تبصرہ___ کتاب جاناں ﷺ

 

واحسن منک لم ترقط عینی واجمل منک لم تلد النساء

خلقت مبریًا من کل عیب کانک قد خلقت کما تشاء

 

نام کتاب کتاب جاناں ﷺ

مصنف مولانا مفتی شکیل منصور قاسمی

کل صفحات ۳۸۴

ورق کی کوالٹی عمدہ دیدہ زیب جلد کے ساتھ

ناشر مرکز البحوث الاسلامیہ العالمی

انٹرنیشنل اسلامک ریسرچ سینٹر نیو کالونی پوکھریا بیگوسرائے بہار

ای میل [email protected]

ملنے کا پتہ مکتبہ النور دیوبند یوپی یا ای میل پر مصنف سے رابطہ کریں

 

مبصر : 🖊 الطاف جمیل شاہ سوپور کشمیر

اسلام کی اِمتیازی شان یہ ہے کہ یہ محض تعلیمات پر مشتمل نہیں بلکہ اپنی تعلیمات کے عملی نمونہ اور عملی مظاہر کا حامل بھی ہے۔ سیرتِ نبوی کو امت مسلمہ کے لیے نمونہ کامل قرار دے کر اسلام کی تعلیمات کے عملی نمونہ ہونے کی ضرورت کو پورا کر دیا گیا ہے۔ تاریخ انسانی میں یہ امتیاز صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انفرادی، معاشرتی اور قومی زندگی کا ایک ایک لمحہ محفوظ اور اہل ایمان کے لئے مینارہ نور کی صورت میں موجود ہے۔ آپ کی سیرت طیبہ پر تاریخ میں سب سے زیادہ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیرت نگاروں کی فہرست میں مسلم اور غیر مسلم تمام مصنفین شامل ہیں۔ ہر دور اور ہر خطہ کے اہل علم نے اپنی بساط کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ پر لکھنے کی سعادت حاصل کی،، اس سعادت میں جس کا بھی حصہ پڑا وہ اپنے نصیب پر بجا طور پر ناز کرسکتا ہے کیوں کہ حب نبوی ﷺ ایک ایسی شاہراہ ہے جس کا مسافر کبھی دل آزردہ یا زمانے سے مرعوب نہیں ہوتا بلکہ وہ اس شاہراہ فلاح پر یوں چلتا رہتا ہے کہ اس کی نگاہ و دل محبت و عقیدت کے عطر سے خوشبوؤں کا مرکز بنے رہتے ہیں ،،اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کے لیے اللہ رب العزت نے اسلام کو نظامِ حیات اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہٴ حیات بنایا ہے وہی طریقہ پاکیزہ طریقہ ہوگا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، فعلاً منقول ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور آپ نے فرمایا ہے من رغب عن سنتی فلیس منی جس نے میرے طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے

۔حضور پاک ﷺ کی پاکیزہ اور مقدس سیرت اس وقت بھی ان انسانوں کے لیے ہدایت کاباعث بنی جو انسانیت سے دور زندگی اور حیوانیت کے دلدادہ ہو چکے تھے۔ آج بھی اس پڑھے لکھے،علم وآگہی اور سائنس کے زمانے میں رشد وہدایت کے متلاشیوں کے لیے تسکین وطمانیت ِ قلب کا سامان مہیا کرتی اور ان کی علمی تشنگیوں کو بھجاتی ہے ۔حضور اکرمﷺ کی سیرت ِ پاک کی جامعیت کایہ پہلو کس قدر تابناک ہے،،،

سیرت نگاری کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو پر اصحاب علم نے رشحات قلمی سے مختلف گوشوں پر اوراق کو سیاہی سے رونق بخشی ہے جس میں ہر پہلو پر لکھا گیا ہے اور لکھا جارہا ہے یہ سعادت ہے ،،، میرے ہاتھوں میں ایک کتاب ائی ہے جو بہار کے ایک معزز فاضل مکرم جو کئی کتابوں کے مصنف اور داعی ہیں مفتی شکیل منصور جو اپنے علمی تحقیقی فقہی ادبی کمالات کے باعث اہل علم کی صف میں ممتاز و منفرد مقام کے حامل ہیں کی یہ کتاب بنام کتاب جاناں ہے موصوف کا علمی و ادبی تحقیقی ذوق بے حد سلجھا ہوا جس میں اسلوب کی تازگی بیان کی شگفتگی اور بصیرت کا اعلی معیار قارئین کو محو حیرت کر دیتا ہے موصوف کی یہ کتاب جو سیرت نبوی ﷺ کے موضوع پر ان کی اعلی تصنیف ہے یہ محض کتاب ہی نہیں ہے بلکہ سیرت نبوی¡ کی اعلی قدروں کی امیں ہے اور مصنف کی والہانہ محبت و عقیدتوں کی پاکیزہ تعبیر ہے جس صفحہ قرطاس پر مصنف نے بکھیر رکھا ہے

