حکومت کے نشہ میں مساجد کا انہدام؛ یقینی ہلاکت کا پیش خیمہ!   (سورۃ الفیل کے مطالعہ کے پس منظر میں)                  ✒️ مفتی محمد انعام اللہ حسن۔ حیدرآباد

*حکومت کے نشہ میں مساجد کا انہدام؛ یقینی ہلاکت کا پیش خیمہ!*

(سورۃ الفیل کے مطالعہ کے پس منظر میں)

 

✒️ مفتی محمد انعام اللہ حسن۔ حیدرآباد

 

 

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

أَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصۡحٰبِ ٱلۡفِيلِ ۝١ أَلَمۡ يَجۡعَلۡ كَيۡدَهُمۡ فِي تَضۡلِيلٍ ۝٢ وَأَرۡسَلَ عَلَيۡهِمۡ طَيۡرًا أَبَابِيلَ ۝٣ تَرۡمِيهِم بِحِجَارَة مِّن سِجِّيلٍ ۝٤ فَجَعَلَهُمۡ كَعَصۡفٍ مَّأۡكُولٍ ۝٥ (سورة الفيل)

ترجمہ: آپ نے دیکھا نہیں کہ آپ کے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا؟ ، کیا اللہ تعالیٰ نے اُن کی چال کو ناکام نہیں کردیا؟ ، اور اُن پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئیے ، جو اُن پر پکی ہوئی مٹی کی کنکریاں پھینک رہے تھے؛ چنانچہ اُن کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کرڈالا۔(آسان تفسیر قرآن مجید)

محرم 570ء میں ابرہہ نامی یمن کا ایک حبشی گورنر جو حکومت کے نشہ میں مست ہوکر، بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ کعبہ شریف کو منہدم کرنے چلا تھا؛ اس کے ساتھ اور اس کے لشکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا اور اُنھیں کتنی بھیانک و عبرتناک سزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی؛ اِس سورت میں اُس کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

ابرہہ جو اصل میں ایک پُر جوش عیسائی تھا؛ وہ حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے یمن کا گورنر تھا، اس نے یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک چرچ کی عمارت بنوائی، جو اپنی شان و شوکت، سجاوٹ اور خوبصورتی کے لحاظ سے ایک مثالی عمارت تھی، وہ یہ چاہتا تھا کہ عرب لوگ مکہ میں کعبہ کا طواف کرنے کے بجائے اِس چرچ کا طواف کریں اور یہاں حج کے امور انجام دیں، عربوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اُنھیں بڑا غصہ آیا، اتفاق سے اُس وقت بعض عرب لوگ صنعاء میں موجود تھے، اُنھوں نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ابرہہ کے چرچ میں قضائے حاجت کردی یا بعض تاریخی روایتوں کے مطابق اُس کو آگ لگادی؛ تفتیش کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ حرکت اُن ہی لوگوں میں سے کسی نے کی ہے، جو حج کے لیے کعبہ کو جایا کرتے ہیں۔

ابرہہ اس کی وجہ سے غصہ میں بھر گیا، قبیلۂ بنو کنانہ کا آدمی اُس کے پاس موجود تھا، ابرہہ نے اس کو بھیجا کہ وہ اپنے قبیلہ کے لوگوں کو کعبہ کے بجائے صنعاء میں موجود چرچ کے حج کی دعوت دے، جب وہ یہ پیغام لے کر پہنچا تو قبیلہ کے لوگوں نے اسے قتل کرڈالا، اس پر ابرہہ کا غصہ اپنی انتہاء کو پہنچ گیا اور اس نے ہر قیمت پر کعبہ کو منہدم کرنے کا عزم کرلیا، اُس وقت حالانکہ مکہ میں صرف چند ہزار کی آبادی تھی؛ لیکن ابرہہ نے اپنے پروگرام کو یقینی بنانے کے لیے ساٹھ ہزار کی فوج تیار کی، چونکہ اس کی فوج میں ہاتھیوں کی بھی ایک تعداد تھی اور عربی میں ہاتھی کو ‘فیل’ کہا جاتا ہے؛ اسی لیے قرآن مجید نے اُن کو "اصحٰب الفیل” یعنی ہاتھی والے کہا ہے۔

اب یہ لشکر آگے بڑھا، اس نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ اس کا ارادہ کعبہ کو منہدم کرنے کا ہے؛ چنانچہ راستہ میں کئی قبیلوں نے مقابلہ کیا؛ مگر اللہ تعالیٰ کو تو یہ منظور تھا کہ اس متکبر اور گھمنڈی فوج کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعہ پتھر برسا کر ہلاک کرے، تاکہ ابرہہ کی رسوائی ساری دنیا کے سامنے آجائے؛ اس لیے یہ قبیلے مقابلہ میں کامیاب نہ ہوسکے۔

