اردو اگر ہندوستانی زبان کہلاتی!! محمد صابر حسین ندوی

اردو اگر ہندوستانی زبان کہلاتی!!

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

اردو کی پستی، زوال اور وقت کے دھارے میں کہیں پچھڑ جانے کا شکوہ ہوتا ہی رہتا ہے، شکوے بہت ہیں، شکایتوں کی کمی نہیں؛ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اردو کے ساتھ یہ دقتیں کیوں پیش آئیں؟ عنوان کو سامنے رکھتے ہوئے سینر صحافی جناب ونود دوا کا یہ بیان پڑھئے جو آپ نے HW news پر دی ونود دوا شو میں نقل کی ہے: کہ اب ہندی اور اردو دو الگ الگ زبانیں کیسے ہوگئیں، پہلے یہ ہندوستانی یا کھڑی بولی کہلاتی تھی، مہاتما گاندھی نے بھی کہا تھا؛ کہ ہندوستانی یہاں کی زبان ہونی چاہئے؛ دراصل ہندی اور اردو زبان کی جو تفریق ہوئی ہے، اس کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں سر جون گلکرسٹ تھے، ان کا یہ ماننا تھا کہ زبان کی بنیاد پر بھی تقسیم ہوسکتی ہے بلکہ ہونا چاہئے؛ اس کام کیلئے پنڈت سرل مشر، للو لال، شری سدا سکھ اور انشاءاللہ خان کو متعین کیا گیا، اور یہ طے پایا کہ ہندی کو الگ کیا جائے، اس میں سنسکرت کے الفاظ ڈالے جائیں جو ہندوستانی سے ہے، اور اردو کو الگ کرتے ہوئے اس میں فارسی کے الفاظ ڈالے جائیں، پھر رفتہ رفتہ مذہبی رنگ چڑھتا گیا اور اردو کو مسلمانوں کی زبان کہا جانے لگا، بیشک اس کا رسم الخط فارسی ہے اور ہندوی/ کھڑی بولی ناگری میں لکھی جاتی ہے؛ جبکہ ہندوستانی فارسی رسم الخط یا دیو ناگری میں بھی لکھا جاسکتا ہے، مشہور زمانہ محقق، سیرت نگار سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی تحقیق یہ تھی کہ شروع میں اردو کا نام اردو نہ تھا، یہ کہیں دہلوی، کہیں دکھنی، کہیں گوجری، کہیں ہندی و ہندوی اور کہیں قلعہ معلی کے لحاظ سے اردوئے معلی کہلائی. اس کے ثبوت میں وہ لکھتے ہیں کہ "شاہ رفیع الدین دہلوی اور شاہ عبدالقادر نے قرآن پاک کا ترجمہ جس زبان میں کیا، اس کو انہوں نے ہندی کہا ہے” (نقوش سلیمانی: ٦٠)، سید صاحب برابر اپنے مضامین میں اس کا اظہار کرتے رہے اور پیش نظر خطبہ میں بھی اس پر زور دیا ہے کہ اردو کا نام اگر ہندوستانی ہوجاتا تو اردو اس ملک کی مشترکہ زبان کی لڑائی جیت لیتی، شروع میں اس تحریک کی شدت سے مخالفت کی گئی؛ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ سید صاحب کا یہ مشورہ عین اردو دوستی، حقیقت پسندی، دور اندیشی اور مصلحت بینی پر مبنی تھا۔

سید صاحب کی تجویز اس سلسلہ میں یہ تھی___ ” ہم اس زبان کا نام اردو جو صرف ڈیڑھ سو برس سے رفتہ رفتہ ہماری زبانوں پہ چڑھ گیا ہے، یک قلم چھوڑ دیں، اس کا نام ہندوستانی رکھیں، اور اس کو شہرت دے کر عام کریں. دنیا کی اکثر زبانوں کا نام ملک یا قوم کے نام سے موسوم یا منسوب ہے، اردو کا نام اس ملک یا قوم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، ایسا اجنبی نام جس سے قومی یا ملکی جذبہ کو کوئی تحریک نہ پہونچے، احتراز کے قابل ہے، اور اس کے بجائے اس کا ہندوستانی نام ہندوستان اور وہ بھی ہندو اور مسلمانوں کے مشترکہ وطن کے نام کے تصور کے حامل ہونے کے سبب سے پوری طرح اپنے اندر ہمدردانہ جذبات کی روح رکھتا ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسی زبان کا نام ہے، جس کو پورے ملک سے تعلق ہے، اور وہ پورے ملک کی متحدہ زبان ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے، عام خیال یہ ہے کہ ہندوستانی نام انگریزوں کا رکھا ہوا ہے، مگر یہ واقعہ نہیں. ہم اس نام کے ذریعے سے ملک کے سامنے وہ تخیل پیش کریں گے، جو ہندو مسلم کے مشترکہ وطن کے تصور کی ترجمانی کرے گا، اور مغلوں کے لشکری استیلاء کی تاریخ سے جو لفظ اردو میں چھپی ہے، ہم کو نجات دے گا___” (نقوش سلیمانی:٧٥_ ٧٦) سید صاحب نے ٥٧/ صفحات پر مشتمل اس طویل خطبہ میں ان لوگوں کو جو مصالحت کی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر سنسکرت آمیز ہندی کو قومی زبان بنانے پر بضد تھے، ان خطرات سے آگاہ و باخبر کیا ہے، جو دو قومی نظریے کا سبب بن کر ملک کی تقسیم. کا باعث ہوئے، انہوں نے اہل وطن کو ١٩٣٣ء میں ہوشیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ __” ہندوستان میں زبان کا انقلاب ہوکر رہے گا، اور جس قدر ہندوستان زیادہ متحد ہوتا جائے گا، اتنا ہی اس کی متحدہ زبان کا امکان بڑھتا جائے گا، جو لوگ ہندوستان میں دو زبانیں پیدا کرنا چاہتے ہیں، ان کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ موجودہ ہمالیہ سے بڑھ کر ایک اور ہمالہ بنا رہے ہیں، جو پہلے ہمالہ سے زیادہ اونچا ہوگا، ہمالہ چاہے ٹوٹ کر چور چور ہوجائے، مگر ہندوستان کو دو متفرق زبانوں میں تقسیم کرنے سے دونوں قوموں کے درمیان ایک ایسا ہمالہ کھڑا ہوجائے گا، جو پھر قیامت تک نہ ٹوٹ سکے گا”( نقوش سلیمانی:٧٤__ دیکھیے: علامہ سید سلیمان ندوی _ شخصیت و ادبی خدمات :١٣٧ وما بعدھا)

 

Comments are closed.