اوراق پارینہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مطالعہ SaleemSiddiqi20@

اوراق پارینہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مطالعہ

سلیم شوق پورنوی

 

پروفیسر انوار الحق تبسم، اورینٹل کالج پٹنہ ، پاٹلی پتر یونیورسٹی پٹنہ سے بحیثیت پروفیسر ریٹائرڈ ہیں, آپ تقریبا نصف صدی تک تاریخ کے کامیاب استاد رہ کر پروفیسر اور شعبہ تواریخ کے صدر کی حیثیت سے ۲۰۱۸ میں سبکدوش ہوئے ہیں۔

سیمانچل کے مختلف دبے کچلے طبقوں کو سر بلند کرنے میں بھی آپ کے قلم و زبان کا بہت اہم رول رہا ہے ۔ کلہیا ، سرجاپوری، سیکھڑا، شیر شاہ بادی جیسی برادریوں کو ریزرویشن دلانے میں یہاں کے مختلف سیاسی لیڈروں اور سماجی کارکنوں کے ساتھ آپ نے بھی کافی تگ و دو کی ، اور ایک لمبے عرصے تک آپ کلہیا تحریک کے رہنما بھی رہے ہیں ۔

پروفیسر انوارالحق تبسم اگرچہ تاریخ کے پروفیسر کی حیثیت ہمیشہ پہچانے جاتے رہے ہیں، مگر

آپ نے ادب، سیاست، سماج، مذہب اور لسانیات پر بھی اچھا خاصہ کام کیا ہے ۔

انہیں اردو ، ہندی ، انگریزی ، فارسی چار زبانوں پر قدرت ہے، اظہار بیان کا ذریعہ بھی چاروں زبانیں ہیں ، اور ان کے مضامین و مقالات بھی تقریبا چاروں زبانوں میں موجود ہیں،۔

پروفیسر تبسم صاحب چونکہ شعبہ تاریخ سے وابستہ رہے ہیں اس لیے آپ کی طبیعت پر تحقیق و جستجو اور بحث و تمحیص کا عنصر غالب ہے۔

 

"اوراق پارینہ” ان کے گیارہ تحقیقی، تبصراتی اور تجزیاتی مقالات کا دستاویزی مجموعہ ہے، ۔

کتاب میں شامل پہلا مقالہ ” پورنیہ صدیوں کی تاریخ کے آئینے میں” کے نام سے ہے ، اس مقالے میں موجودہ پورنیہ (پورنیہ، ارریہ ، کشن گنج ) اور سابقہ لکھنوتی کی سیاسی ، سماجی، ادبی، ثقافتی، لسانی اور جغرافیائی حقائق اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پورنیہ کمشنری کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے، اس سرزمین کو بہت سی مذہبی شخصیات کی مہمان نوازی کا شرف حاصل رہاہے، پانڈؤوں کو بن باس کے زمانے میں یہیں پناہ ملی اورمہاتما گوتم بدھ نے تین مہینے تک یہاں قیام کیا، اس سرزمین کو یہ بھی امتیاز حاصل ہے کہ دہلی سلطنت سے پہلے یہاں مسلمانوں کی حکمرانی قائم ہوچکی تھی، کسی زمانے میں پورنیہ 6340 مربع میل پر پھیلا ہوا تھا اب کٹنے چھٹنے اور گھٹنے کے بعد 795 مربع میل پر محیط ہے، اس کے حالات و واقعات کا احاطہ چند صفحات میں مالہ وماعلیہ ناممکن ہے ، تاہم انہوں نے ایک حد تک سمندر کو کوزے میں سمونے کی کوشش کی ہے ۔

 