جب یہ مکہ کی سرحد پر پہنچے تو باہر ہی ٹھہر گئے، چونکہ قریش کے لوگوں کے پاس مقابلہ کی طاقت نہ تھی؛ اس لیے اُن لوگوں نے کوئی مقابلہ نہیں کیا؛ البتہ قریش کے سردار عبدالمطلب اور کچھ لوگوں نے کعبہ کے دروازے کا حلقہ پکڑ کر بڑی گریہ و زاری کے ساتھ اللہ سے دعا کی کہ ابرہہ کے لشکر کا مقابلہ ہمارے تو بس میں نہیں، آپ ہی اپنے گھر کی حفاظت کا انتظام فرمائیے۔

اس کے بعد عبدالمطلب مکہ کے دوسرے لوگوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کی طرف چلے گئے اور انتظار کرنے لگے کہ ابرہہ مکہ میں داخل ہوکر کیا کرتا ہے؟

رات گزری، صبح ہوئی تو ابرہہ نے مکہ میں داخل ہونے کی تیاری کی اور اپنے ہاتھی کو آگے چلنے کے لیے تیار کیا؛ لیکن ہاتھی کسی طرح مکہ کی طرف بڑھنے کو تیار نہ ہوا، یمن کی طرف رخ کیا جاتا تو چل پڑتا، شام کی طرف رخ کیا جاتا تو چل پڑتا، مشرق کی طرف رخ کیا جاتا تو چل پڑتا؛ لیکن جب مکہ کی طرف رخ کیا جاتا تو بیٹھ جاتا اور اپنی جگہ سے نہ ہلتا، آخر چھوٹے چھوٹے پرندوں کے جُھنڈ سمندر کی طرف سے اڑتے ہوئے آپہنچے، یہ دراصل ہاتھیوں، گھوڑوں اور اونٹوں اور انسانوں کی فوج کے مقابلے میں خدا کی فوج تھی، ان پرندوں کی چونچ اور پنجوں میں چنے یا مسور کے دانے کے برابر کنکریاں تھیں، انھوں نے کنکریاں برسانی شروع کردیں، جن کو کنکری لگی ان میں سے بہت سارے تو وہیں ہلاک ہوگئے اور جو لوگ جان بچا کر یمن واپس پہنچے، ان کا بھی حال یہ ہوا کہ پورے جسم پر زخم کے پھوڑے ہوگئے اور ان زخموں نے جان لے کر ہی چھوڑا، خود ابرہہ کا حال یہ ہوا کہ اس کے جسم میں ایسا زہر پھیل گیا کہ ایک ایک عضو گلنے اور سڑنے لگا، انگلیاں کٹ کٹ کر گرتی گئیں، اسی حال میں یمن پہنچا، جن راستوں سے دندناتا ہوا آیا تھا، عبرتناک حالت میں بڑی ذلت کے ساتھ انہی راستوں سے واپس ہوا، دارالحکومت صنعاء پہنچ کر اس کا سینہ پھٹ گیا اور موت ہوگئی، اس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا کی سب سے پہلی مسجد” کعبہ” کو منہدم کرنے کے ارادے سے روانہ ہونے والوں کو کعبہ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک کردیا۔(خلاصہ از آسان تفسیر قرآن مجید و دیگر کتبِ تفسیر)

اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے اس عبرتناک انجام اور کو جب نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو "أَلَمْ تَرَ” فرمایا جس کے معنیٰ ہیں "کیا آپ نے نہیں دیکھا؟” حالانکہ یہ واقعہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت سے تقریباً دو مہینے پہلے پیش آچکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے کا یہاں بظاہر کوئی موقع نہیں تھا؛ مگر جس واقعہ کا عام طور پر بہت زیادہ لوگوں نے مشاہدہ کیا ہو؛ اس کے جاننے کو بھی "دیکھنے” کے لفظ سے تعبیر کردیتے ہیں کہ گویا یہ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔ چنانچہ سورۃ الفیل جس وقت نازل ہوئی ہے؛ اس وقت بھی اُن لوگوں کی ایک تعداد موجود تھی؛ جنہوں نے ابرہہ اور اس کے لشکر کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اور جو اُس وقت موجود نہ تھے وہ بھی اپنے بڑوں سے اس واقعہ کو اتنی کثرت اور تفصیل کے ساتھ سن چکے تھے گویا آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ اسی لیے قرآن مجید کے بیان کیے ہوئے اس واقعہ کو نہ صرف مکہ بلکہ پورےعرب کے غیر مسلم بھی جانتے اور مانتے تھے۔

