رمضان کا مہینہ تھا۔پہلی وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت اتری جب کہ آپ حراء نامی غار میں تھے۔ غارِ حرا ء میں قرآن کا اتر نا شروع ہوا اور ۲۳سال کی مدت میں تدریجی نزول کے بعد وہ مدینہ میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔
قرآن جیسے ہدایت نامہ کا نزول انسان کے اوپر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام ہے۔ کیوں کہ وہ انسان کو سب سے بڑی کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ انسان کس طرح اپنی موجودہ زندگی کو بامعنی بنائے تاکہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں وہ معنویت سے بھری ہوئی اس دنیا میں داخلہ پا سکے جس کا نام جنت ہے۔ جنت انسان کی منزل ہے، اور روزہ گویا اس جنت تک پہنچنے کا راستہ۔
رمضان کا مہینہ اسی نعمت کی سالانہ یادگار منانے کا مہینہ ہے۔ قرآن کے نزول کی یہ یادگار جشن کی صورت میں نہیں منائی جاتی بلکہ تقویٰ اور شکر گزاری کے ماحول میں منائی جاتی ہے۔ اس مہینہ میں روزہ رکھنا نعمت خداوندی کا سنجیدہ اعتراف ہے۔ وہ عمل کی زبان میں یہ کہنا ہے کہ……خدایا، میں نے سنا اور میں نے اس کو تسلیم کیا۔
اسی کے ساتھ رمضان کا مہینہ قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں خصوصیت سے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے۔ راتوں میں تراویح کی صورت میں قرآن کو ادب واحترام کے ساتھ سنا جاتا ہے۔ یہ مہینہ اس مقصد کے لیے خاص ہے کہ اس میں اللہ کی سب سے بڑی نعمت کا سب سے زیادہ تذکرہ کیا جائے۔
نزول قرآن کے مہینہ میں قرآن کو پڑھتے ہوئے آدمی کو وہ لمحہ یاد آتا ہے جب کہ آسمان اور زمین کے درمیان نورانی اتصال قائم ہوا۔ اس کو یاد کر کے وہ پکار اٹھتا ہے کہ خدیا، تو میرے سینہ کو بھی اپنی تجلیات سے روشن کردے۔ قرآن میں وہ ان سعید روحوں کی بابت پڑھتا ہے جنھوں نے مختلف وقتوں میں ربانی زندگی گزاری۔ وہ کہہ اٹھتا ہے کہ خدایا، تو مجھ کو بھی اپنے ان پسندیدہ بندوں میں شامل فرما۔ قرآن میں وہ جنت اور جہنم کا تذکرہ پڑھتا ہے۔اس وقت اس کی روح سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ خدایا، مجھے جہنم سے بچالے اور مجھ کو جنت میں داخل کر دے ۔
اس طرح قرآن اس کے لیے ایک ایسی کتاب بن جاتا ہے جس میں وہ جئے۔جس سے وہ اپنے لیے رزق حاصل کرے جس کے نورانی سمند رمیں غسل کرکے وہ پوری طرح پاک ہو جائے۔٭٭٭

Comments are closed.