غیرمسلموں کے ساتھ دوستانہ تعلقات

ڈاکٹر قاضی محمدفیاض عالم قاسمی
ناگپاڑہ، ممبئی۔
8080697348
تکثیری معاشرہ میں رہتے ہوئے ایک دوسرےسے تعلقات قائم کرنااوران کے ربط میں رہناناگزیر ہے،اس تعلق میں جس قدر استواری ہو گی اسی قدر الفت و محبت اور قربت پیداہوگی ۔معاشرہ میں امن وامان قائم ہوگا،ہر کوئی سکون و اطمینان کی سانس لے گا،ایک دوسرے کے دُکھ، درد اور آسائش وراحت میں باہم شرکت کی وجہ سے معاشرہ امن وسلامتی کا ایک بے نظیر نمونہ ہوگا۔اس لیے دیکھناہے کہ جولوگ مذہب اسلام کونہیں مانتے ہیں ان سے تعلقات قائم کرنے کے بارےمیں شریعت کےکیااحکام ہیں؟
غیرمسلموں کے ساتھ تعلق اورباہمی ربط کے چاردرجات ہیں:
(١) مُواسات: یعنی ہمدردی وخیرخواہی،اورنفع رسانی کی خاطر تعلق ہو،ایساتعلق ان غیرمسلموں کے علاوہ جو مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہیں،سبھی غیرمسلموں کے ساتھ جائز ہے ۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ: اللہ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتاان سے جو لڑتے نہیں دین پر اورنکالانہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ احسان اورانصاف کاسلوک کرو۔(سورممتحنہ:۸)
(٢) مُدارات: یعنی ظاہری خوش خلقی اوردوستانہ والابرتاؤ کرنا، ایساتعلق تمام غیرمسلموں کے ساتھ جائز ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ:مسلمانوں کوچاہئے کہ مسلمانوں کو چھوڑکر کفارکو دوست نہ بنائیں،اورجوکوئی ایساکرتاہےتو وہ اللہ کے ساتھ دوستی رکھنے میں کسی شمار میں نہیں،مگر ایسی صورت میں کہ تم اس سے کسی قسم اندیشہ رکھتے ہو،اوراللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتاہے۔(سورہ آل عمران:٢۸)
(٣) مُعاملات: یعنی تجارت، ملازت،اورصنعت وحرفت کی بناء پر تعلق ہو، توایساتعلق بھی تمام غیرمسلموں کےساتھ جائز ہے؛البتہ اگر اس سے مسلمانوں کونقصان پہونچتاہو،تو پھرجائز نہیں ہے۔رسول کریم ﷺ،خلفائے راشدین ، اوردیگر صحابہ کرام کاتعامل اس پر شاہد ہے۔
(٤) مُوالات: یعنی ایسی قلبی محبت ومودت کہ ایک دوسرے پر اپنی جان ومال نچھاورکرنے کے لیے تیارہوجائیں۔ایسی محبت کہ اپنا دین وایمان اور دینی شعائر محفوظ نہ رہیں،ایسی محبت جس سےخداکی عبادت،اوررسول کی اطاعت میں خلل پڑےغیرمسلموں کے ساتھ جائز نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ: اے ایمان والو!تم مومنین کو چھوڑکرکافروں کو دوست نہ بناؤ،کیاتم یوں چاہتے ہو،کہ اپنے اوپراللہ تعالیٰ کی حجت صریح قائم کرلو۔(سورہ نساء:١٤٤)
دوسری جگہ ارشادہے:ترجمہ: اے ایمان والو میرے اوراپنے دشمن یعنی کافر کو جگری دوست نہ بناؤ،کہ تم ان کو پیغام بھیجودوستی کے،حالاں کہ انھوں نےتمہارے پاس آئے ہوئے حق (بات اورمذہب)کاانکارکیا، صرف اس بناء پر کہ تم نے اللہ پر جو تمہارارب ہے ایمان لائے رسول اورخودتم کو (مکہ سے)نکال دیا۔اگر تم میرے راستہ میں اورمیری خوشنودی کے لیےجہاد کے لیے نکلتے ہوتو چپکے سے انھیں دوستی کاپیغام بھیجتے ہو،میں زیادہ جانتاہوں جو کچھ تم چھپاتے ہواورظاہر کرتے ہو،اورجس شخص نے ان سے دوستی کی تووہ سیدھی راستہ گمراہ ہوگیا۔ (سورہ ممتحنہ:١)
قرآن کریم کی اس طر ح آیتوں کی بناء پر غیرمسلموں کو غلط فہمی پیداہوئی ہے ، وہ کہتے کہ دیکھو قرآن کریم غیرمسلموں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کرتاہے۔حالاں کہ قرآن کریم ہر طرح کی دوستی سے منع نہیں کرتاہے ؛بلکہ ایسی دوستی سے منع کرتاہے جس سے جان اور ایمان خطرے میں پڑجائے۔اور یہ کوئی برانہیں ہے، ہر کوئی چاہتاہے کہ ہمارا عقیدہ، ہماری تہذیب،جان ومال،اور شعائر محفوظ رہیں۔ اگر ہم ا س آیت کریمہ کاشان نزول دیکھیں تو پوری بات سمجھ میں آجائے گی۔
