نفلی قربانی افضل ہے یا صدقہ ؟ محمد زاہد ناصری القاسمی

نفلی قربانی افضل ہے یا صدقہ ؟
محمد زاہد ناصری القاسمی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
حسن درجے کی سند کے ساتھ صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ : رسول اللہ ﷺ نے (حجۃ الوداع کے موقع پر) ہدی کے جو انٹ قربان فرمائے تھے ان کی تعداد سو تھی، ان میں سے تریسٹھ کو تو بدست خود نحر (ذبح) کیا تھا اور بقیہ کو (ان کے حکم سے) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نحر فرمایا تھا، نبی کریم ﷺ نے ہر اونٹ کا کچھ حصہ نکالنے کا حکم فرمایا؛ چنانچہ وہ ایک ہانڈی میں رکھے (اور پکائے گئے) پھر دونوں نے اس کے شوربے نوش فرمائے۔
(مسندِ احمد، حدیث نمبر : 14549)
بعض نادان دوستوں کی طرف سے وقفے وقفے سے لوگوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر قربانی کے دنوں میں قربانی نہ کرکے اتنے پیسے غریبوں میں بانٹ دیے جائیں تو زیادہ ثواب ہوگا، اسی طرح بعض اہل علم کی جانب سے یہ رائے سامنے آئی ہے کہ موجودہ حالات میں نفلی قربانی نہ کرکے اس کی رقم دینی مدارس اور ضرورت مندوں میں تقسیم کردی جائے تو بہتر ہوگا۔
واضح رہے کہ واجب قربانی کو چھوڑ نے کی اجازت تو ہو ہی نہیں سکتی، رہ گئی بات موجودہ حالات میں نفلی قربانی کی بجائے وہ رقم صدقہ کرنے اور اسے افضل قرار دینے کی تو وہ بھی محل غور ہے؛ کیونکہ نفلی قربانی منصوص علیہ ہے، اور مذکورہ رائے اس کے خلاف، نیز حساس، نازک اور فقہی سیمینار کی متقاضی ہے، اگر مفتیان کرام اپنے وسیع مطالعہ کی روشنی میں اس رائے کے نفع ونقصان ہر دو پہلو پر اچھی طرح غور وفکر کرلیں، نیز تبادلۂ خیال اور علمی مناقشہ کے بعد ان کے درمیان اس رائے پر اتفاق ہوجائے تو پھر وہ رائے قابل اعتراض نہیں ہوگی کہ اہل علم کا متفقہ فیصلہ بھی شریعت میں پسندیدہ اور قابل عمل ہوتا ہے؛ کیونکہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک مبارک فرمان کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کا مخصوص طبقہ، یعنی وارثین انبیاء جس چیز کو بہتر سمجھیں گے وہ اللہ کے نزدیک بھی عمدہ ہی ہوگی۔”
"… مَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ …”
(مسندِ احمد، حدیث نمبر : 3600)
جمہور اہل علم کی رائے کے مطابق کسی مجبوری اور شدید ضرورت کے بغیر نفلی صدقے کا قربانی سے افضل ہونا تو کجا، وہ تو قربانی کا بدل بھی نہیں ہوسکتا؛ اس لیے بطور وضاحت چند باتیں قارئین کی خدمت میں پیش ہیں :
(١) ہمیں معلوم ہے کہ اگر کوئی آدمی نفلی حج کرے تو اس سے دوسرے غریبوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، پھر بھی حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ (وفات : ١٥٠ ھ) اور دوسرے کئی فقہاء کے نزدیک حج ہی افضل ہے نہ کہ صدقہ، جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ نفلی قربانی کے گوشت اور کھال وغیرہ سے بھی غریبوں کی امداد ہوتی ہے تو پھر صدقہ کو نفلی قربانی سے افضل کیوں کہاجاسکتا ہے ؟ نیز غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قربانی میں جانور کی خریداری، اس کی حفاظت، اس کے لیے چارے وغیرہ کا انتظام، ذبح کا عمل، گوشت کی کٹنگ، گندگی اور ناپاکی سے جگہ کی پاکی اور صفائی، نیز رشتہ داروں اور ضرورت مندوں میں گوشت وغیرہ کی تقسیم، یہ سارے امور ایسے ہیں جن کی وجہ سے قربانی کا عمل صدقہ کے مقابلے میں زیادہ مشقت وپریشانی کا سبب ہے، اور چونکہ فقہاء کرام نے نفلی حج کے افضل ہونے کی ایک علت کثرت عمل اور مشقت کو قرار دیا ہے، جو نفلی قربانی میں بھی موجود ہے؛ لہذا مذکورہ علت میں اشتراک کی وجہ سے بھی نفلی قربانی ہی افضل ہوگی، نہ کہ صدقہ، دیکھیے ! حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ابتداءا اس بات کے قائل تھے کہ نفلی حج کرنے سے افضل اور بہتر ہے کہ اس کی رقم کو ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا جائے؛ لیکن جب انھوں نے حج کیا اور حج میں پیش آنے والی مشقتوں اور پریشانیوں کا مشاہدہ فرمایا تو اپنے اس قول سے رجوع کرلیا اور اس بات کے قائل ہوگئے کہ نفلی حج ہی صدقہ کے مقابلے میں افضل اور بہتر ہے؛ چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ (وفات : ١٢٥٢ھ) نے لکھا ہے کہ : "رجع أبو حنيفة عن القول بأن الصدقة أفضل من حج التطوع، لما حج وعرف مشقته.”