معتبر سیرت نگار حب نبوی اور عشق رسول کو ایمان کی بنیاد واساس تصور کرتا ہے ۔ آپ ﷺ کا نام زبان مبارک پر آتے ہی یا آپﷺ کانام کانوں میں پڑتے ہی احساس وشعور میں سوز وگداز کی برقی لہر دوڑ جاتی اورتفکرات کی لا محدود دنیا میں کھو جاتے ہیں اور پر نم آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ ذکر نبوی کیا چھیڑتے ہیں کہ ان کے جذبات پر رقت کی کیفیت طاری ہوتی ہے،، سیرت نگاری میں کئی مصنفین ایسے گزرے ہیں جو قارئین کو مکہ مدینہ کی سیر ایسے کرادیتے ہیں کہ قاری دوران مطالعہ ان راہوں ، جگہوں ، شخصیات ، میں خود کو محسوس کرتا ہے قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے دوران مطالعہ کہ وہ ان لمحات میں جیسے موجود ہو اور وہ عاشقانہ ان لمحوں کو اپنے لئے باعث سعادت تصور کرتا کے جب وہ سیرت طیبہ کے کسی موڈ پر اداس ہوکر محسوس کرتا ہے کہ اس کی نگاہیں نم ہوگئی ہیں وہ قلب و جگر میں اک ہلچل محسوس کرتا کے کہ در محبت میں جب بھی اسے کسی اذیت و المیہ کا سبق سامنے آتا ہے سیرت نگاروں مین یہ کمال ہے کہ وہ قاری کو کسی بھی صورت کتاب سے جدا ہونے نہیں دیتا بلکہ قاری اسی فکر مین رہتا ہے پھر کیا ہوا کیوں کہ قاری تو اس تصنیف کے اصلی کردار سے والہانہ محبت کے اظہار میں سب کچھ بھول کر بیٹھ جاتا ہے ،،،اللہ تعالی کرت کہ ہم بھی ان میں شامل ہوں جن کے قلوب حب نبوی سے آباد ہوں

کتاب مذکور میں ۱۴ ابواب ہیں ہر باب میں سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا گیا ہے اور ان گوشوں کو قرآن و سنت ، کتب سیرت و تاریخ کی معتبر کتب سے عطر کشید کی گئی ہے تاکہ قارئین کو لطف اندوز ہونے اور شاد کیا جاسکے قارئین کی لطف اندوزی کا سامان بہم رکھا گیا ہے جو قارئین باذوق ہوں اور شوق مطالعہ کے ساتھ ساتھ وہ پاکیزہ جزبوں اور احساسات کے ساتھ امام کائنات تسکیں جاں ﷺ کی پاکیزہ مزاجی اوصاف حمیدہ کے رنگ میں رنگ جانے کے جزبوں سے خود کو آباد رکھنے کا جذبہ رکھتے ہیں،، ان کے لئے مصنف نے محققانہ ذوق وسعت مطالعہ کے ساتھ دل آویز اور خوش کن انداز میں صفحہ قرطاس پر سیرت طیبہ کے گوشوں کو سمیٹا ہے جس کا لفظ لفظ ورق ورق علم و اخلاص اور عشق و محبت رسول ﷺ سے معطر و منفرد ہے ،، اسباق سیرت کو جس ترتیب اسناد و سلاست سے بیان کیا گیا ہے وہ لائق آفرین ہے اور اہل علم کے لئے سرمایہ افتخار اخلاق و شمائل سیر و مغازی سے متعلق مباحث کا تحریری انداز اس قدر نایاب ہے کہ ایسا لگتا ہے کتاب میں شمائل ترمذی ، کتاب المغاذی روح جلوہ گر ہوئی ہے طلبہ و علماء کے ساتھ عوام بھی اس کتاب سے مستفید ہوسکتی ہے کیوں کہ جہان علم و ادب اور استعارات و اسناد کا خیال رکھا گیا ہے وہیں زبان سادہ اور سلیس بھی ہے کہ قاری کو کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ،،،

