15/ اگست بھارتی مسلمانوں کا یوم احتساب

*15/اگست بھارتی مسلمانوں کا یوم احتساب*

 

ہمارا پیارا دیش بھارت دنیا کے نقشہ پر ایک خوبصورت گلدستہ ہے کیونکہ دنیا کے اکثر وبیشتر ادیان وملل کا پرستار اس کے سینہ پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

البتہ یہ حسین وجمیل گلدستہ کب وجود میں آیا، ہندوستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہب اسلام کی دین ہے، کیونکہ اسلام کی آمد سے قبل یہ کفر و شرک کا مرکز تھا، یہاں احترام انسانیت اور انسانی مساوات کا تصور بھی نہ تھا، سب سے اہم چیز "تعلیم” ایک مخصوص طبقہ تک ہی محدود تھی، پنڈتوں کی طرف سے حکم تھا کہ وید کا کوئی فقرہ اگر کسی شودر(ہریجن) کے کان میں پڑ جائے تو اس کے کان میں سیسہ پلا دیا جائے، برہمن کے علاوہ کسی دوسرے طبقے کو مذہبا تعلیم حاصل کرنے کی مطلقا اجازت نہ تھی۔

اس کا اعتراف آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ان الفاظ میں کیا ہے:

*شمال مغرب سے آنے والے حملہ آوروں اور اسلام کی آمد ہندوستان کی تاریخ میں کافی اہمیت رکھتی ہے، اس نے ان خرابیوں کو جو ہندو سماج میں پیدا ہوگئیں تھیں، یعنی ذاتوں کی تفریق چھوت چھات، اور انتہا درجہ کی خلوت پسندی کو بالکل آشکارا کردیا، اسلام کے اخوت کے نظریے اور مسلمانوں کی عملی مساوات نے ہندؤں کے ذہن پر بہت گہرا اثر ڈالا، خصوصاََ وہ لوگ جو ہندو سماج میں برابری کے حقوق سے محروم تھے، اس سے بہت متأثر ہوئے* (تلاش ہند:525/1)

مسلمانوں نے جب یہاں اپنا قدم رکھا، تو انہوں نے اس ملک کی ترقی وخوشحالی کے لئے سب کچھ قربان کر دیا کیونکہ ان کے پیش نظر یہ تھی کہ زمین خدا کی ہے، اور وہ خدا کی طرف سے اس کا منتظم:

*ہرملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست*

اس لئے مسلمانوں نے اپنے اخلاق وکردار ،اپنے اعمال وافعال سے باشندگانِ بھارت کو وہ تمام چیزیں عطا کیں، جس کے لئے وہ صدیوں سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے، انہوں نے اس ملک کی خدمت کے لئے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کیں، جس کا صرف ایک نمونہ دنیا کے سات عجائب میں سے ایک "تاج محل” آج بھی عالم انسانیت پر اپنا راج کر رہا ہے۔

مجموعی طور پر ہمارا پیارا دیش بھارت تقریباً ساڑھے گیارہ سو سال مسلم حکمرانوں کے زیر نگیں رہا، اس درمیان یہاں کے باشندے امن و آشتی اور بھائی چارگی کا نمونہ بنے رہے، کبھی کوئی آپس میں دست و گریباں نہ ہوئے، کبھی دین و مذہب کے نام پر کوئی جھگڑا فساد نہیں ہوا، بلکہ یہاں کے باشندے شیر وشکر کی طرح مل کر ملک کی ترقی میں جٹ گئے اور پندرہویں و سولہویں صدی کا ہندوستان صنعت و حرفت میں اپنی مثال آپ تھا دنیا کا کوئی ملک اس حوالے سے ہندوستان کا ہم پلہ نہ تھا اسی لئے دنیا *ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہتی تھی*

ہندوستان کی ترقی انگریزوں کو نہ بھایا اس نے لوٹنے گھسونٹنے کے لئے بڑی عیاری کے ساتھ یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد ڈالی، سوء اتفاق کہ ہمارے بعض فرمانروا عیاشی، عیش کوشی اور آپسی خانہ جنگی میں مبتلا تھے، فرنگیوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیز اپنوں کی غداری کی وجہ سے اس نے یہاں اپنا ناپاک پنجہ گاڑنے میں کامیاب رہا، پھر کیا ہوا سب ظاہر ہے۔

1799/ءمیں جب شیر میسور سلطان ٹیپو شہید انگریز سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تو جنرل ہارس سلطان کی لاش کے قریب پہنچ کر فرط مسرت سے چیخ اٹھا کہ

