اس قوم سے عبرت اور سبق لیجئے

 

محمد قمر الزماں ندوی

ہندوستان میں درجنوں مذاہب کے لوگ آباد ہیں، اور اپنے اپنے مذہبی رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، لیکن جس مذہب کے لوگوں میں سب سے زیادہ، حرکت،حرارت، یونیٹی اور اپنی قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور شوق ہے وہ سکھ مذہب ہے، ہندوستان میں اس کی آبادی صرف دو فیصد ہے، لیکن اس کی اپنی شناخت اور پہچان ہے، تجارت، معیشت اور ترقی میں یہ قوم سب سے آگے ہے، پوری دنیا میں جہاں بھی چلے جائیں آپ کو تجارت کی لائن میں وہاں آپ کو اس مذہب کے لوگ مل جائیں گے، خودی، خود داری، خود اعتمادی، غیرت اور جد و جہد و جفاکشی اس قوم کی پہچان اور شناخت ہے، اپنے مذہبی شناخت کی سب سے زیادہ حفاظت اسی قوم نے کی ہے، مذھبی لباس اور وضع قطع کو آج تک صرف اس قوم نے باقی رکھا ہے، اور اس میں وہ کوئی عار اور نقص و کمی محسوس نہیں کرتے، بلکہ فخر کے ساتھ اس کو زیب تن کرتے ہیں، اس قوم کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ لوگ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے، کاسہ گدائی اس قوم کی فطرت اور طبیعت کے خلاف ہے، یہ محنت کی کمائی کو اپنی زندگی کا راس المال سمجھتے ہیں، یہ سب چیزیں اس مذہب کے بانیوں نے اسلام سے مستعار لی ہیں، اور خود مسلمان اپنی مذہبی تعلیمات، ملی شعار و وضع قطع اور اصول و ضوابط میں اپنے مذہب سے کوسوں دور ہوگئے ہیں۔۔۔ سکھ مذہب کے لوگ سکھ اور آرام میں اس لیے ہیں کہ ان میں آپس میں اتحاد اور یونیٹی ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے ہیں، اپنی قوم کے کمزور اور دبے کچلے لوگوں کو اوپر اٹھانے کے لیے اور ان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ہر طرح کی مالی، جسمانی قربانی دیتے ہیں، اگر کسی ایک سکھ پر ظلم ہو تو سارے سکھ آپس میں متحد ہوجاتے ہیں اور اس کو حق دلا کر ہی رہتے ہیں، آج کسان بل کے خلاف پنجاب اور ہریانہ کے سکھ جس طرح متحد ہوکر مظاہرہ اور دھرنا دے رہے ہیں، اپنے اور کسان کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں اور جس ہمت، بہادری اور دریا دلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس میں ہم سب کے لیےعبرت، سبق ، نصیحت اور پیغام ہے۔۔۔
مسعود جاوید صاحب نے
#سکھ_سے_سیکھ کے عنوان سے بہت اچھا لکھا ہے آپ بھی ملاحظہ کریں اور ہوش کے ناخن لیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری (سکھ کی)
یہ منظر کسان مخالف قانون کے خلاف احتجاج کرنے والی سکھ خواتین کا ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر ترقی یافتہ ممالک میں تجارت و ملازمت کی غرض سے کمند ڈالنے والی اور تقریباً ہر گھر سے دو ایک جوان فوج میں خدمات دینے والی سکھ قوم کا زمین اور زراعت سے جذباتی وابستگی ہے۔ پنجاب کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو، کھیتوں کی لہلہاتی ہریالی، اور دہقانی زندگی پر بے شمار قصے کہانیاں اور گیت لکھے گئے ہیں۔ وہاں کی زرخیز زمین وہاں کی محنت کش قوم اور ان کی زمین سے بے مثال لگاؤ کے مدنظر سب سے پہلے سبز انقلاب وہیں لایا گیا۔ قحط پر قابو پانے کے لیے اور گیہوں اور چاول میں خود کفیل بنانے کے لئے ساٹھ کی دہائی میں جب سبز انقلاب کا فیصلہ کیا گیا تو اس غرض کے لئے سب سے پہلے پنجاب کا انتخاب کیا گیا۔ ملک میں گیہوں کی کل پیداوار میں ٣٨ فیصد اور چاول کی کل پیداوار میں ٢٦ فیصد محصول پنجاب کا ہوتاہے۔ اسی لئے پنجاب کو #اناج #کوٹھی granary of India اور #اناج کا #کٹورا bread bowl of India کہا جاتا ہے۔
