ڈاکٹر فیاض احمد کے حریف کی غیر ارادی "حق بیانی” از : محمد اللہ قیصر. @Mlafaiyazahmad

ڈاکٹر فیاض احمد کے حریف کی غیر ارادی "حق بیانی”

از : محمد اللہ قیصر

ڈاکٹر فیاض احمد کے ایک مقابل امیدوار نے زی ہندستان سے بات کرتے ہوئے ایک بڑی دلچسپ بات کہی، یہ دلیل انہوں نے اپنے حق میں اور ڈاکٹر فیاض احمد کے ترقیاتی کام کا انکار کرتے ہوئے پیش کی لیکن کسی نے سچ کہا ہے”سانچ کا آنچ نہیں” ، انہوں نے کہا کہ دس سال پہلے بسفی میں سڑکیں نہیں تھیں، موبائل تھا لیکن چارج کےلئے بجلی نہیں تھی” اب یہ سب موجود ہے” لیکن اس کا سہرا انہوں نے نتیش کمار کو دیا،

گویا وہ کہہ رہے کہ کہ بسفی آج سے دس سال قبل سڑک اوربجلی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم تھا، لیکن اب اسے بنیادی سہولیات سے محروم نہیں کہا جا سکتا، (واضح رہے کہ گزشتہ دس سالوں سے فیاض احمد ہی ایم ایل اے ہیں) ، اس وقت ہر طرف بہترین سڑکیں اور بجلی موجود ہے، لیکن اس ترقی کے پیچھے مقامی ایم ایل اے ڈاکٹر فیاض احمد کے بجائے ڈائریکٹ سی ایم صاحب ہیں، کیا کیجئے گا صاحب! ” سچ کبھی چھپتا نہیں چاہے جتنا تم چھپاؤ” یعنی بسفی کی چو طرفہ ترقی کا انکار نہیں ہے صاحب کو ، لیکن کیا کریں، مجبوری ہے، سہرا ڈاکٹر فیاض احمد کے بجائے، اس کو دے رہے ہیں جن کو مقامی ترقیاتی کاموں سے کچھ لینا دینا ہی نہیں، اس کی یہ ذمہ داری ہے ہی نہیں، وہ اسمبلی میں بیٹھ کر بل پاس کروائیں گے نہ کہ اسٹیٹ کی نچلی اکائیوں میں آکر یہ دیکھتے پھریں کہ کس گلی میں سڑک نہیں اور کس گاؤں میں اب تک بجلی نہیں، جناب! یہ کام مقامی نمائندہ کا ہے نہ کہ سی ایم صاحب کا،کتنی مضحکہ خیز بات ہے، بچہ بچہ جانتا ہے کہ مقامی ترقی میں اصل کردار مقامی نمائندہ کا ہوتا ہے، کسی بھی "مقامی ترقیاتی” کام میں، "مقامی نمائندہ” کی فکر اس کی محنت، جد و جہد، اور لگن کا انکار سورج کو چراغ دکھانے جیسا ہے، لیکن ” جھوٹ بولنے کی فطرت” ایک ناقابل انکار حقیقت کو زبان لانے سے روک رہی ہے،

اس انکار کو کیا کہیں "کم ظرفی” یا "حریفانہ چشمک” کا نتیجہ، وہ ڈاکٹر فیاض احمد کا نام زبان پر کیوں نہیں لاتے، ظاہر ہے، انہیں خوف ہے کہ "رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے”

"حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے”

ڈاکٹر صاحب کا نام لیں گے تو سیاست میں کل ہی "بے ہنر” قرار دیکر "دربدر” کئے جائیں گے،

 

بہر حال ان کا شکریہ کہ انہوں نے اس سچائی کو جو ہر کسی کی زبان پر عام ہے بھری محفل میں قبول کیا کہ "بسفی دس سال قبل یعنی ڈاکٹر فیاض احمد کے آنے سے پہلے اندھیرے میں ڈوبا تھا” سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی تھی لیکن اب پہلے جیسے حالا نہیں، اب ساری سہولیات موجود ہیں، اور ترقیاتی کام کے پروسس سے ادنی واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ مقامی ترقیاتی کام مقامی نمائندہ کی ذمہ داری ہوتی ہے، مقامی نمائندہ اس کی فکر اور محنت کے علاؤہ کوئی نہیں جو اسے انجام دے سکے، اگر وہ محنتی اور فکر مند ہے، تو ترقیاتی کاموں کا سیلاب آسکتا ہے، جیسے بسفی میں آیا، ورنہ کچھ نہیں ہوسکتا سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، لوگ منہ دیکھتے رہ جائیں گے، اگر کچھ رہے گا تو بس ترقیاتی کاموں کا انتظار، اور آئندہ الیکشن کے انتظار میں بیٹھے عوام۔

Comments are closed.