صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی
السلام علیکم
تو ہم آپ نے وہ سب دیکھ لیا، وہ سب سن لیا، وہ سب جان لیا، جو پچھلے چند برسوں میں کھل کھل کر لایا، بتایا، اور سنایا گیا۔۔ اور ۔۔ اب ۔۔ یہ بھی سن لیا کہ آگے آگے کیا ہونے والا ہے۔۔ اچھا ہے کہ سب نے سن اور جان لیا۔۔ تو اب کرنے والے کام کریں گے، اور نہ کرنے والے نمایاں ہوں گے۔۔ وہ بھی کریں گے، آپ بھی کریں گے، ہم بھی کریں گے۔۔۔
عقیدہ اور استحکام آئندہ کےلئے۔۔ اور۔۔ تاریخ کی سچائی اور فخر ماضی کےلئے۔۔۔ یہ دونوں میدان اب سامنے ہیں۔۔ ذہانت اور محنت دونوں کےلئے درکار ہیں۔۔ اور یہ دونوں کام دو محاذوں پر کرنے ہوں گے۔۔۔ اپنی ملت کے نونہالوں کےلئے۔۔ اور اپنے ملک کے نونہالوں کےلئے ۔۔۔ جی۔۔۔ اب حال کے ساتھ مستقبل پر نظر رکھنی ہوگی، اگلے بیس سالوں میں تیار ہونے والی نسل دیکھنی ہوگی۔۔ تب حال کو سنبھال سکیں گے، اور مستقبل بناسکیں گے۔۔۔
کام سنجیدہ ہے، ضروری ہے، جہد وقربانی طلب، اور مستقل مزاجی طلب ہے۔۔۔ یاد رکھئے کہ اس میں ٹیکنک اور ٹکنالوجی آج کی ہوگی۔۔ مزاج اور انداز آج کا ہوگا۔۔اور۔۔ تب ہی بات سنی، سمجھی، اور مانی جائے گی۔۔ ورنہ ملک کے نونہال نہیں، اپنے گھر اور جگر کے لال بھی نہیں سمجھیں گے۔۔ پھر وہ نہ مانیں گے، نہ کمال سے مالامال ہوسکیں گے۔۔۔
ہمارے اگلوں نے وقت کی رفتار دیکھ اور رخ پہچان لیا تھا۔۔ تو دینی مدارس کے قلعے بنائے، اصلاح کی تحریک چلائی، اتحاد کی زمین ہموار کی۔۔ تو وہ بہت کچھ بچائے رہے۔۔ وہ کچھ کہ۔۔ آج ہم آپ بول، سوچ اور لکھ رہے ہیں، برت اور بنارہے ہیں۔۔۔ اب ہماری باری ہے۔۔ کرنے، جمنے اور بنانے کی ہے۔۔۔
لیکن اب طرز دوسرا، ٹکنالوجی نئی، بیانیے جدا، اور نسل مختلف ہے۔۔ اسے اپنا کر ہی وہ کچھ کرلیا گیا جو ہم آپ دیکھ سن اور محسوس کررہے ہیں۔۔ اسے اپنانا دین کا تقاضہ بھی ہے اور سنت رسول عربی ﷺ بھی ہے۔۔۔
دینی مدارس کا نیٹورک بے انتہا کارگر ہوگا، مساجد کی مرکزیت بڑے مواقع لائے گی، ٹکنالوجی کی آزادی نئی راہیں دکھائے گی، نوجوانوں کا جوش عمل اور ابھرتی صلاحیت طاقتوں کے خزانے کھولے گی، اور سماج کی خوشحالی اور انسانیت کی قدر دانی کا جذبہ محبتوں کے دروازے وا کرے گا۔۔۔۔۔ تو یہ سب ہمارے آپ کے پاس موجود ہے۔۔ ان سب کو اپنا سمجھئے اور اپنالیجئے۔۔ اور اس کےلئے ذہن کے دریچوں کو کھولنے، روایات کے طریقوں میں لچک لانے، اور تنظیمی و مزاجی تقسیموں سے نکلنے کی ضرورت ہوگی۔۔ یہی کرنا ہوگا، بہتر ہے کہ خود کرلیں اور جلد کرلیں۔۔
تب ہم حالات کے نصاب بنائیں گے، ٹکنالوجی کے نظام بنائیں گے، مدارس کے چار فیصد بچوں کو زمانے کا سبق سکھائیں گے، ملت کے پچانوے فیصد نونہالوں کو عقیدہ و تہذیب اور شاندار تاریخ پڑھائیں گے، اور اسی اہمیت کے ساتھ پورے ملک کے بچوں اور بچیوں کو اپنی تاریخ، مذہب، اشخاص اور اقدار بتائیں گے۔۔ سوشل میڈیا کے یہ سبق ملک کی زبانوں میں بنائیں گے، اور اپنی لفظیات واصطلاحات میں نہیں، ان ہی کی اصطلاحات ولفظیات میں لائیں گے۔۔۔۔ پھر نتیجہ آئے گا۔۔ حق اور سچائی کا نتیجہ آتا ہی ہے۔۔ بس سچائی والوں کو محنت اور دانائی اپنانی ہوتی ہے۔۔
خدا ہمیں سوچ، سمجھ، اور عمل عطاکرے۔
خدا حافظ
16 اگست 2020
25 ذو الحجہ 1441
Comments are closed.