آج جب ان کی عزیز ترین زمین، اس کی زراعت اور محصول پر خطرہ منڈلا رہا ہے تو پنجاب کے کسان خواتین مرد اور بچوں کا سڑک پر اتر آنا اور تمام تر رکاوٹ کے باوجود جان ہتھیلی پر رکھ کر دہلی کی طرف کوچ کرنا فطری ہے۔ کیا ہم بھی کسی مسئلے پر بلا تفریق مسلک مشرب برادری اتحاد کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں ؟
اس قوم کے بارے میں بطور مزاح سہی کہا جاتا ہے کہ یہ موٹے دماغ کے ہوتے ہیں۔۔۔ ہاں یہ موٹے دماغ کے ہوتے ہیں اسی لئے
١- یہودیوں کی طرح یہ بھی بہترین تاجر ہوتے ہیں۔
١٩٨٤ سے قبل تک ایک اندازے کے مطابق دہلی میں ٦٠% تجارتی کاروبار سکھوں اور پنجابیوں کے ہاتھ میں تھا۔
٢- گداگری اس قوم میں ممنوع ہے۔ اسے روکنے کے لئے ان کے یہاں سکھ یکجہتی کے تحت باہمی تعاون کا نظام ہے۔ گداگری کی نوبت آنے سے پہلے وہ ایسے لوگوں کو ان کی صلاحیت کے مطابق سرمایہ دے کر تجارت کرا دیتے ہیں۔
گداگری تو اسلام میں بھی معیوب ہے لیکن ہمارے پاس اسے روکنے کے لئے ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔
٣- انسانی خدمت کو اس قوم نے اپنی پہچان بنا لی ہے۔ کسی ملک میں خانہ جنگی، کہیں نسلی بربریت، کہیں مذہبی فسادات یا آسمانی آفات ہو، سکھ لنگر لگا کر ان مظلوموں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ شاہین باغ میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرین کا دھرنا ہو، شام کی سرحدوں پر خانہ جنگی کے شکار بوڑھے بچے اور خواتین، یا میانمار سرحد پر روہنگیا کے مظلومین، ہر جگہ سکھ کمیونٹی کے افراد لنگر لگا کر مدد کرتے ہیں۔۔۔۔کیا ہماری بھی ایسی کوئی تنظیم ہے جو مصیبت کی گھڑی میں بلا تفریق مذہب، ملت، برادری، علاقہ اور سرحد ان پر خطر مقامات پر ریلیف کیمپ لگاتی ہے ؟
٤- فضول کی مذہبی بحث اور ٹی وی ڈیبیٹ میں حصہ نہیں لیتے۔ آج تک انہوں نے گرودوارہ کے اندر یا باہر یہ سوال نہیں کیا کہ سائلنسر والے پستول کے دور میں کرپان رکھنا کیوں ضروری ہے۔ ان کے یہاں کے لبرل، سیکولر اور دانشور طبقے نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کڑا، کیش، کچھہ اور کنگھا سے اپنی پہچان بنا کر رکھنا سیکولر ریاست میں ناپسند کیا جاتا ہے اس لئے یہ علامتی شعائر ختم کر دیا جائے۔ دنیا کے کسی حصے میں وہ جائیں مذہبی شعائر نہ صرف بلا چون وچرا اپناۓ رکھتے ہیں بلکہ اگر کسی ملک کے کسی اسکول کالج یا کسی اور محکمہ میں شعائر پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف متحد ہو کر قانونی لڑائی لڑ تے ہیں اور بحال کراتے ہیں۔ ہم ہوتے تو شاید متعدد علماء کرام اور مفتیان عظام کو سیکولرازم، مصلحت اور جدید دور کے تقاضوں کی دہائی دے کر مسئلوں پر نظر ثانی کرنے کو کہتے یا خود تاویل کر لیتے۔
(مسعود جاوید کے قلم سے ،شکریے کے ساتھ)

Comments are closed.