Baseerat Online News Portal

امن کے ہاتھ کمزور ہیں !

 

 

عمر فراھی۔۔

 

آزربائیجان اور آرمینیا کی جنگ کے تعلق سے ایک ہندو دوست نے سوال کیا کہ بھائی یہ دونوں ممالک کا مسئلہ کیا ہے ۔میں نے کہا تقریباً کشمیر کی طرح کا مسئلہ ہے ۔اس نے کہا کہ کشمیر تو بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔میں نے کہا بھارت کی دوسری ریاست جیسے کہ اتر پردیش مدھیہ پردیش گجرات اور مہاراشٹر وغیرہ بھی تو بھارت کا اٹوٹ انگ ہیں پھر انہیں بھی اٹوٹ انگ کیوں نہیں کہا جاتا ؟۔اس نے کہا میں کشمیر کے بارے میں یہی سنتے آیا ہوں ۔میں نے کہا ہم اور بھی بہت کچھ سنتے ہیں لیکن اپنے مطلب کی بات سمجھ کرباقی سمجھنا بھی نہیں چاہتے ۔دراصل ہماری دنیا کا سارا مسئلہ طاقت اور مکاری کا ہے۔ باقی آزادی جمہوریت اور سیکولرزم اور سیکورٹی کونسل اور اقوام متحدہ وتحدہ اور قومی یک جہتی تو محض ایک دجل اور فریب ہے ۔دوسری عالمی جنگ کے بعد جو طاقت ور اور مکار تھے انہوں نے اپنی ریاست اور اقتدار کا فیصلہ کر لیا جو کمزور بھولے اور جمہوریت پر یقین کرنے والے اندھ بھگت تھے جمہوریت کے پنجرے میں مٹھو میاں کی طرح سیکولرزم اور آزادی کے گیت گا رہے ہیں اور انہیں اپنی غلامی کا احساس بھی نہیں ہے ۔اس نے کہا میں آپ کی یہ فلسفیانہ گفتگو سمجھ نہیں پایا ۔

میں نے کہا اگر حقیقت میں دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے اور یہاں جمہوریت کا بول بالا ہے تو عالمی ادارہ اقوام متحدہ کو سیکورٹی کونسل کے ذریعے نگورنو کارا باخ, کشمیر ,LAC اور فلسطین کا مسئلہ حل کرنا چاہئے تھا؟ مگر ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ماتحت صرف ایک ہی ادارہ ایک زمانے سے فعال ہے ۔اور وہ ہے WHO !

ہاں میں بھول گیا تھا یہ سرحدوں کے مسئلے حل ہو گئے تو ہتھیاروں کی تجارت کا کیا ہو گا ۔باقی WHO کے فعال ہونے سے فارماسیوٹیکل کارپوریٹ مافیاء جو تجارت کر رہے ہیں وہ ہم دیکھ ہی رہے ہیں ۔