*آج سے ہندوستان ہمارا ہے*

یقیناً اسی وقت ہندوستان انگریزوں کا ہوگیا اور ہندوستانی باشندے کے گلے میں محکومی کا طوق پڑگیا۔

پھر کیا تھا ہندی مسلمان ہندوستان کے آزادی کے لئے میدان عمل میں آئے، اس لئے کہ انگریزوں نے ملک انہیں سے چھینا تھا فطری طور پر انہیں کو زیادہ تکلیف تھی، ساتھ ہی مذہب اسلام کسی بھی طرح غلام رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔

ایسی صورت میں علماء اسلام نے انگریزوں سے جہاد کا فتوی دیا،اور خود بھی بنفس نفیس شریک ہوکر داد شجاعت دی،

یہ سچ ہے کہ آزادی کی لڑائی میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی قربانی ہے، اگر یہ میدان میں نہ آتے تو یہ ملک کبھی آزاد نہ ہوتا، اگر یہ حصہ نہ لیتے تو ہندوستان کی آزادی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا، البتہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب آزادی کی چنگاری شعلہ کی شکل اختیار کرلی،تو برادران وطن بھی ہمارے شانہ بشانہ ہوگئے اور ہم اس شعر کے مصداق ہوگئے:

*میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر*

*راہ رو آتے گئے اور کارواں بنتا گیا*

بلاخر ہمارا ملک ہندوستان بیش بہا قربانیوں کے نتیجہ میں 15/اگست 1947کوآزاد ہوا، اور ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی۔

امسال ہم جشن آزادی کی چوھترویں سال گرہ منا رہے ہیں، انگریز تو آزاد کردیا لیکن وہ جاتے جاتے نہ صرف "تقسیم وطن” کا زخم دے گئے،بلکہ یہاں کے ہزار سالہ اتحاد واتفاق میں نفرت ونفاق کا بیج بو گیا۔

آج اسی نفاق زدہ زہر کا اثر ہے کہ ایک خاص ذہن و فکر رکھنے والوں کے نزدیک ہندوستان سے بھارتی مسلمانوں کی وفاداری مشکوک ہوگئی، وہ خود اپنے وطن عزیز جس کو انہوں نے اپنے خون سے سینچا تھا، اب اسی وطن میں اپنے ہم وطنوں سے بیگانہ ہوکر رہ گئے، اسی وجہ سے آج پورے ملک میں مسلمانوں پر ظلم و جبر کیا جارہا ہے، انہیں طرح طرح سے ستایا جارہا ہے، ان کے آشیانے کو نذر آتش کیا جارہا ہے، ان کے معبدوں پر ترچھی نگاہیں ڈالی جارہی ہیں، تمام شواہد کے باوجود ان کے خلاف فیصلے صادر ہو رہے ہیں۔

کیا آزادی کا یہی مقصد تھا؟ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے؟کیا ایسے ہی برے دن دیکھنے کے لئے ہمارے آباواجداد نےاپنے جان و مال کی قربانی دی تھی؟آخر کس لئے ہمارے آباواجداد نے انگریزوں کے ناپاک چنگل سے اس ملک کو آزاد کرایا تھا؟

15/اگست بھارتی مسلمانوں کے لئے حقیقت میں یوم احتساب ہے، ہمیں سوچنا ہوگا، ہمیں بیدار ہونا ہوگا، ہمیں لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے اور ہم کیا کررہے ہیں، اگر ہم اس ملک میں سراٹھا کر چلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں دو کام کرنے ہوں گے۔

(1)ہمیں اسلامی تعلیمات اور شعائر اسلام کو اپنانا ہوگا۔

(2)ہمیں تعلیم و تربیت کی زیور سے آراستہ ہونا ہوگا، اسی راہ سے جمہوری ملک میں ہم اپنے تمام حقوق حاصل کرسکتے ہیں، ہمیں کسی اور کے سامنے دریوزہ گری کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

ہم آزادی کی چوھترویں سال گرہ پر ملک کے تمام بھائیوں کو آزادی کی مبارک باد دیتے ہیں اور ساتھ ہی خلوص کے ساتھ دست بستہ درخواست کرتے ہیں ہم آپسی نفرت و عداوت کی زنجیر توڑ کر 1947ء والا اپنے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کریں۔

 

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی

[email protected]

Comments are closed.