اختر الایمان صاحب توجہ دیں

تحریر :مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی مظفر پوری
( نواسہ مجاہد آزادی ڈاکٹر حبیب الرحمن مرحوم اول ممبر اسمبلی پوپری ، سیتامڑھی بہار )
اگر وہ غدا ہیں تو آپ بھی غدار ہیں
آپ کا ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں آپ غداروں اور دھوکہ بازوں سے بدلہ لینے کی بات کر رہے ہیں ، آپ کا اشارہ شاید اپنے چار ساتھی ممبران اسمبلی کی طرف ہے جو دو ہزار بیس میں مجلس اتحاد المسلمین کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے ، مگر ڈیڑھ سال کے اندر آپ کی قیادت سے اوب گئے ، اور آپ کی مادر سیاست پارٹی راشٹریہ جنتا دل میں چلے گئے ، ایسی باتیں کہتے وقت اپنا ماضی بھی یاد کرلیا کریں ۔
جس پارٹی راشٹریہ جنتادل نے آپ کو فروری دو ہزار پانچ ، اکتوبر دو ہزار پانچ اور دو ہزار دس میں تین تین بار ٹکٹ دیا ہے اور آپ کو ممبر اسمبلی بنوایا ہے ، آپ نے اس کے ساتھ دو ہزار تیرہ میں غداری کی ،
آپ نے کشن گنج سے ممبر لوک سبھا منتخب ہونے کے لالچ میں راشٹریہ جنتا دل کو دھوکہ دیا ، اور پھر بلا سوچے سمجھے اس پارٹی جنتادل متحدہ میں چلے گئے جس نے انیس سو چھیانوے تا دو ہزار تیرہ سترہ سالوں تک بی جے پی کا ساتھ دے کر بہار میں آر ایس ایس کو مضبوط کیا تھا ، اس وقت آپ کی بصیرت کہاں سورہی تھی ۔؟؟
دو ہزار چودہ کے الیکشن میں آپ کو نتیش کمار نے اپنے پرانے لیڈر سید محمود اشرف مرحوم کو نظر انداز کرکے کشن گنج سے لوک سبھا کا ٹکٹ دیا ، آپ نے پرچہ نامزدگی بھرا ، اور نام واپس لینے کی آخری تاریخ تک آپ نے نام واپس نہیں لیا اور آپ نے اپنے علاقے اور اپنی برادری کے ایک بزرگ ربانی عالم دین اور سیٹینگ ممبر لوک سبھا حضرت مولانا محمد اسرار الحق قاسمی رح کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ، آپ کو اس وقت نہ یہ احساس ہوا کہ یہ ہماری برادری کے ہیں ، اور نہ یہ احساس ہوا کہ ہمارے ضلع کے اتنے بڑے عالم دین ہیں جو جمعیت علماء جیسی بڑی تنظیم کے مرکزی قائد رہ چکے ہیں ، اس وقت نہ آپ کی قومی غیرت جاگی اور نہ ایمانی غیرت ،
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو علماء کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ، علماء کی عزت صرف یہ نہیں ہے کہ ان کی تعریف میں چند جملے کہ دیے جائیں اور ان کو ہدیہ دے دیا جائے ، بلکہ علماء کی اصل عزت یہ ہے کہ ان کو مناسب مناصب اور عہدے دیے جائیں ۔ اور ان کی قیادت میں کام کیا جائے ،
مگر جب آپ پرچار کے لیے نکلے اور ہر جگہ سے آپ کی تھوتھو ہوئی تب بدرجہ مجبوری آپ کی ایمانی غیرت جاگی ، اور آپ نے مولانا اسرار الحق قاسمی رح کی حمایت کا اعلان کردیا ،اپ یہ اعلان نہ بھی کرتے تو بھی مولانا کی جیت یقینی تھی ، پھر بھی آپ کے نام پر پچپن ہزار آٹھ سو بائیس ( 3.38 فیصد ) ووٹ آئے تھے ، جب کہ مولانا کو چار لاکھ ترانوے ہزار چار سو اکسٹھ ( 34.29 فیصد) ووٹ حاصل ہوئے تھے اور وہ ایک لاکھ چورانوے ہزار چھ سو بارہ سے ووٹوں سے کامیاب تھے ،
آپ کی اس دوسری غداری نے آپ کو حیدرآباد جانے پر مجبور کردیا ، اس لیے کہ آپ کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا ، کانگریس میں آپ کے لیے جگہ نہیں تھی ، اور راشٹریہ جنتادل اور جنتا دل متحدہ کو آپ نے دھوکہ دیا تھا ،
