اجی! وہ تو اپنے آپ کو شاخِ زعفران سمجھتے ہیں”

 

تابش سحر

جب کوئی شخص اپنے کو آپ کو بڑی چیز خیال کرتا ہے تو اہلِ زبان کہتے ہیں، "اجی! وہ تو اپنے آپ کو شاخِ زعفران سمجھتے ہیں” اس محاورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زعفران بڑی قیمتی چیز ہے، اس کے قیمتی ہونے کا انداز اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کلو سے نہیں گرام سے فروخت ہوتا ہے، قدیم زمانے سے اس کا استعمال ہورہا ہے، لوگ اپنی حیثیت کے مطابق اسے خریدتے اور استعمال کرتے ہیں، انگریزی میں اسے safforn کہتے ہیں، اس لفظ کی اصل کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قدیم فرانسیسی زبان کے لفظ "Safran” سے بنا ہے جو یونانی زبان کے لفظ "Safranum” سے ماخوذ ہے اور یہی "Safranum” عربی زبان کے "زعفران” سے لیا گیا ہے، اسے ہندی میں "کیسر” کہتے ہیں، ہندؤوں کی پوجا ہو یا مسلمانوں کی بریانی’ زعفران دونوں ہی جگہ پایا جاتا ہے، عملیات کرنے والے بھی متاثرین سے زعفران منگواتے ہیں، حکماء بھی دوائی بناتے وقت زعفران کو نسخہ میں شامل رکھتے ہیں، یونانی’ اسے دوا کے ساتھ ساتھ خوشبو کے لیے بھی استعمال کرتے تھے، زعفران کا پودا پیاز کے پودے کی طرح ہوتا ہے جبکہ اس پودے پر کِھلنے والا پھول’ خوبصورت جاذب نظر اور دلکش ہوتا ہے یہی پھول زعفران کی جائے پیدائش ہے، ایک تازہ پھول سے ۳۰ ملّی گرام زعفران نکلتا ہے جو خشک ہونے کے بعد ۷ ملّی گرام رہ جاتا ہے۔ اگر ہم زعفران کو تاریخ کے قصّے کہانیوں میں تلاش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ مصر کے قدیم معبد زعفران کے پانی سے پاک کیے جاتے تھے، روم کے بادشاہ "نیرو” کے استقبال کے لیے روم کی شاہراہوں پر زعفران کے پھول بکھیردیے گئے تھے جس سے گلیاں معطر ہوگئی تھیں، ایک انگریز سیّاح مشرقِ وسطیٰ سے زعفران کے بیج چھپا کر انگلستان لے گیا اور والڈن نامی علاقہ میں اس کی کاشت کی اور جلد ہی اس کی قسمت کا آفتاب روشن ہوگیا، چودھویں صدی عیسوی میں اسپین زعفران کی کاشت کا اہم مرکز تھا مگر اب یہ "سرخ سونا” ایران کی شان میں اضافہ کررہا ہے، ہندوستان میں زعفران کے لیے جنّتِ ارضی کشمیر مشہور ہے، کہتے ہیں "کشمیر کے حکمراں یوسف شاہ چک نے زعفران کی کاشت شروع کروائی” تب سے آج تک وہاں پر زعفران کی کاشت ہوتی آ رہی ہے، اس سلسلے میں کشمیر کا پامپور نامی علاقہ قابلِ ذکر ہے جہاں سالانہ تقریباً ڈھائی ہزار کلو زعفران پیدا ہوتا ہے، شعبۂِ سیاحت کشمیر نے آٹھ روزہ جشنِ زعفران کی بنیاد رکھی جسے موسمِ بہار میں یہاں کے باشندے خوشیاں مناتے ہیں، محفلیں سجتی ہیں اور زعفران کی خوشبو دور دور سے سیّاحوں کو اپنی جانب کھینچ لاتی ہیں۔ ایک محاورہ ہے "گدھا کیا جانیں زعفران کی قدر” یعنی عقلمند انسان ہی قیمتی چیز کی اہمیت کو سمجھتا ہے، تاجر’ زعفران کی قدر سمجھتے ہیں اسی لیے اس میں خوب ملاوٹ کرتے ہیں تاکہ زیادہ منافع ہاتھ لگے، لالچ نے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑا، کسی بھی قیمتی شئے کا بازار میں خالص مل جانا اب تو محال نظر آتا ہے۔

وضاحت: – تاریخی روایات محترمہ سلمیٰ حسین کے "زعفران رنگ و نور کا جادو” نامی مضمون سے لی گئی ہے۔

 

 

Comments are closed.