صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات

فہیم اختر ندوی

 

السلام علیکم

 

کبھی کوئی پسند شر، اور کوئی ناپسند خیر بن جاتی ہے۔۔ زندگی میں بہتیرے ایسا ہوتا ہے۔۔ قرآن نے یہ بات بتارکھی ہے۔۔ تو ناپسندیدگی میں اچھائی کی راہیں ڈھونڈنی چاہئے۔۔۔

 

اب ملاقات اور یکجائی کی بندشیں ہیں، نہ جانے کب تک رہیں، تو علم واصلاح کی نئی محفلیں آراستہ ہونے لگی ہیں۔۔ تعلیم اور مذاکرہ کی نئی بزمیں سجنے لگی ہیں۔۔ زندگی کی تھمی مصروفیات میں زندگی آنے لگی ہے۔۔۔۔ اب نئے تجربات ہورہے ہیں، تو نئی مشکلات بھی آئیں گی، اور ان سے ہی نئی راہیں نظر آئیں گی۔۔۔ زمانہ ایسے ہی بدلتا ہے، اور کام اسی میں ہوتے ہیں۔۔ سو اب ہم آپ کے سامنے بدل رہا ہے۔۔۔ یہ اصولوں کی تبدیلی نہیں، طریقوں کی تبدیلی ہے۔۔ اور تعلیم کا بدلاؤ نہیں، نئی محفل کا بناؤ ہے۔۔۔

 

اب دیکھئے کہ ایک علمی پروگرام معمولی انتظام پر دور پہنچ جاتا ہے، کم خرچ پر دور کے افراد، اور تعلیم کی ایک نشست میں بڑی تعداد یکساں شریک ہوجاتی ہے۔۔ وہ بھی آسکتے ہیں جنھیں بلایا گیا، ان کو بھی موقع مل رہا ہے جو اپنی چاہ سے آئیں ۔۔ اور یہ نظم بھی آپ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔ تو اس سہولت نے کام والوں کے حوصلے بڑھادئے ہیں۔۔ درس قرآن اور تدریس کے نئے عنوان ہمت افزا نتائج لائے ہیں۔۔ جوان وبزرگ، توانا ومعذور، اور مرد وخواتین سب بہ آسانی جڑ رہے ہیں۔۔۔

 

اس وقت یہی زمانہ کا اسلوب ہے، اور اسی میں حکمت وذہانت کی کارفرمائی ہے۔۔ اپنانے والوں نے ذہنوں پر حکمرانی اور نسلوں کی رہنمائی پالی ہے۔۔ سمجھ جانے والوں نے چالیں ناکام اور تدبیریں اپنے نام کرلی ہیں۔۔ یہ سب کھلی آنکھوں مشاہدہ ہورہا ہے، اور مرضی رب جب تک ہو’ ہوتا رہے گا۔۔۔ تو ہمیں اچھائیوں کی راہیں نکالنی ہے، علم کی اشاعت اور انسانیت کی خدمت نبھانی ہے۔۔۔

 

ملت کی نئی نسل بڑی تابندہ اور ہمت وشوق سے پائندہ ہے۔۔ وہ دین کو سیکھنا اور علم کی بلندیاں سر کرنا چاہتی ہے۔۔ نئی ٹکنالوجی ان کے ذہنوں کی سلوٹ اور انگلیوں کی گرفت میں ہے۔۔ ان کی بیدار صلاحیتیں زمانہ سے آہنگ ہیں۔۔ اور اہل دین وعلم کی وراثت پانے کےلئے بے تاب ہیں۔۔۔ تو اب تعلیمی پروگرام اور تدریسی نظام اس نسل کےلئے نئے ڈیزائن کے ساتھ آنے ہیں۔۔ جہاں نصاب، وقت، انداز، اور زبان آج کے ہوں گے۔۔ اس تیاری میں بھی وہ آگے آگے ہوں گے۔۔ اور یہ کچھ ہونے بھی لگے ہیں۔۔۔ تو ان کی ضرورت سمجھئے، مضامین بنائیے، انداز اپنائیے، اوقات بدلئے، زبان بولئے۔۔۔ اور ان ہی راہوں سے عقیدہ، احکام، آداب اور تاریخ بتائیے۔۔ پھر اس کے نتائج دیکھئے اور شکر خدا بجالائیے۔۔ ملت کے نوجوان مرد وعورت کی بڑی اکثریت اس کی منتظر ہے۔۔۔

 

ملک کی نئی نسل تک رسائی اب زیادہ کھلی ہے۔۔ اور ان سے جڑنے کےلئے ٹکنالوجی کی نئی محفلیں سجی ہیں۔۔ اچھائیاں سب کی میراث ہیں۔۔ مذہب، تہذیب، اقدار اور تاریخ ان کی بھی ضرورت ہے۔۔ جب ہی غلط کے پردے فاش ہوں گے، اور محبت کے چمن گلزار ہوں گے۔۔۔ تو ان کی ضرورت کے نصاب، نظام، زبان، اور انداز اپنائیے۔۔ سننے والے بہت ہیں، دلوں کی اصلاح دلوں کا مالک کرتا ہے۔۔۔

 

یہ دونوں کام وقت کی آواز ہیں، ٹکنالوجی کی سہولت دستیاب موقع ہے۔۔ نئی نسل کی صلاحیتیں فراواں ہیں۔۔ اور دانائی مومن کی فراست ہے۔۔۔ نبی مصطفی ﷺ نے نئے طریقے اپنائے تھے، نوجوان نسل کو آگے لائے تھے، مرد وخواتین کی صلاحیتوں کے جوت جگائے تھے۔۔ اسی میراث کو اپنانا ہے۔۔۔ تبدیلی تب آئی تھی، تبدیلی اب آئے گی۔۔ بہتری آئی تھی، انسانیت کی بہتری آئے گی۔۔ یہی تو رب کا مطالبہ ہے، اور یہی زندگی کا حاصل ہے۔۔۔

 

ان میدانوں میں ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔۔ اپنی جگہ رہ کر اور اپنے وسائل کو اپنا کر کرسکتے ہیں۔۔ تو آئیے اپنے حصہ کا کام کریں، مل جل کر بڑھیں۔۔ اللہ کی مدد شامل حال ہے۔

 

خدا حافظ

17 اگست 2020

26 ذو الحجہ 1441

Comments are closed.