کتاب کا دوسرا مقالہ مشہور ماہر ہندوستانیات ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی کی کتاب ” کتا الہند” کے تجزیہ اور تعارف پر مبنی ہے ، یہ مقالہ خاصی معلوماتی اور تحقیقی ہے ،ہندوستان کے عوام کے مزاج ، مذاق ، مذاہب ، عقائد، رسومات ، رواج، تہوار، میلے ، حدود ، قیود ، خوش فہمی، کج روی ، دوسروں کو دیکھنے کا نظریہ ، دوسری ذات برادری کے بارے میں سوچ و فکر ، علمی سطح ، اور ریاضی و سائنس سے لگاؤ وغیرہ ان تمام چیزوں کو سمجھنے کے لیے البیرونی کا سفرنامہ ہند موسوم بہ” کتاب الہند یا تحقیق ماللہند” کا مطالعہ ضروری ہے، چونکہ ہندوستانیات میں بیرونی کو امام کا درجہ حاصل ہے، اور البیرونی کو سمجھنے اور پڑھنے کے لیے پروفیسر انوارالحق تبسم کا یہ مقالہ کافی حد تک معاون ثابت ہو گا ۔

کتاب کا تیسرا مقالہ "امیر خسرو کثیر الجہت ہندوستانی ثقافت کا استعارہ” کے عنوان سے ہے ، اس مقالے میں امیر خسرو کا خاندانی پس منظر، درباروں سے ان کی وابستگی، خواجہ نطام الدین اولیاء سے عقیدت و وارفتگی، بنگالہ، دہلی اور ملتان میں قیام کا دورانیہ ، دہلی سے محبت ، حب الوطنی ، فن موسیقی میں کمال درک ، فارسی ، برج بھاشا، سنسکرت اور اردو میں شاعری، اور تصانیف پر مبنی ہے ۔ یہ مضمون بھی کافی دلچسپی لیے ہوئے ہے

 

مغلوں کی آمد سے ہندوستان نے جہاں دوسرے شعبوں میں ترقی کی ، وہیں تعمیرات کے شعبے میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا ، آج آگرہ کے تاج کو دنیا کا ساتواں عجوبہ کہلانے کا شرف حاصل ہے ، اور ہندوستان میں موجودہ وقت جتنی یادگار عمارتیں موجود ہیں ، اکثر مغلوں کی تعمیر کردہ ہیں ، اس کتاب میں ایک مضمون ” ہندوستان میں عہد مغلیہ کی تعمیرات کا جائزہ ” کے عنوان سے بھی ہے ، اس مضمون کے مطالعے سے اجمالی طور پر مغل حکمرانوں کی مشغولیتوں،دلچسپیوں ، تعمیراتی ذوق اور ان کے سنین حکومت سے آگہی ہوتی ہے ۔

 

جنگ آزادی کی جدوجہد کے باب میں خاندان صادق پور اور سرزمین عظیم آباد کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں،جنگ آزادی کی تحریک سے پہلے ہی اس خاندان نے سید احمد شہید بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کی تحریک میں شمولیت اختیار کر کئی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا تھا، بالاکوٹ کی جنگ کے بعد اس خاندان نے تقریبا پچاس سالوں تک ملک کی آزادی کے لیے جان توڑ محنت کی جس کے نتیجے میں اس خاندان کے کئی مجاہدین کو کالے پانی کی سزا دی گئی، جائیدادیں قرقی کی گئیں ،دار پر چڑھایا گیا اور گھروں کو بلڈوزروں سے منہدم کردیا گیا ، کتاب کا پانچواں مقالہ انہی مجاہدین کے نام ہے ،اس مقالے میں یہ بھی خلاصہ کیا گیا ہے کہ ہندوستان کی وہابی تحریک اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کی وہابی تحریک میں کتنا فرق ہے ؟ اور دونوں ایک ہیں یا الگ الگ ؟

اس تحریک کو محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک سے جوڑنے کے پیچھے انگریزوں کی کیا چال کارفرما تھی۔

 

یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ آزادی کے کئی ہیرو گمنامی کی نذر ہوگئے اور کئی مجاہدین کو دیدہ و دانستہ نظر انداز کردیا گیا ، جن کے نام تک لوگوں کو یاد نہیں ، ان کے کارناموں کو یاد رکھنا تو دور کی بات ہے ، انہی گمنام مجاہدین میں سے ایک پیر علی خان بھی ہیں ، جو نسلا لکھنوی تھے تجارت کی غرض سے پٹنہ آئے ، علمائے صادق پور کے ساتھ جدو جہد آزادی میں شریک ہوگئے اور اپنا سب کچھ قربان کرکے خود بھی بھی دیس پر قربان ہوگئے،ایک گوشہ ان پر بھی ہے