آپ اپنی ذاتی قابلیت کی بنیاد پر کوچا دھامن کا نہ دو ہزار چودہ کا ضمنی الیکشن جیت پائے اور نہ مجلس اتحاد المسلمین کے ٹکٹ پر دو ہزار پندرہ کا عام الیکشن ،
بہر حال آپ نے محنت جاری رکھی ، اور سیمانچل کے انقلاب پسند نوجوانوں نے مولانا اسرار الحق قاسمی رح اور تسلیم الدین صاحب مرحوم کی وفات کے بعد آپ کو ایک بہتر لیڈر سمجھا اور وہ آپ پر بھروسہ کرکے مجلس اتحاد المسلمین میں دیوانہ وار شامل ہوگئے ، انہوں نے آپ کے ساتھ مل کر چھ سال خوب محنت کی ، ان میں عبد اللہ سالم چترویدی جیسے کئی بڑے مؤثر علماء تھے اور کئی انگریزی تعلیم یافتہ معصوم رضا جیسے متوسط مالدار تھے ،
مگر آپ نے ٹکٹ ان دھناسیٹھوں اور دبنگوں کو دیا جن کا پرانا سیاسی بیک گراؤنڈ تھا ، آپ نے رکن الدین صاحب اور شہنواز عالم جیسے سابق ممبران اسمبلی کو ٹکٹ دیا ، اور معصوم رضا اور مولانا عبد اللہ سالم چترویدی جیسے مخلص کارکنان کو نظر انداز کیا ، یہ آپ کی تیسری غداری تھی ،
رکن الدین صاحب اور شہنواز عالم صاحب کی کامیابی میں مجلس کا رول بہت کم ہے ، ان دونوں کے والد بھی انیس سو انہتر سے انتخابی سیاست میں تھے ، شہنواز عالم کے والد تسلیم الدین مرحوم پارٹی بدل بدل کر جوکی ہاٹ اور ارریہ اسمبلی حلقوں سے کامیاب ہوتے رہے ، سید رکن الدین کے والد سید معین الدین مرحوم بھی دوبار بائسی سے کامیاب ہوئے ہیں ، اگر دو ہزار پچیس میں بھی سید رکن الدین اور شہنواز عالم اپنے اپنے حلقے سے کھڑے ہوگئے اور مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار بھی ان دونوں حلقے سے کھڑے ہوگئے تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہ وہ جیتیں اور نہ مجلس کے امیدوار جیتیں ، اور بی جے پی بازی مار لے ،
آپ کو صرف اردو بولنے آتی ہے ، سیاست کرنے نہیں آتی ہے
آپ کی بیس سالہ سیاست کو دیکھ کر اندازہ یہی ہوتا ہے کہ آپ کو صرف اردو بولنے آتی ہے ، سیاست کرنے نہیں آتی ہے ،
سب سے بڑی غلطی آپ نے مجلس کو بہار میں لاکر کی ہے ، سیمانچل کے پڑوس میں آسام ہے ، وہاں کی تہذیب و ثقافت اور آپ کے علاقے سیمانچل کی تہذیب و ثقافت تقریبا ایک جیسی ہے ، آسام کے مسلمان بھی بنگلہ بولتے ہیں اور سیمانچل کے لوگ بھی بنگلہ یا بنگلہ مکس مقامی زبانیں بولتے ہیں ، آپ نے آسام کے ایک بڑے عالم اور دار العلوم دیوبند کے رکن شوری مولانا بدر الدین اجمل قاسمی صاحب کی پارٹی کو پروموٹ کیوں نہیں کیا ، آپ اس میں کیوں شامل نہیں ہوئے ، ؟؟ آپ کہتے ہیں میں عالم کا بیٹا ہوں ، ایک عالم کی پارٹی آپ کو کیوں اچھی نہیں لگی ، ؟؟
مجلس کی تاریخ پاکستان نوازی کی ہے
آپ مجلس کی تاریخ پڑھیے ، مجلس کے بانیان پاکستان کے حامی تھے ، کیا ایک پاکستان نواز پارٹی ہندوستان میں چل سکتی ہے ، ؟؟ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر قاسم رضوی نے اپنے دولاکھ سے زیادہ رضا کاروں کے ساتھ ہندوستان کے ساتھ جنگ کی تھی ، اور سقوط حیدرآباد کے بعد کئی سالوں تک قاسم رضوی ہندوستانی جیل میں تھے ، اور انہیں اس شرط پر رہا کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان چلے جائیں گے ، اور انہوں نے پاکستان جاتے وقت اسد الدین اویسی صاحب کے دادا عبد الوحید اویسی کو مجلس کی ذمے داری سونپ دی تھی ،
