کچھ یادیں مولانا مبارک کی! از ـ محمود احمد خاں دریابادی

کچھ یادیں مولانا مبارک کی!
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
مولانا مبارک حسین، جو ندوی بھی تھے، قاسمی بھی اور نیپالی بھی، ………. یارباش اور باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے ـ مولانا فضیل احمد گورکھپوری مرحوم سابق جنرل سکریٹری مرکزی جمیعۃ علماء جو دارالعلوم میں ہمارے ہم سبق تھے، مولانا مبارک کے اُن سے گھریلو تعلقات تھے اس لئے اُن کا دارالعلوم آنا جانا ہوتا رہتا تھا، جب آتے تو کئی دن تک قیام رہتا تھا، افریقہ منزل جدید میں چونکہ ہم لوگ بھی رہتے تھے اور مولانا فضیل سے ساتھی ہونے کی وجہ سے بے تکلفی بھی تھی، کچھ دنوں بعد ہماری وہی بے تکلفی مولانا مبارک تک منتقل ہوئی اور پھر آخر تک قائم رہی ـ
نیپال میں اچھا خاصا بڑا مدرسہ چلاتے تھے، اس لئے ممبئی آمد ہوتی رہتی تھی، جب بھی آتے ” سفیرانہ مصروفیت ” کے باوجود اچھا خاصا وقت دیتے، دیر تک ” ویج اور نان ویج ” ( veg and non veg) دونوں قسم کی گفتگو رہتی، چونکہ بیرون کے اسفار بھی ہوتے تھے وہاں کے حالات وتجربات بتاتے، بہت سے” بڑے نام والوں کے چھوٹے درشن ” کراتے ـ
ایک بار عالم اسلام کی ایک بڑی اور علم وفضل میں معروف شخصیت کے بارے میں بتانے لگے کہ وہ صاحب اپنے بڑے بھائی ( جو خود بھی عالمی شخصیت ہیں) کے ہمراہ کاٹھمنڈو میں سرِراہ مل گئے، بقول مولانا مبارک کہ میں اُنھیں دیکھ کر اپنی خوش قسمتی پر رشک کرنے لگا کہ اتنے بڑے اور بزرگ عالموں کو اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع مل رہا ہے، اپنا تعارف کرایا اور جس کام کے لئے وہ دونوں حضرات نیپال آئے تھے اُس کام میں اُن کا بھرپور تعاون کیا، ہر ممکن مہمان نوازی، خاطر داری، مدارات جو بھی ہوسکتا تھا پوری عقیدت اور خلوص کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی، ائر پورٹ پرالوداع کہنے تک ساتھ ساتھ رہا ـ
مولانا مبارک بتاتے تھے کہ اتفاق سے چند ماہ بعد ہی میرا اُن کے ملک میں جانا ہوا، ہندوستان کے ایک بڑے عالم، ایک مشہور مدرسے کے شیخ الحدیث بھی ساتھ تشریف لے گئے تھے، دوسرے دن جمعہ تھا ہم دونوں نے طے کیا کہ آج جمعہ کی نماز انھیں حضرت ـ ـ ـ ـ ـ دامت برکاتھم کے پیچھے پڑھی جائے، ملاقات بھی ہوجائے گی ـ چونکہ دوری زیادہ تھی اس لئے اپنی گاڑی کرکے شیخ موصوف کی مسجد پہونچے، حضرت کے پیچھے نماز پڑھی، نماز کے بعد حضرت کی خصوصی مجلس ہوئی اُس میں بھی بیٹھے، مجلسی احباب کی رخصتی کے بعد سلام مصافحہ ہوا، مولانا مبارک کا تعارف تو پہلے سے ہی تھا، ہمراہ دوسرے عالم جو تھے اُن کا تعارف کرایا، شیخ نے اُن کے مدرسے اور اس مدرسہ کے بانی سے اپنی عقیدت کا اظہار بھی کیا، چند منٹ رسمی گفتگو کے بعد شیخ اٹھ کھڑے ہوئے یہ دونوں حضرات بھی اُٹھے، ساتھ ساتھ مسجد سے نکل کر حضرت کے ساتھ ہی اُن کے مکان تک گئے، مکان پہونچ کر حضرت نے سلام کیا اور فی امان اللہ کہہ کر گھر میں داخل ہوگئے ـ…………. مولانا مبارک کہتے تھے کہ مجھے بہت غصہ آیا اور ساری عقیدت ہوا ہوگئی، کافی مہنگی گاڑی کرکے ہم لوگ صبح صرف حضرت سے ملاقات کے لئے نکلے تھے اس وقت ساڑھے تین بج رہے تھے حضرت ایک گلاس پانی تک نہیں پلاسکے، جبکہ میرے ساتھ ایک اور بزرگ عالم دین بھی تھے ـ …….. مولانا کے بقول چند سال بعد پھر اتفاق ایسا ہی ہوگیا، کاٹھمنڈو میں ملاقات ہوگئی اس بار حضرت اکیلے تھے مولانا کہتے تھے کہ میں ایک جگہ بیٹھا تھا کہ پیچھے سے حضرت نے پہچانا میرا نام لے کر سلام کیا ………. مولانا مبارک نے بتایا کہ انھیں دیکھتے ہی میرے اندر آگ لگ گئی، سوچا کہ اسی موقع پر موصوف کی ساری ” حضرتی ” جھاڑ کے رکھ دوں مگر محض اس لئے ضبط کرگیا کہ عمر میں بڑے ہیں اور ہمارے ملک میں مہمان ہیں، یہ بھی سوچا کہ اُن کا جو ظرف تھا اُنھوں نے کیا مجھے اپنے ظرف کے مطابق کام کرنا چاہیئے ـ مولانا نے بتایا کہ پھر میں نے حضرت کا جو بھی کام تھا وہ کروایا دیگر جو بھی تعاون ہوسکتا تھا وہ بھی فراہم کیا، اگرچہ پہلے جیسی عقیدت و محبت دل میں نہیں تھی ـ ………. مولانا مبارک کےاِس عمل سے ان مزاج کی صالحیت کا اندازہ ہوتا ہے ـ
کچھ سال قبل ممبئی میں ایک سہ روزہ پروگرام ہوا جس میں ہندوستان بھر سے محقق علماء ومفتیان کو دعوت دی گئی تھی، منتظمین نےایک بڑی اور قدیم عمارت کے کچھ کمرے کرائے پر لے کر تمام مہمانوں کے قیام و طعام کا بندوبست کررکھا تھا ـ ایک شام عشاء کے بعد روگرام میں تشریف لائے علماء سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے لئے میں بھی وہاں پہونچا، دیکھا ایک ایک کمرے متعدد مہمانان ہیں جن میں کچھ کمزور اور ضعیف بھی ہیں، ہر کمرے میں صرف ایک پلنگ ہے باقی دیگر حضرات زمین پر لیٹنے پر مجبور ہیں، بعض کمروں میں استنجا خانہ بھی نہیں ہے، عمارت کے ایک گوشے میں وضو اور دیگر حوائج ضروریہ کے لئے جانا پڑتا ہے، ظاہر ہے بڑی عمر کے کمزور علماء کے لئے خاصی مشقت کا کام تھا ـ …………. متعدد کمروں کا جائزہ لیتے ہوئے اتفاقا ایک کمرے میں پروگرام کے تقریبا تمام اہم علماء و فقہا جنھیں پروگرام کی روح کہا جاسکتا تھا اور جن سے ملاقات کی خواہش لے کر میں وہاں پہونچا تھا سب ایک ساتھ مل گئے، ……….. حالانکہ مولانا مبارک کا قیام کسی دوسرے کمرے میں تھا مگر اُس وقت وہ بھی وہاں موجود تھے ـ ………….. چونکہ ممبئی میں منعقد ہونے والے بیشتر علمی، ملی اور سماجی اجتماعات میں کسی نہ کسی طور پر احقر کا دخل بھی ایک خادم کے طور پر رہتا ہے اس لئے مجھے دیکھتے ہی مولانا مبارک پھٹ پڑے، …….. کیا انتظام ہے تم لوگوں کا، ……… کیسے کیسے بزرگ اور معذور علماء کو زمین پر ڈال رکھا ہے؟ ………. تم لوگوں سے بہتر تو فلاں اور فلاں جگہ کے لوگ تھے جنھوں نے شاندار شایانِ شان انتظام کیا تھا ـ ………..وہاں موجود ایک بزرگ نے میری طرف سے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی کہ مولوی محمود کا اس پروگرام میں کوئی دخل نہیں ہے، مولانا مبارک کہنے لگے کہ حضرت ! سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ممبئی میں اتنا بڑا پروگرام ہو اور اس آدمی کا کوئی دخل نہ ہو ـ پھر وہاں جو کھانا پیش کیا جارہا تھا اُس کے بارے میں بتانے لگے کہ یہاں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کا چاول سے پرہیز ہے، مگر آج دونوں وقت کھانے میں صرف چاول ہی تھے ـ ……….اس موقع پر میں نے کہا کہ ابھی منتظمین میں فلاں صاحب سے ملاقات ہوئی تھی وہ تو بتارہے تھے کہ کھانے میں مرغ وماہی کے ساتھ انواع واقسام کے دیگر ماکولات ومشروبات کا بھی نظم تھا ـ یہ سن کر برجستہ مولانا مبارک نے کہا کہ وہ انتظام صرف چند ” اعضائے مخصوصہ ” کے لئے تھا ـ
اس موقع پر میں زیادہ تر خاموش ہی رہا، چونکہ مجھے بھی زیادہ دیر زمین پر بیٹھنے میں پریشانی ہے اس لئے مزید تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد میں نے اجازت طلب کی اور اٹھ گیا ـ مولانا مبارک برامدے تک چھوڑنے ضرور آئے مگر اُن کا ” ذائقہ ” ہنوزخراب ہی رہا، میں نے بھی وہاں کچھ کہنے کے بجائے اُن سے کہا کہ کل دن میں کسی وقت دواخانے آؤ وہیں تمھارے تمام اعضاء کا علاج کردیں گے ـ …………. مگر دوسرے دن اُن کی واپسی ہوگئی ـ بس یہی اُن سے آخری ملاقات تھی، دوبارہ ان کا ممبئی سفر نہیں ہوا کہ میں انکے دربار میں اپنی صفائی پیش کرسکتا ـ ……… اُن کے مدرسے کے نمائندے آتے رہے ان کے وسیلے سے غائبانہ سلام کا تبادلہ ہوتا رہا ـ معلوم ہوا تھا کہ ذبابیطیس کی وجہ سے طببعت علیل رہتی ہے، اس لئے اسفار سے پرہیز کرتے ہیں ـ امسال رمضان میں لاک ڈاون تھا اس لئے کوئی خبر نہیں ملی، ……… امید تھی کہ آمد ورفت بحال ہونے کے بعدان کے ساتھ ایک بار پھر افریقہ منزل جدید کی یادیں تازہ کرنے کا موقع ملے گا مگر اچانک شوشل میڈیا پر اُن کے انتقال کی خبر دیکھ کر یقین کرنے کو جی تو نہیں چاہتا تھا مگر کرنا ہی پڑا ـ ……….. ہائے ! آج ایک اور شخص رخصت ہوگیا جس کو دیکھ کر عمر پینتالیس برس کم ہوجاتی تھی ـ
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
اللہ تعالی رحمت ومغفرت کا معاملہ فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے اور اُن کے خون پسینے سے سیراب کئے ہوئے اُن کے ادارے کی بقاوترقی کی سبیلیں پیدا فرمائے ـ……… باقی ………… رہے نام اللہ کا جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ـ
Comments are closed.