 

پروفیسر حسن عسکری ، پروفیسر یوگیندرمشرا اور پروفیسر قیام الدین تینوں ان کے استاد ہیں ، تینوں تاریخ کے ماہر بھی ہیں اور تینوں کی تاریخی خدمات ناقابل فراموش ہیں ، اور کمال یہ ہے کہ تینوں کو جیتے جی ہی ہردلعزیزی حاصل ہوگئی تھی، چناں چہ!! تینوں پر درجنوں تحقیقی مقالے لکھے گئےاور اب بھی لکھے جارہے ہیں، تاہم پروفیسر یوگیندر مشرا کثیر الکتب اور شویت پور کی کھوج کی وجہ سے ایک اہم مقام رکھتے ہیں ۔ کتاب میں ایک ایک مقالہ تینوں پر ہے،یہ تینوں مقالات زیادہ تر تبصراتی اور تأثراتی ہیں مگر خاصہ معلوماتی بھی ہیں۔

 

کتاب کا آخری مقالہ ان کے دادا حیدر علی رحمانی کے احوال و آثار ، خوشنما یادوں، کارناموں، خوبیوں اور کوششوں اور قوم و ملت کے تئیں ان کی سوچ و فکر پر مبنی ہے ، ۔

مضمون نگاروں ، قلم کاروں اور ریسرچ اسکالروں کا عام رویہ یہ ہے کہ وہ حکمرانوں اور حاکموں کے حالات و واقعات، پسند و ناپسند، کامیابیاں و ناکامیاں، حصولیابیاں اور نقصانات ، حکمرانی کے مثبت و منفی پہلو وغیرہ پر تو خوب لکھتے ، پڑھتے، بولتے سنتے اور تبادلہ خیال کرتے ہیں مگر ان کے عوام اور رعایا کی زندگیوں کے حالات ، مسائل ، واقعات ، دلچسپیاں، محصولات و محرومیاں اور سماج و معاشرہ اور قوم و ملک کے تئیں ان کی سوچ و فکر وغیرہ کو بہت کم موضوع بحث بناتے ہیں ،انوار الحق تبسم کا امتیاز یہ ہے کہ وہ عوام کے مزاج و مذاق ، حالات و واقعات کو تحریر کا حصہ بناتے ہیں ، ان کے بہت سے مضامین ہندی اور انگریزی میں اس پر ملتے ہیں ۔

آخر الذکر مضمون اگرچہ اپنے دادا کی زندگی پر مبنی ہے ، مگر اس سے یہ اندازہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے کہ ہوتی کہ ایک دور افتاد گاؤں کا ایک بوڑھا کسان سماج کے لیے کیا کیا سوچتا ہے ، اور کیا کیا کرتا ہے،۔

 

کتاب ۲۲۸ صفحات پر مشتمل ہے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہوئی ہے، کتاب کا ٹائٹل واجبی اور اوراق ٹھیک ٹھاک سے ہیں ۔ سرورق پر بطور اشارہ مضامین میں ذکر کردہ شخصیات و اشیاء کی تصویریں بھی درج ہیں ۔

 

کتاب میں خوبیوں کے ساتھ کچھ خامیاں بھی ڈر آئی ہیں ، دو جگہ مذکر کو مونث استعمال کردیا گیا اور کچھ جگہوں پر جملوں کی ترکیبیں غلط ہوگئی ہیں اگرچہ یہ بہت کم ہیں مگر پھر بھی ہیں ،۔۔

 

کتاب کئی اعتبار سے قابل استفادہ ہے کہ مصنف ضخامت کے چکر میں نہیں پڑتے ، بلکہ مفید مشمولات کے ذریعے قارئین کو اپنی جانب متوجہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر تاریخی مضامین ہونے کے باوجود قاری اوبتا نہیں بلکہ معلومات کی تہوں میں ڈوب جاتا ہے ،غیر ضروری مباحث حتی الامکان گریز کی وجہ سے یہ کتاب قابل مطالعہ ہے ۔

Comments are closed.