امان اللہ خان کے ساتھ غداری
انیس سو چھبیس میں قائم ہونے والی مجلس اتحاد المسلمین انیس سو ساٹھ تک صرف ایک رفاہی جماعت رہی ، اس کے بعد اس وقت کے مجلس کے دو نوجوان صلاح الدین اویسی مرحوم اور امان اللہ خاں مرحوم نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ، وہ دونوں حیدرآباد شہر کے حلقوں سے ممبر اسمبلی بنے ،
انیس سو ستہتر میں پہلی بار صلاح الدین اویسی نے حیدرآباد لوک سبھا سے الیکشن لڑا ، مگر وہ ناکام ہوگئے ، پھر انیس سو اسی میں امان اللہ خان نے حیدرآباد لوک سبھا سے الیکشن لڑا، مگر وہ بھی ناکام ہوگئے ، اس کے بعد انہوں نے پانچ سال خوب کام کیا ، کئی بستیاں بسائیں ، انہیں امید تھی کہ انیس سو چوراسی میں انہیں ہی ٹکٹ ملے گا ، مگر پھر صلاح الدین اویسی نے خود کو امیدوار بنالیا اور انیس سو چوراسی سے دو ہزار چار تک حیدرآباد کے ممبر لوک سبھا رہے ، امان اللہ خاں نے صبر کیا ، مگر چھ دسمبر انیس سو بانوےکو بابری مسجد کی شہادت کے قضیے پر صلاح الدین اویسی صاحب مرحوم سے امان اللہ خان مرحوم کے اختلافات ہوئے ،
امان اللہ خان کا الزام تھا کہ صلاح الدین اویسی نے وزیر اعظم نرسمہا راؤ سے سودا کیا ہے ، اور انہوں نے مجلس بچاؤ تحریک قائم کی ، اویسی خاندان نے امان اللہ خاندان کو دھوکہ دیا ، جب آپ حیدرآباد جائیں تو امان اللہ خان مرحوم کے بیٹے مجید اللہ خاں فرحت سے ملاقات کریں ، اور اویسی خاندان کی غداری کا قصہ سنیں ، مجلس کی سیاسی ترقی میں جتنا رول صلاح الدین اویسی کا ہے تقریبا اتنا ہی رول امان اللہ خان کا بھی ہے ، پھر تیس سالوں سے صلاح الدین اویسی کے بیٹے ہی کیوں ایم ایل اے اور ایم پی بنتے ہیں ،؟ کیا یہ غداری نہیں ہے ؟؟ ۔
دو ہزار پچیس میں بھی مجلس نے مسلم قوم اور اپنے کارکنان سے غداری کی
آپ لوگوں نے بہادر گنج سے توصیف عالم جیسے نا اہل اور کم علم پرانے کانگریسی کو اور راشٹریہ جنتادل کے سابق ایم ایل اے اور سابق ممبر لوک سبھا سیتا رام سنگھ راجپوت کے بیٹے رنجیت رانا کو ڈھاکہ جیسی ایسی سیٹ سے ٹکٹ دیا ہے ، جہاں سے مسلم امیدوار کئی بار کامیاب ہوئے اور وہاں کے سابق ایم ایل اے اور سابق ممبر راجیہ سبھا مطیع الرحمان صاحب مرحوم کے بیٹے فیصل رحمان راشٹریہ جنتادل کے مضبوط امیدوار ہیں ، وہ دو ہزار پندرہ میں کامیاب ہوئے تھے اور دو ہزار دس اور بیس میں دوسرے نمبر پر تھے ،
آپ نے اور آپ کے لیڈر اسد الدین اویسی صاحب نے توصیف عالم اور رنجیت رانا کو ٹکٹ دے کر پھر اپنی بے بصیرتی کا ثبوت پیش کیا ،
آپ مجلس کو بہار میں کیوں لائے ؟؟
آپ بہار میں مجلس اتحاد المسلمین کو مسلم صالح قیادت پیدا کرنے کے لیے لائے ہیں ، یا کانگریس اور راشٹریہ جنتادل وغیرہ کے بے قیمت لیڈران کو شوبوائے کے طور پر دکھانے کے لیے لائے ہیں ؟؟ ۔
اس بار آپ کوچا دھامن یا امور سے جیت جائیں وہی غنیمت ہے ۔ آپ کے امیدوار جیتیں گے نہیں البتہ کچھ جگہوں پر مہاگٹھ بندھن کا ووٹ کاٹ کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو جتائیں گے۔
Comments are closed.