حدیثِ رمضان المبارک

عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی
(اٹھائیسواں روزہ )
صدقہ ء فطر کس پر واجب ہے: صدقہ ء فطر ہر مسلمان آزاد پر جب کہ وہ بقدِ نصاب مال کا مالک ہو واجب ہے۔ پس جو شخص مالک نصاب ہو اس پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے صدقہ ء فطر ادا کرے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی صدقہ ء فطر ادا کرے البتہ اگر نابالغوں کے پاس اپنا مال بھی ہو تو ان کے مال میں سے صدقہ فطر ادا کیا جاسکتا ہے۔
عَن ْ بنِ عُمَرَ قاَلَ فَرَ ضَ رَسوُلُ اللّٰہِ ﷺ زَکوٰۃُ الْفِطرِ صاَعاً مِّنْ تَمَرٍ اَوْ صاَعاً مِّنْ شَعِیْرٍ عَلَی الْعَبدِ الْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰی وَ الصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اَمَرَ بِہَا اَنْ تُؤَدّٰی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ اِلَی الصَّلٰوۃِ۔ ( بخاری)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں سے ہر غلام، آزاد، مرد عورت اور چھوٹے بڑے پر زکوٰۃ فطر ( صدقہ ء فطر) کے طور پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع ’جو، فرض قرار دیا ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ ء فطر کے بارے میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو عید الفطر کی نماز کے لئے جانے سے پہلے دیدیا جائے۔
صدقہ ء فطر کس وقت واجب ہوتا ہے: صدقہ ء فطر کا وجوب عید الفطر کی فجر طلوع ہونے پر ہوتا ہے لہٰذا جو شخص قبل طلوع فجر کے مرجائے یا فقیر ہوجائے، اس پر صدقہ فطر واجب نہیں، اسی طرح جو شخص بعد طلوع ِ فجر کے اسلام لائے اور مال پاجائے یا جو لڑکا ، لڑکی فجر طلوع ہونے سے پہلے پیدا ہوا ہو یا جو شخص فجر کے طلوع ہونے سے پہلے اسلام لائے یا مال پاجائے اس پر صدقہ ء فطر واجب ہے۔(علم الفقہ حصہ چہارم)
عید کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے اسی وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے تو اگر کوئی فجر کا وقت آنے سے پہلے ہی مرگیا تو اس پر صدقہ فطرواجب نہیں اس کے مال میں سے نہ دیا جائے۔(بہشتی زیور حصہ سوم)
صدقۃ الفطر کی مقدار : صدقۃ الفطر کی مقدار ایک آدمی کی طرف سے پونے دو سیر گیہوں یا چاول یا اس کی قیمت دینا چاہئے۔رمضان میں بھی صدقۃ الفطر دیا جاسکتا ہے۔اس کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں۔
صدقۃ الفطر عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا سنت ہے بعد میں بھی جائز ہے، ایک آدمی کا فطرہ ایک مستحق کو دینا، یا تھوڑا تھوڑا کئی مستحق کو دینا، اسی طرح کئی آدمیوںکا فطرہ ایک ہی مستحق کو دینا جائز ہے۔
صدقہ کرنے کی قرآن و حدیث میں بڑی اہمیت و فضیلت آئی ہے ۔ صدقہ سے پریشانیاں ٹل جاتی ہیں۔ بڑی مصیبت دور ہوجاتی ہے۔اس لئے صدقہ خوب بڑھ چڑھ کرکرناچاہئے خصوصاً اس مبارک مہینہ میں جس میں ثواب دوہرا ملتا ہے۔اور دوہرے کی کیا حیثیت اللہ تعالیٰ اس میں کئی گنازیادہ کرسکتا ہے۔ یہ ہماری نیتوں پر ہے جیسی ہماری نیت اور خلوص ہوگا ویسے ہی اللہ تعالیٰ اس کا اجر عظیم عطافرمائے گا۔اس کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ وہ ہر چیز پرقادر مطلق ہے۔٭٭٭
Comments are closed.