مولانا وصی احمد صدیقی صاحب کا انتقال ملت کا عظیم خسارہ : عبد الحئی

مولانا وصی احمد صدیقی صاحب کا انتقال ملت کا عظیم خسارہ : عبد الحئی
یہ دنیا فانی ہے اور یہاں کسی چیز کو ثبات نہیں ، بے شمار انفس اس دار فانی میں روشن اور تاریک نشیب و فراز سے گذرتی ہے، اور پھر موت کے ہنگاموں میں روپوش ہوجاتی ہے،لیکن اسی عالم رنگ و بو میں کچھ وجود ایسے بھی ہوتے ہیں جو خاموشی کے ساتھ آنکھیں کھولتے ہیں مگر حیات کے اس سفر میں اپنی خداداد صلاحیتوں،فطری استعدادوں،بے پناہ مشقتوں،مسلسل قربانیوں اور مستقل جاں فشانیوں سے کارناموں کا ایک جہاں آباد کرجاتے ہیں، قدم قدم پر روشنی کا مینار کھڑا کر دیتے ہیں،ان کا ہر نقش قدم آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہوتا ہے،وہ اپنے تعمیری جذبات،اور لافانی خدمات کے لہو سے صحرا کو گلزار کردیتے ہیں،وہ بے مایہ ذروں کی ایسی پرورش کرتے ہیں کہ انہیں آفتاب کی زندگی مل جاتی ہے،نتیجتا ان کے افکار و خیالات،تعلیمات وخدمات کے باعث نہ صرف ان کا وجود بلکہ ارد کا ماحول،اورمعاشرہ بھی روشن ہوجاتاہے،
ملت اسلامیہ ہند عظیم رہنما،بصیرت مندانہ فکر کے حامل،سرمایہ ملت کے نگہبان،حضرت مولاناوصی احمد صدیقی قاسمی (ناظم مدرسہ چشمہ فیض ململ بانی جامعہ فاطمہ الزہراء ) کی شخصیت بھی ان تمام صفات سے متصف تھی ، مذکورہ باتیں عبد الحئی نے مولانا وصی صدیقی صاحب سے اپنے والہانہ تعلقات کو اور ان کی شفقت و محبت کو یاد کرتے ہوئے کہیں ، انہوں نے دکھ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت کے دنیا سے اچانک اس طرح رخصت ہونے کا گمان بھی نہیں تھا، لیکن قدرت کی ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، مرنے کا ایک وقت مقررہ کو ٹالا نہیں جاسکتا ، مولانا مرحوم عظیم نسبت کے حامل اور بزرگانہ اداؤں کے حامل تھے۔ ان کا وجود ملتِ اسلامیہ کے لیے بلاشبہ نعمت و برکت تھا۔ ان کے فیوض و برکات سے ایک عالم مستفیض ہوا۔ حضرت بریلینٹ انٹرنیشنل اسکول کھیری بانکا سے دلی وابستگی رکھتے تھے ہمیشہ نیک مشوروں سے نوازا کرتے تھے آج پورا بریلینٹ پریوار حضرت کی جدائی سے سوگوار ہے یقیناً ان کے انتقال سے جو سونا پن پیدا ہوا ہے وہ دیر اور دور تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔ اللہ عز و جل سے دعا کرتے ہیں امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے،مولانا مرحوم کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے، ان کی بے لوث خدمات کا انھیں اجر عظیم عطا فرمائے، ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، مولانا فاتح اقبال اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے،
Comments are closed.