اس آیت کریمہ کے تحت فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم تفسیر قرطبی کے حوالے سے لکھتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے ایک مخلص صحابی حضرت حاطب ابن بلتعہ تھے ، جو غزوۂ بدر میں شرکت کرنے والوں میں سے تھے ، وہ اصل میں یمن کے رہنے والے تھے ، مکہ میں ان کا اپنا خاندان بھی تھا ؛ لیکن حضرت زبیر بن عوام کے حلیف تھے اور ان کے خاندان بنو اسد بن عبد العزیٰ کی پناہ میں تھے ، آپ ﷺ کے نبی بنائے جانے کے بعد ایمان لائے اور مدینہ ہجرت فرمائی ، ہجرت کے آٹھویں سال جب اہل مکہ نے حدیبیہ میں ہونے والی صلح کو توڑ دیا تو آپ ﷺ اہل مکہ کے خلاف فوجی کاروائی کی تیاری کررہے تھے اور چاہتے تھے کہ مکہ والوں کو اس کی خبر نہ ہو ؛ تاکہ آپ ﷺ چانک مکہ پہنچیں ، مناسب جنگی تیاری نہ ہونے کی بناپر اہل مکہ ہتھیار ڈال دیں اور حرم شریف میں خون خرابہ کی نوبت نہ آئے ، اسی زمانے میں سارہ نامی ایک خاتون مکہ سے مدینہ پہنچیں ، جو اصل میں گانا بجانا کیا کرتی تھیں اور اپنی غربت و محتاجی کے وجہ سے آپ ﷺ سے مدد کی طلب گار ہوئیں ؛ حالاں کہ وہ مسلمان نہیں ہوئی تھیں اورنہ ہجرت کی نیت سے آئی تھیں ، پھر بھی آپ ﷺ کی رحم دل طبیعت نے دشمنوں کی طرف سے آئی ہوئی ایک خاتون کے ساتھ بے مروتی کی اجازت نہیں دی اور آپ ﷺ نے اپنے لوگوں سے ان کی مدد کرائی ، مکہ کے بیشتر مہاجرین کے کچھ نہ کچھ رشتہ دار مکہ میں موجود تھے اورانھیں اپنے اپنے خاندان کی حفاظت حاصل تھی ؛ لیکن حضرت حاطب چوں کہ اصل میں مکہ کے رہنے والے نہیں تھے ؛ اس لئے بظاہر آپ ﷺ کے کنبہ کے لوگوں کو وہاں کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا ، انھیں خیال پیدا ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ جب مسلمان مکہ پر حملہ کریں تو اہل مکہ انتقامی کارروائی کے طورپر ان لوگوں کو نشانہ بنائیں ، جن کے رشتہ دار مسلمان ہوچکے تھےتو اورلوگ تو شاید بچ جائیں ؛ لیکن میرے خاندان کو تو کسی طرف سے کوئی تحفظ ہی حاصل نہیں ہوپائے گا ؛ اس لئے انھوں نے سارہ کو دس دینار والی چادر دی اور اس کے ساتھ ایک خط دیا کہ یہ اہل مکہ کو پہنچادو اور خط میں لکھا کہ ’ رسول اللہ ﷺ تمہارے پاس ایک ایسی فوج کے ساتھ آرہے ہیں ، جو گویا ایک رات کی طرح ہے ، یعنی بہت بڑی فوج ، جو پانی کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مار رہی ہے اورمیں تمہیں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر آپ تنہا بھی مکہ آجائیں ، تب بھی اللہ آپ ﷺ کو تم لوگوں کے مقابلہ میں فتح عطا فرمائیں گے اورتم پر فتح پانے کا وعدہ پورا کردیں گے ؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے دوست اور مددگار ہیں ‘ بعض روایتوں میں یہ اضافہ ہے کہ : ’ لہٰذا تم اپنے بچاؤ کا انتظام کرلو ۔
رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعہ اطلاع کردی گئی اور مقام بھی بتادیا گیا کہ ” روضۂ خاخ ” نامی مقام پر وہ خاتون اس خط کو لے کر پہنچ چکی ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ، حضرت زبیر ، اور حضرت مقداد کو اس کے تعاقب میں بھیجا ، اِن کو ٹھیک اسی مقام پر وہ خاتون ملی ، ان حضرات نے اس سے خط کا مطالبہ کیا ، پہلے تو اس نے انکار کیا ، اس کے سامان کی تلاشی لی گئی ، مگر خط نہیں ملا ، حضرت علی نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو بات فرمائی ہے ، وہ جھوٹی نہیں ہوسکتی ؛ اس لئے خط نکالو ، ورنہ ہم تمہارے کپڑے نکلوادیں گے ، جب اس نے دیکھا کہ اب خط نکالنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ، تب اس نے اپنے بال کے جوڑے یا اپنی تہبند کی بندش کے پاس سے خط نکالا اور یہ حضرات واپس آئے ، جب رسول اللہ کے پاس پہنچے اور خط کھولا گیا تو حضرت عمر نے عرض کیا : مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کا سر قلم کردوں ، حضور ﷺ نے حضرت حاطب کو بلا بھیجا اوران سے دریافت کیا ، انھوں نے عرض کیا : میں جیسے پہلے مسلمان تھا ، اب بھی مسلمان ہوں ، میں نہ کافر تھا اور نہ مرتد ہوا ہوں ، مسلمان ہونے کے بعد کفر پر راضی ہونے کا سوال ہی نہیں ؛ البتہ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ لوگوں کا تعلق خود مکہ سے ہے اورمہاجرین کے کنبہ کے لوگ ہاں موجود ہیں ، اگر ان کے قرابت داروں پر کوئی آفت آئی تو وہ ان کو بچالیں گے ؛ لیکن میرے کچھ قرابت دار وہاں ہیں ، ان کوکوئی بچانے والا نہیں ہوگا تو ہم نے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے جس فتح کا وعدہ فرمایا ہے ، وہ تو بہر حال آپ کو حاصل ہوکر رہے گی ؛ لیکن میرے اس عمل کی وجہ سے میرے کنبہ کے لوگوں کو تحفظ حاصل ہوجائے گا ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : حاطب نے سچ کہا ، اور حضرت عمر سے فرمایا :’ حاطب بدر میں شریک رہے ہیں اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا : اب تم جو بھی چاہو عمل کرو ، میں نے تم لوگوں کو معاف کردیا ‘ ۔ ( خلاصہ از : صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ ، باب من فضائل اہل بدر الخ : ۲۴۹۴، تفسیر قرطبی : ۱۸؍ ۵۰۵۱)
اسی پس منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں اور مسلمانوں سے فرمایا گیا کہ جو لوگ اسلام کے دشمن ہیں ، ان سے تمہاری ایسی دوستی نہ ہونی چاہئے کہ وہ تمہارے راز کی باتوں سے بھی واقف ہوجائیں ؛ حالاں کہ پہلے انھوں نے ہی تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے ، اور اب بھی ان کا یہ حال ہے کہ اگر وہ تم کو پالیں تو کوئی رعایت نہ کریں ؛ اس لئے دین کے مقابلہ میں قرابت داری اور شتہ مندی کا لحاظ نہ کرو — ان آیات سے معلوم ہوا کہ اسلام نے مطلقاً کافروں کی دوستی کو منع نہیں کیا ہے ؛ بلکہ ان لوگوں کی دوستی کو منع کیا ہے ، جو مسلمانوں سے عداوت رکھتے ہیں اور جنھوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے ، جیساکہ اس آیت میں اہل مکہ کی صورتحال بیان کی گئی ہے۔(تفسیر قرطبی : ۱۸؍ ۵۳بحوالہ آسان تفسیر قرآن کریم)
دراصل اسلام اس بات کی تعلیم دیتاہے کہ مسلمان کے دل میں اللہ اوراس کے رسول کی محبت ہر محبت سے مقدم رہے،دوسرے الفاظ میں اللہ اوراس کے رسول کی تعلیمات پر عمل کرنے میں کسی کی بھی محبت آڑے نہ آئے۔حتیٰ کہ ماں باپ اوراپنی اولاد سے بھی کہیں زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو۔نبی کریم ﷺ نے ارشادہے:
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاہے جب تک کہ میں اس کے نزدیک اپنے والد، اپنی اولاد بلکہ سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔(صحیح بخاری:۱۵عن انس رضی اللہ عنہ)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے کہا:اے اللہ کے رسول آپ میرے نزدیک ہرچیزسے زیادہ محبوب ہیں سوائے اپنی جان کے،تو آپ ﷺ نے کہاقسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہےتم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے ہوجب تک میں تمہارے لئے تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیزنہ ہوجاؤں۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہاکہ ٹھیک ہے آپ میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں،آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: الآن يا عمر،ہاں! اب ہوا۔(صحیح بخاری:۶۶۳۲)
ان احادیث کاخلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کے دل میں اصل محبت اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی رہناضرور ی ہے ان کے علاوہ جن لوگوں کی محبت ہے وہ اس لئے ہے کہ اللہ نے ان سے محبت کرنے کاحکم دیاہے۔ جیسے ماں باپ، بھائی بہن وغیرہ سے محبت۔ اور جن لوگوں سے محبت کرنے سے منع کیا ہے تو ان سے رُک جانا ضروری ہے۔ غیرمسلموں سے دلی محبت کرنااور انہیں جگری دوست بناناجائزنہیں ہے؛البتہ ہمدردی وغم خواری نیزخوش خلقی اورحسن سلوک کرنا جائزاورمستحسن ہے۔فقط
Comments are closed.