(شرح عقود رسم المفتي : ١٣٧، مکتبہ تھانوی دیوبند)
(٢) رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے دنوں میں (مقررہ فرائض واجبات کے علاوہ کسی اور عمل کے مقابلے میں) بطور قربانی حلال اور مخصوص قسم کے جانوروں کا "اھراق دم” یعنی خون بہانے کو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ عمل قرار دیا ہے؛ چنانچہ ارشاد فرمایا :
” مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ … ”
(جامع ترمذی، حدیث نمبر : 1493)
سند کے اعتبار سے اس روایت کی صحت اور ضعف کے سلسلے میں محققین کی ملی جلی رائے ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن، "تحفة الأحوذي” کے مطابق امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح اور خود صاحب تحفہ نے بھی حسن قرار دیا ہے، جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے، آگر مذکورہ روایت کی سند کو کمزور ہی مان لیا جائے تو بھی قربانی کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی رغبت وچاہت، پوری زندگی پابندی ومواظبت اور اپنی طرف سے قربانی کی وصیت، نیز قربانی کے سلسلے میں مسلمانوں کا تعامل، یہ ساری چیزیں متن حدیث کی تائید اور اس کی صحت کو ثابت کرتی ہیں، درج ذیل روایتوں سے آپ ﷺ کی رغبت ومواظبت کا اندازہ لگائیے :
امام محمد بن عیسی ترمذی رحمہ اللہ (وفات : ٢٧٩ھ) نے حسن درجے کی سند کے ساتھ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت نقل کی ہے، انھوں نے فرمایا :
” أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي كُلَّ سَنَةٍ.”
” رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں دس سال رہے، انھوں نے ہر سال قربانی کے جانور ذبح کیے۔”
(جامع ترمذی، حدیث نمبر : 1507)
اسی طرح کی ایک روایت امام محمد بن سعد بغدادی رحمہ اللہ (وفات : ٢٣٠ھ) نے بھی طبقات میں نقل فرمائی ہے؛ لیکن اس میں "لا يَدَعُ الأَضْحَى” کے الفاظ ہیں، جن سے (مدنی زندگی کے دس سالہ دور میں) رسول اللہ ﷺ کا قربانی نہ چھوڑنا، یعنی بلاناغہ قربانی کرنا ثابت ہے۔”
(السيرة النبوية، ذكر فرض شهر رمضان … و سنة الأضحية : ١٩١/١)
اماں جان حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ کا مبارک معمول تھا کہ جب وہ قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے بڑے، موٹے تازے، سینگھ والے، خوبصورت اور کتا، یعنی خصی اور بدھیا کیے ہوئے مینڈھے خرید تے، ان میں سے ایک اپنی امت اجابت، یعنی ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرماتے، جنھوں نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا ہو اور اس کا پیغام نبی اکرم ﷺ کے ذریعے لوگوں تک پہنچنے کی گواہی دی ہو، اور دوسرا مینڈھا اپنی، اپنے اہل خانہ اور آل واولاد کی طرف سے ذبح کرتے۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر : 3122)
