مٹ گئی تیرگی، ہوگئی روشنی جب ستاروں میں ماہِ تمام آگیا

مٹ گئی تیرگی، ہوگئی روشنی جب ستاروں میں ماہِ تمام آگیا
محمد قاسم اوجھاری
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں عالم انسانیت سسک رہا تھا، گلشن ارضی ماتم کدہ بنا ہوا تھا، فضائے کائنات پر ظلم و ستم کی تیرہ و تاریک گھٹاؤں کی حکمرانی تھی، ہر طرف نفرت وعداوت اور وحشت و بربریت کے شعلے بھڑک رہے تھے، کمزوروں اور بے کسوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، چوری زنا شراب نوشی عام تھی، عورتوں کے حقوق کی پامالی کی جاتی تھی اور ان کو جانوروں سے بھی بدتر اور حقیر سمجھا جاتا تھا، معصوم بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، لوگ خالق کائنات کو بھول گئے تھے، شرک و بت پرستی، ستاروں کی پوجا، آگ سورج چاند کی پرستش عروج پر تھی، علم نجوم کہانت سحر سر چڑھ کر بول رہا تھا، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا، غرض تاریخ انسانی کا بدترین دور تھا انسانیت نے حیوانیت کا لبادہ اوڑھ لیا تھا، پوری دنیا انتہائی نازک دور سے گزر رہی تھی۔
ظلمت و گمراہیت کے اس ماحول میں اچانک خدا کا آخری پیغمبر آفتاب نبوت بن کر ربیع الاول کے مہینے میں بوقت صبح فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا یا یوں کہئے کہ دعائے ابراہیم اور بشارت عیسی پہلوئے آمنہ سے ظاہر ہوئی۔ یعنی وہ جس کے وجود سے خوابیدہ بیدار ہوئے اور بیدار ہوشیار بنے۔ جس کی بصیرت سے نابیناؤں نے بینائی پائی اور بینا ہدایت یافتہ بنے۔ جس کی ایک آواز سے کفر کی دنیا برباد ہوئی اور توحید کا عالم تعمیر ہوا، جس کی ایک پکار سے ظلمتِ شرک کافور ہوئی اور نور ایمان چمک اٹھا۔ جس نے مظلوم عورتوں کو ان کے حقوق اور باعزت مقام دیا اور معصوم کلیوں کو مسکرانے کا حق عطا کیا۔
اس کی ولادت کا دن تاریخ انسانی کا مبارک اور روشن ترین دن ہے۔ عالم قدس میں اسی کے احترام کا انبیاء سے عہد لیا گیا تھا اور رسولوں نے اسی کے آنے کی بشارتیں دی تھیں، اس کو حضرت داؤد نے محمدیم کہہ کر پکارا تو حضرت عیسیٰ نے مبشرا برسول ياتي من بعدي اسمه احمد کا مژدہ سنا کر اس کی آمد کا پیغام دیا۔
اس عالم فانی میں اس ماہ تمام کے جلوہ گر ہوتے ہی ہر سمت نور ہی نور نظر آنے لگا۔ اسلام پھیلا تو پھیلتا چلا گیا، کاروان ایمان بنا تو بنتا چلا گیا، دیکھتے ہی دیکھتے صنم خانے ویران ہونے لگے، مسجدیں آباد ہونے لگیں، لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے، ظالم و جابر امن پسند بننے لگے، باغ ہستی کی ساری بہاریں واپس لوٹنے لگیں، مسکراتی کلیاں لہلہاتے پھول و پودے سرسبز وشاداب ہونے لگے، ابلتے چشمے بل کھاتی ندیاں سمندر کی مست لہریں خاموش جھیلیں پہاڑوں سے گرتی آبشاریں اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے لگیں، اور کیوں نہ ہو جبکہ اسی کے لئے اس عالم کو بنایا اور سجایا گیا تھا، بس دیر تھی اس کے جلوہ گر ہونے کی، دیر تھی اس کے افق پر چمکنے کی۔
مولانا مناظر احسن گیلانی اس کی آمد اور اس کے بعد برپا ہونے والے عظیم انقلاب کی اس طرح منظر کشی کرتے ہیں "یوں تو آنے کو تو سب ہی آئے، سب میں آئے، سب جگہ آئے (سلام ہو ان پر) بڑی کٹھن گھڑیوں میں آئے؛ لیکن کیا کیجئے کہ ان میں جو بھی آیا، جانے ہی کے لئے آیا، پر ایک اور صرف ایک جو آیا اور آنے ہی کے لئے آیا، وہی جو اگنے کے بعد پھر کبھی نہیں ڈوبا، چمکا اور پھر چمکتا چلا جا رہا ہے، بڑھا اور بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، چڑھا اور چڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، سب جانتے ہیں اور سبھوں کو جاننا ہی چاہئے کہ جنہیں کتاب دی گئی اور جو نبوت کے ساتھ کھڑے کئے گئے، برگزیدوں کے اس پاک گروہ میں اس کا استحقاق صرف اسی کو ہے اور اس کے سوا کس کو ہو سکتا ہے، جو پچھلوں میں بھی اس طرح ہے جس طرح پہلو میں تھا، دور والے بھی ٹھیک اس کو اسی طرح پا رہے ہیں اور ہمیشہ پاتے رہیں گے جس طرح نزدیک والوں نے پایا تھا، جو آج بھی اسی طرح پہچانا اور ہمیشہ پہچانا جائے گا جس طرح کل پہچانا گیا تھا کہ اسی کے اور صرف اسی کے دن کے لئے رات نہیں، ایک اسی کا چراغ ہے جس کی روشنی بے داغ ہے” (النبی الخاتم)
Comments are closed.