کتاب کے ابواب ایک نظر میں، باب اول میں شخصی خاکہ ، حیات مبارکہ کے مختلف پہلو و واقعات کو نمایاں کیا گیا ہے ،، باب دوم خاندانی تفصیلات ازدواج مطہرات کے تذکرے اولاد وغیرہ کا تذکرہ بالخیر،، باب سوم رفقاء اصحاب کا تذکرہ و احوال مختصر ، باب چہارم خطوط و سفارتی کاوشیں، اور مختلف قوانین و عملے کا تذکرہ، ، باب پنجم ساز و سامان تلواروں کے نام اوصاف پرچم نبوی وغیرہ ،، چھٹا باب سواریوں کی تفصیل، ساتواں باب لباس وغیرہ سامان خانہ وغیرہ آٹھواں باب شمائل مصطفی حسن و کمال کا بیان ،، نواں باب مظہر اخلاق و عادات نبویہ ،، دسواں باب خرد و نوش آداب لباس و پوشاک مبارکہ کا تذکرہ گیارہواں باب وداع جان کائنات اور سفر آخرت کا جاں گداز منظر ،،بارہواں باب وصایا و نصائح ،، تیرواں باب معجزات وغیرہ ،، چودھواں باب غیر مسلم دانشوروں مفکروں اور سیاسی قدآور شخصیات کے ان خیالات و اعترافات پر ہے جو انہوں نے رسول کائنات ﷺ کی ذات گرامی والا کے لئے لکھے یا بیان کئے ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیرت طیبہ پر قلم اٹھا کر شان رسالت مآب ﷺ میں محبت و عقیدت کے جذبے پیش کرنا زبان و قلم کا سیرت طیبہ کے لمس سے آشنا ہونا اہل ایمان کے لئے افتخار کا باعث ہے یہ ایسے پاکیزہ جذبے ہیں جن پر اہل قلم و زبان نازاں ہوسکتے ہیں ،، امت مسلمہ کے کاندھوں پر سیرت کی جو ذمہ داری بیان کی گئی ہے یہ امت کو بطور امانت سپرد ہوئی ہے یہ سراپا سعادت ہے کہ رحمت عالم فخر عالم ﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوے یاد رکھے جائیں اور ان کو زندگی میں زیور حیات بنا کر رکھا جائے یہی چشمہ حیات پاکیزہ ہے ،عبادات وطاعات سے متعلق آپ کی سیرت طیبہ اور عادات شریفہ پر برابر لکھا اور بیان کیا جاتا رہتا ہے۔ دنیا میں ہر لمحہ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوگا آپ کی سیرت سنائی اور بتائی جاتی رہے گی پھر بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عنوان پُرانا نہیں ہوگا یہی معجزہ ہے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اور یہی تفسیر ہے ”ورفعنالک ذکرک“ کی۔

اسی سے آج بھی مختلف انسانی حقوق و عادات سیراب ہوسکتے ہیں امن عالم کا ضامن یہی اصول ہے یہی فلاح انسانیت کا ضامن ہے کہ حقائق کو جانا جائے اور انہیں زندگی کی کل متاع جان کر اپنایا جائے یہ جو امت مسلمہ مختلف آفات المیوں کی شکار ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ نبوی اخلاق و کردار کا فقدان ہے اور ناکامی و نامرادی ان کے حصے میں آئی ہے ،، مصنف جناب مفتی شکیل منصور قاسمی کی خدمت میں علامہ اقبال کے یہ محبانہ اشعار ہدیہ کرتا ہوں اس امید و یقین کے ساتھ کہ ان کا یہ سفر جاری رہے گا

خوف کہتا ہے کہ ” یثرب کی طرف تنہا نہ چل

شوق کہتا ہے کہ ” تو مسلم ہے بیباکانہ چل“

گو سلامت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے

عشق کی لذت مگر خطروں کی جاں کاہی میں ہے

کتاب جاناں مجھے جیسے طالب علم کو دینے کا شکریہ کہ آپ نے اپنے علمی و ادبی تحقیقی ذوق سے آراستہ کتاب جاناں دی جو میرے لئے سرمایہ افتخار ہے دعا گو ہوں بارگاہ صمدیت میں کہ آپ کو علوم و معارف کا وہ ذائقہ نصیب ہو جس سے آپ کا

وجود اور آپ کے متعلقین خوشبوؤں کی طرح مہکتے رہیں

Comments are closed.