Baseerat Online News Portal

مولانا کلبِ صادق کی وفات: ایک عہد کاخاتمہ

سمیع اللّٰہ خان
جنرل سیکریٹری: کاروانِ امن و انصاف
یہ خبر غمگین کرنے والی ہیکہ معروف عالمِ دین ماہرِ تعلیم اور سماجی جہدکار مولانا کلب صادق کا انتقال ہوچکاہے، مولانا کلبِ صادق، شیعہ مکتب فکر کی ایسی شخصیت تھی جنہیں تمام مسالک کے نمائندوں نے متحدہ طورپر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا نائب صدر بنایا تھا اس طرح وہ مسلمانانِ ہند کے ملکی سطح کے اکابر و قائدین میں شمار تھے۔
مولانا کلبِ صادق ایسے شیعہ عالم دین تھے جنہیں دیگر تمام مکاتبِ فکر کے اعیان میں وقر حاصل تھا
مولانا کلبِ صادق نے شیعہ سنّی کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی مخلصانہ کوششیں کیں، انہوں نے بین المسالک محبتوں کو انگیز کرنے اور بین المذاہب رواداری کو بڑھانے کے لیے زندگی بھر محنت کی،
لکھنؤ جوکہ شیعہ۔سنّی ٹکراؤ کے لیے جانا جاتا تھا وہاں پر اس منافرت کو کم کروانے میں مرحوم کی انتھک خدمات ہیں ۔
بجا طور پر اعتراف کرنا چاہیے کہ: کئی دفعہ ان کی یہ کوششیں ہر مسلک کے دوکانداروں کو ناگوار خاطر ہوتی تھیں اور انہیں اپنوں کے ہاتھوں ستایا جاتا تھا ۔
مولانا کلبِ صادق، حکومتوں سے ڈرتے نہیں تھے، وہ ظالموں کو بے خوف للکارتے تھے، مسلمانوں پر کوئی بھی بات آتی سَنگھیوں کی طرف سے تو سنّی علماء کی مذمتیں آتی رہتیں اور مولانا کلب صادق صاحب کی گھن گرج فورا سنائی دیتی، وہ کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ معاملہ شیعہ کا ہے یا سنی کا؟ وہ بحیثیت کلمہ گو ان کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ۔
کرونا وائرس ۔ لاکڈاؤن کے دور میں جب بھارت کی ہندوتوا وادی سرکار نے تبلیغی جماعت کو بلی کا بکرا بنایا اور مسلمانوں کو کرونا پھیلانے کے نام پر نشانہ بنایا جارہا تھا تب مولانا کلب صادق نے سامنے آکر تبلیغی جماعت کی حمایت کی اور میڈیا و حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
یاد کیجیے جب NRC, اور شہریت ترمیمی قانون کےخلاف ملک بھر میں آندولن برپا تھا تب اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار مظاہرین پر ستم ڈھا رہی تھی ریاست کا ماحول خوفزدہ تھا وہیں لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں خواتین اس خوف کے خلاف اور ظالمانہ قوانین کےخلاف شاہین باغ بناکر نبردآزما تھیں، تب NRC اور سی اے اے کےخلاف لکھنؤ کے اس احتجاج کو طاقتور بنانے اور خواتین کی ہمت افزائی کرنے کے لیے مولانا کلب صادق اپنی شدید بیماری کے باوجود احتجاج میں شریک ہوئے تھے، جبکہ شرکاء پر یوگی سرکار کی کڑی نگاہ تھی،اور لکھنؤ میں ملک کی مشہور مشہور قائد صفت شخصیات موجود رہتی ہیں ۔
مولانا کلبِ صادق کا عظیم کارنامہ یہ ہیکہ انہیں جب بھارت میں اپنی مسلمان قوم کی خستہ حالی، پسماندگی اور غربت کا ادراک ہوا تو انہوں نے قوم کو ایسی پستی اور بے وقعتی سے باہر نکالنے کے لیے، جوشیلے استحصال جھوٹے وعدے ماضی کے خواب اور سیاسی سودے بازی کے بجائے، جہالت، بے روزگاری اور فاقہ کشی کےخلاف ایسی جدوجہد کی جیسے جنگ چھیڑ دی ہو ۔
انہوں نے بیشمار تعلیمی ادارے قائم کیے، 1984 میں انہوں نے’’ توحید المسلمین ‘‘ ٹرسٹ کی بنیاد رکھی، یہ ٹرسٹ مستحق اور ضرورت مند بچوں کو تعلیمی امداد فراہم کرتا تھا، اس ٹرسٹ کے ذریعے بڑا کام ہوا زمینی سطح پر اور آگے چلکر اس ٹرسٹ نے مسلم قوم اور انسانیت کو کئی اسکول، ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ، ہسپتالوں اور کالجز فراہم کیے، مولانا کلبِ صادق تعلیمی، فلاحی، رفاہی میدان میں ایسے محنت کرتے تھے جیسے وہ پیدا ہی اسی کے لیے ہوئے، انہوں نے لکھنؤ، الہ آباد، جونپور، علیگڑھ جیسے شہروں میں مسلم قوم کے لیے اچھے اور مفید ادارے قائم کیے وہ جس قسم کی بے لوث تعلیمی خدمات انجام دے گئے جن سے خلقِ کثیر اپنی دنیا سنوارتی ہے ان کی یہ بے لوث صفت ان میں سرسید کی جھلک دکھلاتی ہے، ان کے تعلیمی کارنامے ایک مکمل عہد ہے۔
مولانا کلب صادق کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی متحدہ اور اجتماعی پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو تنازعات اور خلفشار سے بچانے میں رول ادا کیا۔
مولانا کلب صادق، شریف النفس انسان تھے، اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لیے فکرمند رہتے اور جدوجہد کرتے ان کی زندگی گزر گئی انہوں نے اسلام پسندی کو ہمیشہ مقدم رکھا۔
مولانا کلبِ صادق ملت اسلامیہ کے عبقری انسانوں میں سے تھے، ان کے ہونے سے ملت کا ہونا ہوتا تھا، وہ علم دوست، اعلیٰ اخلاق کے مالک، کریم النفس، ملنسار اور ہمدرد انسان تھے، وہ انسانوں کو ایذاء رسانی سے بچتے تھے، ان کے جانے سے مسلمانوں نے، پرسنل لا بورڈ نے اور مختلف مکاتب فکر نے کیا کھویا ہے اس کا احساس آنے والے دنوں میں سب کو ہوجائےگا، وہ کئی کئی فتنوں اور حالات کے لیے ڈھال بھی تھے ۔
اللہ انہیں غریقِ رحمت فرمائے، مسلمانوں کو اپنے مخلصین اور بے لوث ہمدردوں کی قدر کرنے والا بنائے، میں ان کے اہلخانہ اور متعلقین کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں ، یہ غم صرف آپکا نہیں ہم سب کا ہے، خسارہ ملت کا ہے، رب کریم مرحوم کی روح کو نہال فرمائے۔

 

Comments are closed.