زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا….. نوراللہ نور
طوفانوں سے آنکھ ملاؤ دریاؤں پر وار کرو ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کر دریا پار کرو

زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا…..
نوراللہ نور
شعر و سخن مغموم دل کا آسرا ہے ؛ عاشقوں کے درد دروں کی لاجواب دوا ہے اور سماج کے لیے مانند آینہ ہے اس فن کی آبیاری میر و غالب نے کی اور اس کے بعد کے شعرا نے اسے سینچا ہے اس فن کے مشاقوں نے ہمیشہ اسے تازہ رکھا اور اس کی شیرینی و چاشنی اور تلخ نوائی ابھی بھی تازہ دم ہے
یوں تو اس چمن میں میر و غالب نے انوکھے طرز اور جداگانہ انداز کے کلیاں کھلای ہیں اقبال نے اسی سے مومنانہ شان کی مہمیز لگای ہے اور دشمنوں کی شازشانہ عمل کا جواب بھی دیا غرض کہ اس فن نے ہر دور میں ایک ایسا جوہر دیا ہے جس کی چمک دمک نے اس فن کی روح کو دوام بخشا ہے
انہی آبگینوں ؛ جواہر میں سے ایک موتی جس نے اردو ادب کو ایک اچھوتے منفرد لب و لہجے کی شاعری سے متعارف کرایا ابتدا میں اس طرز تکلم پر لوگ چیں بہ جبیں نظر آے لیکن اس نے اپنے اس انداز سے سب کو قایل کرلیا ترنم کی سریلی نغمگی سے نکل کر کرختگی سے معاشرے کی ترجمانی کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا جہاں اس نے عشق و محبت کی طور بتلاے وہیں اس نے اپنی شاعری سے حکومت کی غلط پالیسی اور عوام کی غلط روی پر انگشت نمائی بھی نمای بھی کی الفاظ کے پیچ و خم سے نکل کر حقیقت بیانی کو سہارا بنایا محبوب کے زلف کی اسیری سے نکل کر درد مندوں کی آواز بننے کو ترجیح دی تھی ان اوصاف اور کمالات سے متصف شخص کو دنیا راحت اندوری کے نام سے یاد کرتی ہے
مرحوم شاعر کا مزاج دیگر شعرا سے بالکل مختلف تھا بلکہ یوں کہ لیں کہ وہ اپنے اس فن کے خود ہی خالق ہیں دوسرے کے بس کا نہیں دوسرے شعرا کی طرح تغزل کی وادیوں کے سیر کے عادی نہیں تھے بلکہ حقیقت شناسی کے خوگر تھے ان کی شاعری نے دوپٹوں زلفوں رخساروں و جبیں کے آرایش بیانی سے گریزاں ہوکر رنج و الم درد کرب سے پر آینہ نمای و دریدہ دھنی اور بے باکی کا مجسمہ تھی انہوں نے وقت کے تانا شاہوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ان کی خامیوں کا اپنے اشعار کے ذریعہ برملا اظہار کیا اور نسل نو طرز زندگی کے اصول اپنی شاعری کے ذریعہ بتایا اور جوش و جذبے کو مہمیز لگای ان کا یہ مصرعہ نوجوانوں کی فکری بیداری کا احساس دلاتا ہے کہ
طوفانوں سے آنکھ ملاؤ دریاؤں پر وار کرو
ملاحوں کا چکر چھوڑو تیر کر دریا پار کرو
لب پر تبسم انداز مستانہ اور زبان پر معاشرے کی خامیوں کا شکوہ بیان کرنا یہ ان کے ہی کارنامے ہو سکتے ہیں انہوں نے اس صنف سے اپنے مسلک و مذہب اور عقیدے کی برملا تشہیر کی ہے اور نبی کی شان میں ایسے شہرہ آفاق مصرعہ کہ دیا ہے جسے آج ہر ناظم انجمن اپنی نظامت میں استعمال کرتا ہے
زم زم و تسنیم کوثر لکھ نہیں سکتا
اے نبی میں آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
میں آپ کے نام محمد کا میم بھی نہیں لکھ سکتا
انہوں نے مسلک و مشرب کی تایید کے ساتھ ساتھ وقت کی سیاست اور اور سیاست دانوں کے رویے اور ان کے کرتوتوں پر بھی تیشہ زنی کی ہے اور سیاسی مفاد میں ناقابل تلافی ہونے خسارے کو اپنے البیلے انداذ میں اور دو ٹوک لہجے میں بیان کیا
سرحدوں پر تناؤ ہے کیا
پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا
دونوں سمت بڑھ رہا ہے دباؤ
تیسری سمت میں تناؤ ہے کیا ؟
معاشرے کے فعال حساس فرد ہونے کی بنا پر شعر و شاعری کے علاوہ ملک کے دیگر امور پر بھی بے باکانہ طرز میں اپنی رائے رکھتے اور خود داری و رواداری تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی ان کا مصرعہ ہے ک
صرف خنجر ہی نہیں آنکھو میں پانی چاہیے
اے خدا مجھے دشمن بھی خاندانی چاہیے
اور اپنے اس طویل شاعری سفر میں حب الوطنی کا بھی ہمیشہ نمونہ پیش کیا اور اپنے طرز کے ساتھ ملک و بیرون اپنے ملک کی نمائندگی کی اور ہندوستانی ادب و ثقافت کو باہر ممالک میں متعارف بھی کرایا
حب الوطنی کا اندازہ اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے کہ
میں مر جاؤں تو میری الگ پہچان لکھ دینا
میرے لہو سے میری پیشانی پر ہندوستان لکھ دینا
مرحوم کی شخصیت صرف شاعر کی نہیں تھی بلکہ ایک انجمن ہی تھی وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ دبے کچلے لوگوں کی آواز تھے اور سماج کے پچھڑے پسماندہ افراد کی آواز تھے اور دیش میں اپنی اور اپنے اجداد کے حصہ داری کے قایل تھے اور بر ملا کہتے کہ
سبھی کا خون شامل ہے یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
ان کا یہ مصرعہ بہت سی آواز بنی ہے بہت سے سارے لوگوں نے اس سے توانائی محسوس کی ہے اور اپنی بات کہی ہے
مگر اردو ادب کا یہ عظیم شاعر اور ایک انوکھے طرز کی شاعری کا خالق اپنے تمام تر کمالات سمیت ہم سے روپوش ہوگیا ہے اور ادب کو اپنی انفرادی شاعری سے محروم کرگیا .
ان سے روبرو ملاقات کا بہت شایق تھا مگر یہ اب ایک حسرت ہی رہے گی راحت صاحب ہم تو بڑے شایق و مشتاق تھے اور بڑے منتظر تھے
مگر آپ ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے
اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے
آمین
Comments are closed.