صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی
السلام علیکم
سوال ہم بھی کرتے ہیں، آپ بھی کرتے ہوں گے۔۔ کہ نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے اثرات دینی مدارس پر کیا ہوں گے۔۔ سوال سوچ کی علامت ہوتی ہے۔۔ تو سوچنا اچھی بات ہے، اسی سے راہ نکلتی ہے، اور یہی بیدار رکھتی ہے۔۔۔
لیکن کچھ سوال’ جواب سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔۔ یعنی کچھ باتیں ہوتی ہیں، اور ان سے سوال جنم لیتے ہیں۔۔ تو یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورت بنی ہے۔۔۔۔ جواب کچھ فرض کرلئے گئے تھے، کچھ جھوٹ کے پتنگ اڑائے گئے تھے، کچھ بدنیتی دکھائی گئی تھی۔۔ تب سوال پیدا ہونے لگے تھے۔۔۔۔ اور اب پورے ملک کےلئے، اور لمبی مدت کےلئے، اور بہت کچھ ہٹاتے مٹاتے، بدلتے بناتے، اور چھپتے دکھاتے، گھن گرج کے ساتھ قومی تعلیمی پالیسی لائی گئی ہے۔۔ تو سوال بجا بھی ہے، بے جا بھی ہے، سوال پیدا بھی ہے، اور جواب ظاہر بھی ہے۔۔۔۔
یہ الفاظ کی الٹ پھیر نہیں ہے، فلسفہ کی بازیگری بھی نہیں ہے۔۔ حقیقت ہی کچھ ایسی بنی ہوئی ہے۔۔ آئیے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔
دینی مدارس کا ذکر پچھلی پالیسی میں تھا، اس پالیسی میں لفظ بھی نہیں اور لفظ ہی نہیں ہے۔۔ ملک کی تعلیمی حصہ داری میں، اور اچھے شہری کی تیاری میں، دینی مدارس کا بڑا کردار ہے، پالیسی اس سے خاموش ہے۔۔۔ آشرم کی تعلیم کا ذکر ہے، اور متبادل تعلیم یعنی الٹرنیٹیو اسکولنگ، الٹرنیٹیو موڈ آف ایجوکیشن، اور الٹرنیٹیو فورمس آف ایجوکیشن کے ناموں سے ان کو سراہا اور ان جیسوں کو دکھایا گیا ہے۔۔ اسی نام کے تحت نجی تعلیمی نظام کی ہمت افزائی کی رائے بھی دی گئی ہے۔۔ اور یہ بھی کہ۔۔ ابتدائی تعلیم کے اس نظام کو بتدریج مین سسٹم میں سمولینے کی راہ دکھائی گئی ہے۔۔ اور ثانوی تعلیم کے ان اداروں کو این سی ای آر ٹی کے عصری نصاب کو پڑھانے، اساتذہ فراہم کرنے، اور مین سسٹم میں جوڑلینے کی بات بتائی گئی ہے۔۔۔۔
تو اب سوال تو پیدا ہوتا ہی ہے، اور جواب بھی ظاہر ہی ہے۔۔ سوال یہ کہ دینی مدارس کےلئے پھر کیا منصوبہ ہے؟ اور جواب یہ کہ سارے منصوبے پہلے سے بتائے اور دکھائے گئے، اور اب لکھ اور سنادئے گئے۔۔۔
بات وہی ہے کہ۔۔ وہ وہی بولیں گے اور کریں گے جو ان کی پسند ہے۔۔ تو کچھ باتیں بولی اور کچھ چھوڑدی گئیں۔۔ اب الگ الگ تشریح ہوگی، اور الگ الگ جواب آئیں گے۔۔ کچھ منہ بند کرنے کےلئے، کچھ زیب محفل کےلئے، کچھ موقع سے فائدہ اٹھالینے کےلئے۔۔۔
تو یہ نوعیت ملت کےلئے ہے، دوسری اقلیتوں کےلئے بھی ہے، ملک کی غریب اکثریت کےلئے بھی ہے، اور ملک وقوم کی تعلیمی ترقی کےلئے بھی ہے۔۔۔ تو سوال یہ سب کررہے ہیں، ہم آپ بھی سوال کریں۔۔ ملت، اقلیت، غربت اور ملک کی ترقی کےلئے سوالات سوچیں اور پوچھیں۔۔۔
ہاں۔۔ یہ تو ہمیں یاد ہی ہے کہ۔۔ اپنی تعلیم اپنی محنت اور اپنے خرچ پر ہم نے چلائی تھی۔۔ اپنوں کے ساتھ دوسروں کو بھی تعلیم دی تھی۔۔ تب ہم تعلیم یافتہ اور ملک کےلئے ترقی یافتہ بنے تھے۔۔ دوسری اقلیتوں نے بھی یہ کام کئے تھے۔۔ ملکی دستور نے اسے حق مانا اور ضروری بتایا تھا۔۔ تو اسی دستوری ضرورت اور اقلیتی حق کے ساتھ اب بھی اپنی تعلیم اپنے خرچ پر کرنی ہوگی۔۔اور اس پالیسی سے بھی یہی تشریح دکھانی اور یہی راہیں نکالنی ہوں گی۔۔۔
اور ہاں۔۔۔ یہ سوال تو ہوگا کہ مدارس کی تعلیم کہاں گئی؟ اقلیتی خدمات کیا بنیں؟ دستوری اختیارات کیا کہلائیں؟ اور ملک کی ترقی کیسے ہوئی؟؟
یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ سوال الگ شی ہے، اور کام الگ شی۔۔ سوال اہم ہے، اور کام زیادہ اہم۔۔ کہ کام بھی سوال بن جاتے ہیں، اور جواب بھی بن جاتے ہیں۔۔ آئیے دونوں کریں۔۔ وقت کچھ ایسا ہی ہے۔
خدا حافظ
24 اگست 2020
4 محرم 1442
Comments are closed.