(٣) اب رہی بات موجودہ حالات میں لوگوں کی معاشی پریشانیوں کی تو یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے بھی خراب حالات سے حضرات صحابہ دوچار ہوچکے ہیں؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی مبارک خدمت میں سائلین کا آنا، آپ ﷺ کے سامنے اپنی ضرورتوں کا تذکرہ کرنا اور رسول اللہ ﷺ کا اپنی طرف سے یا صحابہ کرام سے چندہ کرکے ان کی ضرورتیں پوری کرنا عام سی بات تھی، ہجرت کے ابتدائی دور میں حضرات مہاجرین کی غربت تو محتاج بیان نہیں ہے، جبکہ حضرات انصار میں بھی سب مال دار نہیں تھے، اسی طرح غزوۂ تبوک ٩ھ میں میں بھی معیشت کے حالات انتہائی خستہ اور ناگفتہ بہ تھے، یہی وجہ ہے کہ اس سال کو "عام العسر” یعنی مشکلات کا سال کہا جاتا ہے؛ چنانچہ اس کا تذکرہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ (وفات : ١٣٩٤ھ) نے اپنی کتاب سيرة المصطفى ﷺ میں واقعۂ تبوک کو بیان کرتے ہوئے ان الفاظ میں کیا ہے : "بعد مسافت اور موسم گرما، زمانۂ قحط اور گرانی، فقر وفاقہ اور بے سروسامانی۔ ایسے نازک وقت میں جہاد کا حکم دینا تھا”۔ اس موقع پر خود حضور ﷺ نے بھی لوگوں کی پریشانی اور تنگ دستی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ اعلان فرمایا تھا کہ ” مَنْ يُنْفِقُ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً ". ” اللہ کی راہ میں مقبول صدقہ پیش کرنے کے لیے کون تیار ہے ؟ ” وَالنَّاسُ مُجْهَدُونَ مُعْسِرُونَ ” جبکہ لوگ مبتلائے مشقت اور مفلس وتنگ دست ہیں۔”
(جامع ترمذی، حدیث نمبر : 3699)
جیسا کہ مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو قربانی محبوب اور مرغوب تھی، یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے بعد پابندی اور فراخدلی کے ساتھ مسلسل نو سال تک دو مینڈھے اور دسویں سال حجۃ الوداع کے موقع پر سو انٹ کی قربانی پیش فرمائی تھی؛ لہذا غور فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ اگر نفلی قربانی کی بجائے صدقہ افضل ہوتا تو خود آپ ﷺ جو غریبوں کے ماوی تھے بڑے جانور میں شریک ہوکر، یا زیادہ سے زیادہ ایک کی قربانی کرکے بقیہ ایک مینڈھا اور ننانوے اونٹ، یا ان کی قیمت ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادیتے؛ لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہ کرکے گویا اپنی "خیر امت” کو یہ پیغام دیا کہ قربانی کے ایام میں صدقہ نفلی قربانی سے افضل، بلکہ اس کا بدل بھی نہیں ہوسکتا۔
(۴) دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں وہ بھی قربانی کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں؛ لہذا اگر صدقہ کو افضل قرار دے کر نفلی قربانی سے لوگوں کو روکنے کی جسارت کی جائے گی تو بہت سے لوگ نہ تو قربانی کریں گے اور نہ ہی صدقہ، پھر تو غرباء کھال اور گوشت سے بھی محروم ہوجائیں گے، ہاں ! ممکن ہے کہ کچھ لوگ قربانی کی رقم جزوی طور پر اور کچھ اللہ کے مخلص بندے پوری رقم صدقہ کردیں؛ لیکن اس سے ضرورت مندوں کے مسائل حل نہیں ہوسکتے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ رقم فاقہ زدہ لوگوں تک پہنچ ہی جائے، نیز اتنا فائدہ تو قربانی کا پورا گوشت اور کھال یا ان کی قیمت صدقہ کردینے سے بھی ہوگا۔
اگر تمام لوگوں کے بارے میں یہ خوش فہمی ہے کہ وہ نئی رائے پر عمل کرتے ہوئے نفلی قربانی نہ کرکے اس کی پوری رقم صدقہ کردیں گے، تو ان کے بارے میں یہ حسن ظن بھی رکھنا چاہیے کہ اگر انھیں ایثار، یعنی اپنی ذات پر ضرورت مندوں کو ترجیح دینے اور اہل ثروت حضرات کو گزشتہ سالوں کی بقیہ زکوٰۃ نکالنے کی تلقین کی جائے، نیز انھیں مستحق لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے کا نبوی اسوہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریقہ بھی