تکفیر کی اصل حقیقت

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایمان کا مرکز قلب ہے، اور قلب کی الٹ پلٹ اللہ تعالی کے ہاتھوں میں ہے، عموما دل کی یہ کیفیت انسان کے اعمال سے چھن کر ظاہر ہوجاتی ہے، مگر کبھی کبھی یہ تقلیب دل کی دبیز تہوں میں دب کر رہ جاتا ہے، وقت اور حالات، زندگی کے مختلف مراحل بھی اس پر اثرانداز ہوتے ہیں، ایمان بھی تصدیق قلب کا نام ہے، اللہ تعالی کی وحدانیت اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار اصل ہے، پھر اعمال ان کی تائید کرتے ہیں؛ تاہم اگر کوئی عمل میں کوتاہ ہو تو اس کے دل کی اتھاہ گہرائی پر حکم نہیں لگاتے، کیونکہ سمندر کی گیرائی تک اترا جاسکتا؛ لیکن دل کی گہرائیوں کا اندازہ کسی کو نہیں، ایسے میں حسن ظن سے کام لیتے ہیں؛ جب تک کہ کفر کھل کر سامنے نہ آجائے، مگر اس میں بھی لازم ہے کہ زبان سے انکار نہ ہونے کے بجائے عملی کوتاہی پر دو ٹوک کفر کا حکم نہ لگایا جائے، بلکہ کافرانہ اور فاسقانہ اعمال سے تعبیر کیا جائے، بالخصوص ایمان کے سلسلہ میں ائمہ سلف کا رویہ بڑا وسیع پایا جاتا ہے، احناف کے یہاں تو اس کی وسعت کہیں زیادہ ہی ہے، اس کے باوجود امت مسلمہ میں ایک طبقہ ایمان و کفر کی سندیں عنایت کرنے پر یقین رکھتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے ٹھیکیدار ہیں، دینی احکام ان کے گھر کی لونڈی ہے، جنت و جہنم انہیں کے اشاروں پر قائم ہیں، یہ گویا دربان بہشت ہیں جو اجازت نامہ تقسیم کئے پھرتے ہیں، یہ درحقیقت اہل کتاب کے پادری اور پوپ کی کرتوت ہے، جو عہد ظلمت میں نیکی و بدبختی کا رقعہ تقسیم کیا کرتے تھے؛ لیکن مسلمانوں میں یہ مرض ان کے متشددین نے پیدا کیا ہے، غور کرنے کی بات ہے کہ جس کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کلمہ اور قبلہ کی بنیاد پر لوگوں کو ایمان میں شمار کیا ہے، اس کے ماننے والے تحقیقی و اجتہادی امور میں اختلافات پر بھی کفر کے پروانے بانٹتے پھرتے ہیں، متقدمین اہل فتوی کی کتابوں میں ایک طرف جہاں حد درجہ احتیاط پایا جاتا ہے، بلکہ خوارج، معتزلہ جیسے عقائد والوں کے ساتھ محتاط قلم استعمال کیا جاتا ہے، تو وہیں عالم ہے کہ آج کے مفتیان کرام بات بات پر کفر کا فتوی کھینچ مارتے ہیں، اور اپنے ہی مؤمن بھائی کیلئے دعائے مغفرت، سلام و کلام کو بھی روا نہیں جانتے، اللہ جانے ان کے دل پر عبادت و ریاضت اور نماز و روزہ کا کوئی اثر ہے بھی یا نہیں؟ وہ جبے و قبے میں کہیں منافقت کے ستائے ہوئے تو نہیں ہیں؟ یا سیاست و کرسی کی لالچ، شہرت و ناموری کا شوق تو نہیں رکھتے؟

جو بھی ہو یہ مسلکی تشدد اور تکفیر مہلک ہے، اس سلسلے میں مولانا وحیدالدین خان کی ایک اہم تحریر "تکفیر یا تبلیغ” کے عنوان پر موجود جو قابل مطالعہ ہے، آپ بھی پڑھتے جائیے:”ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: إذا قال الرجل لأخیہ یا کافر، فقد باء بہ أحدہما (کتاب الأدب، باب مَن أکفر أخاہ) یعنی جب ایک شخص اپنے بھائی کے بارے میں کہے کہ اے کافر، تو یہ قول دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرور لوٹے گا۔ یعنی مخاطب اگر کافر نہ ہو، تو خود قائل خدا کے نزدیک کافر ہوجائے گا۔صحیح مسلم میں کتاب الایمان کے تحت، اِس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے امام النووی نے لکھا ہے کہ : واعلم أن مذہب أہل الحق أنہ لا یُکفّر أحد من أہل القبلۃ بذنب (شرح النووی ، جلد1، صفحہ 150) یعنی اہلِ حق کا یہ مسلک ہے کہ کسی بھی گناہ پر اہلِ قبلہ میں سے کسی شخص کی ہر گز تکفیر نہیں کی جائے گی، یعنی جو شخص کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑے، اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو کافر قرار دینا صرف خدا کا کام ہے، وہ کسی انسان کا کام نہیں۔ ایمان اور کفر دونوں کا تحقق نیت پر ہوتا ہے، اور نیت کا علم خدا کے سوا کسی اور کو نہیں۔ اِس لیے یہ صرف خدا کا کام ہے کہ وہ کسی کے بارے میں کافر یا مومن ہونے کا فیصلہ فرمائے۔ انسان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کسی کو غلطی پر دیکھے تو وہ اس کو دل سوزی کے ساتھ تبلیغ اور نصیحت کرے، وہ اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ تکفیر گویا کہ خدا کے دائرے میں داخل ہونا ہے، اور خدا کے دائرے میںداخل ہونے کا حق کسی کو بھی نہیں۔جو شخص دوسرے کو کافر بتائے، وہ خود اپنے بارے میں یہ اعلان کررہا ہے کہ میرے سینے میں لرزاں اور ترساں قلب نہیں۔ جو آدمی حقیقی معنوں میں اللہ سے ڈرتا ہو، وہ کبھی ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ کسی کے بارے میں کفر کا اعلان کرے، جب کہ یہ قطعی اندیشہ ہے کہ اگر مخاطب کافر نہ ہو تو خود کہنے والا شخص خدا کے نزدیک کافر قرار پاجائے گا۔ کوئی بھی اللہ سے ڈرنے والا انسان یہ خطرناک رِسک (risk) لینے کا تحمل نہیں کرسکتا۔” (الرسالہ ستمبر2009)

Comments are closed.