خیر میں بات کر رہا تھا کشمیر کی آزادی سے پہلے کشمیر ایک آزاد ملک تھا ۔پاکستان نے طاقت کا مظاہرہ کر کے آدھے کشمیر کو لوٹ لیا ۔بچے ہوئے کشمیر کے لئے اس وقت کے کشمیری نواب نے کچھ شرائط کی بنیاد پر بھارت سے الحاق کر لیا ۔کچھ دنوں تک کشمیر کا اپنا وزیر اعظم اور پرچم الگ رہا بعد میں جو کچھ بھی ہوا وہ بھی سب کو پتہ ہے ۔اب آدھے کشمیر کو بھارت نے بھی لوٹ لیا ۔سپ طاقت کا کھیل ہے ۔ہمارے دوست کہنے لگےاگر بھارت کا بیس کروڑ مسلمان ہندوستان میں امن و چین سے رہ سکتا ہے تو کشمیریوں کو بھارت میں رہنے میں کیا پریشانی ہے ۔میں نے کہا بس اک سوچ کا فرق ہے ورنہ ہندوستانی مسلمان تو یہی چاہتے تھے کہ پاکستان بھی ہندوستان کا ہی حصہ رہے مگر ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔یہ سب طاقت اور قدرت کا کھیل ہے ورنہ نہ تو ظل الہی کو شوق تھا برما منتقل ہونے کا اور نہ ہی غالب نے چاہا تھا کہ مغل سلطنت کا خاتمہ ہو اور انہیں اپنے وظیفے کیلئے انگریزوں کے سامنے بے غیرتی کا مظاہرہ کرنا پڑے ۔عالم اسلام نے یہ بھی نہیں چاہا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو جائے مگر ایسا ہونا تھا اور عرب اس خلافت سے آزاد ہو کر دسیوں ریاستوں میں تقسیم ہو کر عیش کر رہے ہیں ۔قدرت کا بھی اپنا منصوبہ ہے ۔فرعون اور نمرود بھی کبھی بہت عیش سے تھے مگر جب کرہ ارض پر طاقت کا توازن بگڑتا ہے تو روم اور فارس جیسی عظیم سلطنتیں بھی پارہ پارہ ہو جاتی ہیں ۔چار سو سال پہلے امریکہ نام کی ریاست کہاں تھی مگر اب وہ سپر پاور ہے ۔1920 سے پہلے کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ فلسطین میں یہودی آباد ہو جائیں گے مگر عظیم ترکوں کی سلطنت کے بکھرتے ہی قدرت نے نہ صرف یہودیوں کیلئے یروشلم کا راستہ کھولا اسرائیل نام کی ایک طاقت ور ریاست بھی وجود میں آئی ۔1980 سے پہلے کون یہ گمان کر سکتا تھا کہ کمیونزم کا زوال ہوگا اور اسٹالن کا سویت روس ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔اب امریکی امپائر کے زوال کی کہانی سنائی جارہی ہے اور چین رفتہ رفتہ اپنے عروج کی دہلیز پر ہے ۔یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ ہند پاک کا بٹوارہ نہ ہوتا تو ہم طاقت ور ہوتے ۔ہم طاقتور ہو بھی جاتے تو بھی یونان فارس روم سویت روس اور امریکہ کبھی نہیں بن سکتے تھے کیوں کہ ہم برسہا برس سے ترکوں ایرانیوں افغانیوں اور انگریزوں کی غلامی میں حکومت بادشاہت سیاست اور عدل و انصاف کے سارے گر بھول چکے ہیں ۔ہم پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ وقتی طور پر متحد بھی رہ جاتے تو بھی یہ بات یقین سے کیسے کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح سویت روس بکھر گیا ہمارے سیاستداں بھی اپنی ریاستوں کے ساتھ انصاف نہ کرپاتے اور ۔۔۔۔ ۔ابھی یہ تاریخ کا خاتمہ نہیں ہے ۔جو کچھ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ہوا وہ تہذیبوں کے تصادم کی علامت ہے ۔آخر کیوں کاراباخ میں عیسائیوں کی چھوٹی سی اقلیت آزربائیجان کی حکومت کو دل سے تسلیم نہ کر سکی ۔آخر کیوں مسلم چچن ابھی بھی روس سے الگ ہونے کے فراق میں ہیں۔ریاستیں قومیت اور وطنیت کے جذباتی نعروں سے نہیں انصاف کے عمل سے متحد ہوتی ہیں۔جہاں انصاف ہوتا ہے وہاں امن اور سکون نظر بھی آتا ہے ۔ امن کے ہاتھ تو انیسویں صدی کے آغاز سے ہی کمزور ہو گئے۔ پہلی دوسری عالمی جنگ میں جمہوریت اور سیکولرزم کے نام پر سات کروڑ انسان قتل کر دئیے گئے اب تیسری عالمی جنگ کی تیاری ہے ۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس جنگ میں آدھی سے زیادہ آبادی خطرناک اسلحوں کا ایندھن بن جائے گی ۔

Comments are closed.