بتادیا جائے، تو وہ اس پر ضرور عمل کریں گے؛ کیونکہ وہ تو ہم سب کے محبوب اور مقتدیٰ ہیں؛ چنانچہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جب کوئی رسول اللہ ﷺ کو ہدیہ پیش کرتا تو وہ اس میں سے خود بھی استعمال کرتے اور صفہ والے ضرورت مندوں کو بھی بھیج دیتے اور اگر وہ آپ ﷺ کے پاس موجود ہوتے تو انھیں اپنے ساتھ بھی (کھانے میں) شریک فرمالیتے، مسلم شریف کی روایت کے مطابق ستر قرائے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین (شہادت : ۴ھ) جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرتے اور اس سے اہل صفہ اور دوسرے ضرورت مندوں کے لیے کھانے کا انتظام فرماتے تھے، اسی طرح ترمذی شریف کی روایت کے مطابق غزوۂ تبوک ٩ھ کے موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری دولت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی آدھی دولت ضرورت مندوں کی حاجت روائی کے لیے پیش کردی تھی۔
(٥) اگر ہم مخلص ہیں اور واقعی بے سہارا لوگوں اور دینی مدارس کی ہمیں فکر ہے تو حسب سابق قربانی کے عمل کو اسی طرح جاری رکھیں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے پابندی کے ساتھ جاری رکھا تھا، نیز آپ ﷺ کی طرح اپنے مال ومتاع میں ضرورت مندوں کا بھی خاص خیال رکھیں، مذکورہ قرائے صحابہ کی طرح محنت کرکے اپنے اور اپنے گھر والوں کے علاوہ ان کے کھانے کا بھی انتظام کریں، مال دار عوام کے ساتھ ساتھ خوش حال حفاظ، علماء اور دینی خدام بھی "اسوۂ صدیقی” پر نہیں تو کم از کم "اسوۂ فاروقی” پر عمل کرتے ہوئے اپنی اپنی جمع پونجی میں سے آدھا حصہ مستحقین میں تقسیم کردیں تو امید ہے کہ ان شاءاللہ مفلسی اور فقر وفاقے کا خاتمہ ہوجائے۔
(٦) ہاں ! اگر تحقیق کرنے سے یقینی طور پر یہ معلوم ہو جائے کہ واقعی فلاں آدمی فقر وفاقہ میں مبتلا ہے، یا واقعتاً فلاں مستحق دینی ادارہ مالی پریشانیوں کی وجہ سے بند ہونے کے قریب ہے اور ہمارے پاس نفلی قربانی کرتے ہوئے بھی ان کے تعاون کی دوسری صورتیں موجود ہوں؛ لیکن ہم اپنی بے حسی کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہ دیں، یا نفلی قربانی کو چھوڑے بغیر تعاون کی گنجائش ہی نہ ہو، تو ایسی صورت حال میں بہ درجۂ مجبوری نفلی قربانی کی بجائے وہ رقم تحقیق شدہ فلاں آدمی یا فلاں ادارے کے حوالے کردی جائے، بلاتحقیق ویقین کسی اور کے حوالے نہ کی جائے؛ چنانچہ مشہور محدث وفقیہ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ (وفات : ١٨١ھ) کے قول و عمل سے ثابت ہے کہ وہ ایک مرتبہ حج کے سفر پر روانہ ہوئے، اسی دوران دیکھا کہ ایک لڑکی کوڑے دان سے ایک مردار پرندہ اٹھائی اور چلتی بنی، وہ تحقیق حال کے لیے اس کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ کئی دنوں سے فقر وفاقہ اور اضطراری حالت میں مبتلا ہیں، یہ دیکھ کر انھوں نے اپنا سفر حج موقوف کردیا، ان کے پاس اس وقت ایک ہزار دینار تھے، ان میں سے بیس (٢٠) دینار گھر واپس ہونے کے لیے بچائے اور بقیہ نو سو اسی (٩٨٠) دینار ان کے حوالے کرتے ہوئے اپنے خادم سے فرمایا کہ : اس سال ہمارے لیے حج کرنے سے زیادہ افضل یہ تعاون کرنا ہے۔
(تلخیص از : ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، شمارہ : 8-9، جلد : 98، 1435ھ، بحوالہ : البدایہ والنہایہ۱۰/۱۹۱)
Comments are closed.