لو جہاد: فرقہ واریت کا ایک نیا ہتھیار – محمد صابر حسین ندوی

لو جہاد: فرقہ واریت کا ایک نیا ہتھیار –
محمد صابر حسین ندوی
7987972043
بی جے پی حکومت والی ریاستوں نے لو جہاد کو ایک قانون کی حیثیت دینے کی وکالت کی ہے، اترپردیش ان میں سبقت لے گیا، وہاں کی کیبینیٹ نے اسے قانونی جامہ پہنا دیا اور یہ مان لیا؛ کہ اگر کسی نے شادی کیلئے دھرم تبدیل کیا ہے تو جس کیلئے کیا گیا ہے اس لڑکے اور اس کے معاونین کو پانچ سال کی سزا ہوسکتی ہے، یہ لو جہاد اپنے آپ میں حیران کن لفظ ہے، جہاد اور لو کا کیا تعلق ہے یہ تو بتانا مشکل ہے! لیکن اتنا طے ہے کہ اسے موجودہ سیاست نے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، ایک طرف ہندوستان میں سماجی بکھراؤ اور پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور خود ہندو خواتین کو ان کی آزادی، صلاحیت اور سوجھ بوجھ کے پیمانے پر ذلیل کیا جارہا ہے، تو وہیں اسے مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند سازش کے تحت بروئے کار لایا جارہا ہے، ہندوستان میں اس مہم کی شروعات گجرات (٢٠٠٢ء) مسلم کشی سے ہوئی، وہاں یہ سوچ پیدا کردی گئی تھی کہ مسلمان ہندو عورتوں کا استحصال کر رہے ہیں، انہیں اپنی نسل افزائش کا ذریعہ بنا رہے ہیں، یہ تحریک کیرلا اور پھر کرناٹک میں واقع دو کیسیز کے ذریعہ ظاہر ہوا؛ لیکن پھر ٢٠١٣ء میں مظفر نگر مسلم کشی میں پوری شدت کے ساتھ یہی نفرت دیکھنے کو ملی، بتایا جاتا ہے کہ دنگے سے پہلے چھوٹی چھوٹی سبھاؤں اور محفلوں میں امت شاہ نے یہ صور پھونکا تھا، جو شعلہ بن کر ابھرا، اس کے بعد کیرلا کا ہادیہ کیس مشہور ہوا، جو ایک میڈیکل کالج کی طالبہ تھی اور اس نے ایک مسلم لڑکے سے شادی کرلی تھی، کیرلا پائی کورٹ نے ان کے خلاف فیصلہ دیا تھا، مگر عدالت عظمی تک بات گئی اور انہیں انصاف ملا، اس دوران متعدد کیسز آئے اور اعلی پیمانے پر ان کی تفتیش کی گئی؛ لیکن کہیں بھی یہ نہیں پایا گیا کہ لو جہاد نام کی کوئی چڑیا پھدک رہی ہے، اور زمینی سطح پر اس کا کوئی وجود ہے، بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس دن یوپی میں یہ قانون پاس ہورہا تھا، اس سے ایک دن قبل الہ باد ہائی کورٹ ایسے ہی ایک مقدمہ کی چھان پھٹک اور سالوں کی تفتیش کے بعد یہ فیصلہ سنا رہا تھا؛ کہ لو جہاد کا کوئی وجود نہیں ہے، مگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس- سیاست دانوں نے ان سب کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون پر مہر لگائی؛ بلکہ مدھیہ پردیش اور کرناٹک وغیرہ نے بھی اپنی مہم تیز کردی ہے، اپوزیشن کے نیتاؤں نے خال خال اس پر تنقید کی ہے، ملک کے قد آور لوگوں نے بھی نشانہ بنایا ہے، مگر وقت ان کے ساتھ نہیں ہے، وہ ساری آوازیں حباب کے مثل ہیں، جو کچھ دنوں بعد دب کر رہ جائیں گی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس قانون میں مسلمانوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے؛ لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اس سے سب سے زیادہ وہی متاثر ہوں گے، کیونکہ ملک دوسری سب سے بڑی آبادی انہیں کی ہے، یہ سب دراصل مسلمانوں کی گردنوں پر چھری چلانے اور انہیں سیاسی بائیکاٹ کے بعد سماجی مقاطعہ سے دوچار کرنا ہے، نفرت کی کھائی اتنی گہری کردینا ہے کہ ہر آواز کسی صاحب عقل تک پہونچتے پہونچتے ٹوٹ جائے، یہ کوئی نیا ہتھکنڈہ نہیں ہے، بلکہ مجرب نسخہ ہے، چنانچہ تاریخ میں بھی ایسے ہتھیار استعمال کئے گئے ہیں، نازی ازم کے وقت یہودیوں کے متعلق یہی سوچ پیدا کی گئی تھی اور اسی کی بنیاد پر ان کا قتل عام کیا گیا تھا، انگریز (گورے) بھی کالے لوگوں کو اسی نظر سے دیکھا کرتے تھے بلکہ آج بھی دیکھتے ہیں اور انہیں ان کی خواتین کو ہتھیانے، سیکس کا آلہ بنانے اور بچے پیدا کرنے کے جرم میں قتل کردینا واجب سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ فلموں، کارٹونز وغیرہ کے اندر سیاہ فام یا پھر مسلم نوجوانوں کو متشدد کے ساتھ ساتھ ہوس پرست بتاتے ہیں اور ذہنیت تشکیل دیتے ہیں کہ یہ لوگ سماج میں بس اسی لئے پیدا کئے گئے ہیں؛ حتی کہ ان کی شادیاں بھی اس محور کے ارد گرد گھومتی ہیں، تاریخی باتیں اپنی جگہ؛ لیکن کچھ سال قبل کی ہی بات ہے کہ ٢٠١٥ میں میانمار کے اندر بھی یہی قانون لایا گیا تھا کہ کوئی بودھ مذہب کی خاتون کسی غیر مذہب میں شادی نہ کرے، ظاہر ہے اس کا نتیجہ پچھلے دو سالوں میں دیکھنے کو ملا ہے، اسے ایک ہتھیار بنا کر وہاں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا، انتخابات سے الگ کردیا گیا اور سماج کا ایک ایسا عضو بنا دیا گیا جو اپاہج ہے اور کسی کام کا نہیں ہے، ہندوستان میں مسلمانوں پر ایسے متعدد قوانین تھوپے جا چکے ہیں، اسے بھی اسی کی ایک کڑی سمجھئے! ورنہ آپ خود غور کیجئے کہ ایک قانون جو دفعہ ١٥/ اور ٥١ اے کے بھی خلاف ہے، بنیادی آزادی اور جمہوریت سے متضاد ہے، بلکہ اگر کوئی ناشبیہ واقعہ پیش بھی آجائے تو سول ایکٹ کے تحت کئی دفعات موجود ہیں، اس کے باوجود لو جہاد کا نیا شوشہ کیونکر تسلیم کیا جارہا ہے اور ملکی پیمانے پر ایک آواز تک بلند نہیں ہوتی، سیکولرازم اور ڈیموکریسی کے لوازمات میں سے ہے کہ ہر ایک مذہبی اعتبار سے آزاد ہو، ایک بالغ اپنے مطابق فیصلے کر سکے؛ لیکن اسے قانونی طور پر منہدم کہاجارہا ہے، اس کے باوجود خموشی پسری ہوئی ہے، ویسے بھی جینو سائیڈ واچ جیسے عالمی ادارہ نے بھی یہ خلاصہ کیا ہے؛ کہ ہندوستان کے اندر مسلم کشی کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، ایسے میں سنبھل جائیں! ایک سر ہو کر بیٹھیں اور قانونی و سماجی تیاریاں کریں، فاشزم کا مقابلہ کریں، اگر ایسا نہ ہوا تو مستقبل کی تاریکی ہمیں لے ڈوبے گی.
Comments are closed.