علماء نے سورۃ الفیل کی روشنی میں یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ شعائر اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی خصوصی نشانیوں کی توہین کرنے پر ذلت و ہلاکت لازمی ہے۔

کعبۃ اللہ اور دنیا کی تمام مسجدیں اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہیں۔(مستفاد:زبدۃ القرآن)

چنانچہ کسی بھی مسجد کی بے حرمتی اور انہدام سے ہلاکت یقینی ہے۔ یقینی ہلاکت کا صرف یہی مطلب نہیں کہ ہر بے حرمتی کرنے والے کو دنیا ہی میں سب کی آنکھوں کے سامنے ذلیل کرکے ہلاک کردیا جائے؛ بلکہ کبھی اللہ تعالیٰ ظالموں کو کچھ ڈھیل بھی دیتے ہیں، اور کبھی تو اُنھیں مزید سامانِ عیش و عشرت فراہم کرتے ہیں؛ جس کی وجہ سے وہ لوگ دھوکہ میں پڑ جاتے ہیں، اُنھیں پتہ بھی نہیں چلتا اور اچانک ایسی پکڑ آجاتی ہے جس کے بعد ہر طرف نا اُمیدی ہی دکھائی دیتی ہے۔(الأنعام: 48)

یہ اچانک کی پکڑ موت کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے؛ جس کے بعد ایسے دائمی عذاب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ اُس کا تصور بھی ناممکن ہے۔ بہرحال خدا کے گھروں کی بے حرمتی کرنے والے ظالم آخرت کے بھیانک اور دائمی عذاب اور وہاں کی ہلاکت سے کبھی نہیں بچ سکتے!

ہاں ایک واحد راستہ ہے جس کو اختیار کرنے کے بعد وہ آخرت کے دائمی عذاب اور ہلاکت سے نجات پاسکتے ہیں، وہ یہ کہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور یہ مان لیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں، اور قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب یقین کرکے اُس کی بیان کی ہوئی تمام حقیقتوں کو تسلیم کرلیں، ساتھ ہی ساتھ جس مسجد کو وہ منہدم کر بیٹھے اسے دوبارہ اسی مقام پر تعمیر کریں۔ ایسی صورت میں وہ نہ صرف یہ کہ ہلاکت اور خدا کے عذاب سے بچ جائیں گے؛ بلکہ ان کے پچھلے تمام گناہ بھی معاف کردئیے جائیں گے، اور ایمان پر قائم رہتے ہوئے مرنے پر ہمیشہ کی جنت ان کا ٹھکانہ ہوگی۔

اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ان ظالموں کے بچنے کا نہیں ہے؛ کسی بھی وقت دنیا میں بھی ان پر عذاب آسکتا ہے اور وہ بڑی ذلت کی موت مریں گے، قرآن مجید نے ابرہہ اور اس کے لشکر کا انجام ذکر کرکے قیامت تک کے انسانوں کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ مسجد اور اللہ تعالی کے شعائر میں سے کسی بھی چیز کی بے حرمتی کا انجام یقینی ہلاکت و ذلت ہے۔

پچھلے دنوں تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں سیکریٹریٹ کی دو مساجد (مسجد دفاتر معتمدی اور مسجد ہاشمی) کے انہدام کا بدترین واقعہ پیش آیا، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، گزشتہ سال بھی 2/ مئی 2019ء کو شہرِ حیدرآباد ہی کے ایک علاقہ عنبرپیٹ کی مسجدِ یکخانہ کو منہدم کیے جانے کا واقعہ پیش آچکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسجدِ یکخانہ کی شہادت پر مسلمانوں کی جانب سے (بابری مسجد کی شہادت کی بہ نسبت) بہت ہی کم زور ردِعمل نے ظالموں کی ہمت بڑھادی ہے۔ تقریباً چودہ ماہ کے عرصہ میں حیدرآباد جیسے شہر کی تین تین مسجدوں کی شہادت جہاں مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کے لیے جھنجھوڑ رہی ہے؛ وہیں شرپسند عناصر کی طرف سے عذابِ خداوندی کو دعوت دینے کا پتہ بھی دے رہی ہے؛ جس کا صرف اور صرف ہلاکت ہے۔

سورۃ الفیل کے مطالعہ کی روشنی میں صاف طور پر کہا جاسکتا ہے کہ مساجد کا انہدام بجائے خود ظالموں کی ہلاکت کا پیش خیمہ ہے۔ اگر اُنھیں اپنی ہلاکت میں کوئی تردد ہے تو وہ بھی انتظار کریں، ہم بھی انتظار کررہے ہیں۔

Comments are closed.