مولانا امین عثمانی مرحوم:آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی

مولاناآفتاب عالم ندوی، دھنباد (جھارکھنڈ)
رابطہ نمبر: 8002300339
امین عثمانی صاحب مرحوم نے محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کی تھی ،اساتذہ ا ور معاصرین کی گواھی ھیکہ زامانۂ طالبعلمی میں ممتاز طلبہ میں تھے ،ذھانت اور کسی مسئلہ میں بھت جلد تہ تک پہنچ جانے کی صفت تو ھر وہ آدمی چند منٹوں محسوس کرلیتا جو کسی موضوع پر ان سے تبادلۂ خیال کرتا کسی مشکل میں ان سے مدد کا طالب ھوتا ،ذھانت انکے خدوخال ا ور انکی آنکھوں کی چمک سے ظاھر ھوتی تھی ،بلا کےمردم شناس تھے ،ملت کے تمام قائدین اور تمام مکاتب فکر کے ذمہ داروں کا گھرائ سے مطالعہ کیا تھا ،ھر ایک کے سلسلہ میں انکی جچی تلی رائے تھی ،عالمی تنظیمات وتحریکا ت کی بابت انکی معلومات حیرت انگیز تھی ، ،،ان میں ایک نمایاں خوبی مروت وروادری بھی تھی ،جنکے فکر وعمل کے سخت مخالف ھوتے انکے ساتھ بھی انکا معاملہ شریفانہ اور ھمدردانہ رھتا ،ان کا تعلق بہانت بھانت کے لوگوں سے تھا ، ھر مکتبۂ فکر اور سماج کے ھر طبقہ کے لوگ انکے ملنے جلنے والوں میں تھے ،انکی محبوب شخصیتوں کو گمراہ سمجھنے والے لوگ بھی انکے دوستوں میں تھے اور وہ اس بات کو جانتے بھی تہے ،قدرت کی طرف سے انھیں وسیع ظرف عنایت ھواتھا، فقہ اکیڈمی کے تو وہ باقاعدہ ذمہ دار تھے ، سارے ا‌نتظامی امور کی انجام دھی ،سیمنار کا انعقاد کھاں ھو ، علماء اور مقالہ نگاروں سے مضمون لکھوانے سے لیکر سیمنار میں انکی شرکت کو یقینی بنانے اور انکے سفر وقیام تک کا نظم کروانے جیسے نازک کام اس اندا ز سے کرتے تھے کہ کسی کو بد نظمی کی مار نھیں جھیلنی پڑتی تھی اکیڈمی میں،وقتا فوقتاً ملک وبیرون ملک کے مہمانوں کی بھی آمدو رفت رھتی ھے ،کتابوں کی طباعت ، ترجمہ اور مقررہ عناوین پر اھل علم سے لکھوانے جیسا مشکل کام بھی انکے عزم وحوصلہ اورحسن تدبیر سے آسا ن ھوجاتا تھا ،انکا ذھن شروع سے تحریکی اور سماجی تھا ،اگرچہ لکھنے کی بھی صلاحیت ان میں تھی اور تعلیم وتدریس کا پیشہ بھی انکیلئے کوئ مشکل نہیں تھا لیکن اپنے تحریکی مزاج اور ملت کی خدمت کے جوش وجذبہ کی وجہ سے تصنیف وتالیف اور تعلیم وتدریس کو کبھی انھوں نے اھمیت نھیں دی ،ابھی کسی نے لکھا اور میں اس سے پھلے سن بھی چکاھوں کہ پنجاب یونیورسٹی میں تقرری ھوگئ تھی یا ھورھی تھی لیکن انھوں نے اسے نامنظور کر دیا ،جیسا کہ ڈاکٹر رضی الاسلام صاحب نے لکھا ھیکہ جب ندوہ میں میرا داخلہ ھوا عثمانی صاحب اوپر درجہ میں تھے ،انھوں مجھے آگے بڑھانے اور بنانے وسنوارنے پر بھر پور توجہ دی ، اس سے دو باتیں واضح ھوتی ھیں ایک تو یہ کہ عثمانی صاحب شروع ھی سے جوہر شناس تھے ،دوسری چیز یہ کہ مردم سازی جیسے مشکل کام سے بھی زمانۂ طالبعلمی ہی سے انھیں دلچسپی تھی ، بھت سارے لوگوں کے مضامین انکے اوصاف وکمالات پر آچکے ھیں ،یہ مضامین انکی زندگی کے بھت سے گوشوں کو روشن کرتے ہیں ،جب بھی ملاقات ھوتی دوسرے موضوعات کے ساتھ ندوہ کے کوائف واحوال ضرور زیر بحث آتے ،شوری کے ارکان کا بہی ذکر ھوتا ،ملی کونسل ،پرسنل لا بورڈ ،جماعت اسلامی اور نوجوانوں کی تنظیموں کے عہدیداران ان سے مشورے طلب کرتے اور انکے مشوروں کو اھمیت دیتے تھے ،حماسہ کا یہ شعر ان پر صادق آتا ھے ،،وفتیان صدق لست مطلع بعضھم علی سر بعض غیر انی جماعھا ،، انکا تعلق خانقاھی خاندان سے تھا ،خا‌نقاھوں کی ایک بڑی خصوصیت توسع و رواداری ھے ،اس خصوصیت کے وہ واقعتا ،،امین ،،تھے ،انکے خاندان کا تعلق ندوہ سے بھت قدیم ھے طیب عثمانی صاحب مرحوم مولانا رابع صاحب دامت برکاتھم اور مولانا واضح رشید صاحب ‌ندوی مرحوم کے معاصر تھے اور بھت ممتاز تھے ،مولانا طیب مرحوم جب بقید حیات تھے برادران صدق وصفا مولانا رابع صاحب مدظلہ العالی اور مولانا واضح رشید صاحب رح مولانا نظام الدین صاحب رح سابق امیر امارت شرعیہ کی دعوت پر گیا تشریف لائے تھے تو دونوں حضرات طیب عثمانی رح سے ملنے کیلئے نیو کریم گنج میں واقع انکے گھر تشریف لیگئے تھے ،راقم بھی ساتھ میں تھا ، انکے خاندان کے متعدد لوگوں نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے قابل قدر خدمات انجام دی ھیں تو کچھ لوگ آج بھی قدیم خانقاہی رنگ میں ھیں ،امارت شرعیہ کی تاسیس واستحکام میں بھی اس خاندان کا بڑا رول ھے ، ندوہ سے تعلق کے بارے میں کھا جاسکتا ھے ،،پانچویں پشت ھے شبیر کی ۔مداحی میں ، ان گونا گوں خوبیوں کے لوگ کھاں ملتے ھیں ،ایسے لوگ نایاب نھیں تو کمیاب ضرور ھیں ،بقول شاد عظیم آبادی ملکوں ملکوں ڈھونڈوگے پر ایسے لوگ نھیں ملینگے ،اللہ انھیں غریق رحمت کرے ،کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے ۔

 

Comments are closed.