دینی مدارس کے فضلاء کے روزگار کا مسئلہ

 

مولانا محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725

 

عید الفطر کی تعطیلات ختم ہوتے ہی دینی مدارس میں تعلیمی سرگرمیوں کی تیاریاں شروع جاتی ہیں۔ چند روز تک داخلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ہزاروں مدارس و جامعات( مدرسة البنات) میں لاکھوں طلبہ و طالبات نئے سال کی تعلیمی ترجیحات طے کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں، جبکہ گزشتہ سال فارغ ہونے والے ہزاروں طلبہ و فارغین مدارس اپنے لیے راہ عمل اور نئی سرگرمیوں اور روزگار کے مواقع کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔

دینی مدارس کے فضلاء کے لیے روزگار اور مختلف دینی علمی و سماجی شعبوں میں دینی خدمات کے حوالہ سے ذہن سازی اور منصوبہ بندی ہماری ترجیحات میں عمومی طور پر شامل نہیں ہوتی،اور نہ اس کو اہمیت دی جاتی ہے اور نہ اس کے لیے کوئی منصوبہ بنایا جاتا ہے، بلکہ اسے دینی دائرے سے انحراف کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ مگر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے 1937ء کے دوران علی گڑھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی پچاس سالہ تقریب میں صدارتی خطبہ کے دوران اس مسئلہ کو دینی اداروں کے لیے انتہائی اہم قرار دیا تھا۔ حضرت مدنیؒ کے خطبۂ صدارت کا اس عنوان سے متعلقہ حصہ قارئین کی خدمت میں آگے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس پہلو پر سنجیدہ غور و خوض کی درخواست کے ساتھ کہ دینی مدارس کے فضلاء کے بارے میں جن تجاویز پر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے برطانوی حکومت سے معاملات طے کرنے کی بات فرمائی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کے آزادی سے پہلے بھی علماء اور مشائخ امت فارغین مدارس کے روز گار لیے اور ان کے فکر معاش کے لئے متفکر رہا کرتے تھے ، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ صرف تیس سے چالیس فیصد طلبہ ہی وہ بھی عموما غریب گھرانے اور فیملی کے بچے فراغت کے بعد دینی کاموں مثلا مدارس و مکاتب میں تدریس ، امامت و خطابت اور دعوت و تبلیغ کے کاموں سے جڑیں گے الا ماشاء اللہ کچھ اصحاب ثروت گھرانے کے بچے بھی اس میدان میں لگتے ہیں، بیس فیصد طلبہ جو خوش حال گھرانے کے ہوں گے، وہ فراغت کے بعد کالج اور یونیورسٹی کا رخ کریں گے یا اپنے خاندانی تجارت اور کاروبار میں یا زمین دار لوگوں کے بچے کاشت کی دیکھ ریکھ میں لگ جائیں گے ،

اب بچ جاتے ہیں تیس سے چالیس فیصد فارغین جن کے گھریلو حالات بہت اچھے نہیں ہیں، یا وہ متوسط یا اس سے نیچے کی حیثیت کے ہیں، لیکن وہ مدارس اسلامیہ میں اپنی خدمت پیش کرنا نہیں چاہتے یا اب وہاں گنجائش بھی نہیں ہے ، یہ چالیس فیصد طلبہ وہ ہیں جنہوں نے والدین کی خواہش پر یا اپنی خواہش دینی تعلیم حاصل کیا ، اب وہ عملی میدان میں قدم رکھنا چاہتے ہیں اور فکر معاش کے لئے وہ جگہ تلاش کرتے ہیں تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی الگ سے ڈگری ،ڈپلوما کورس نہیں ہے کہ حکومت کے کسی شعبہ میں لگ جائیں اور نہ ہی کوئی ہنر ہے کہ وہ صنعت و حرفت میں لگ جائیں یا کسی سرکاری شعبہ میں ملازمت حاصل کرلیں ، فارغین کی یہ تعداد اور طبقہ سب سے زیادہ پریشان اور بے چین نظر آتا ہے ، اس طبقہ کے روز گار اور فکر معاش کے لئے یقینا ارباب مدارس کو سوچنا چاہیے اور دوران تعلیم ان کو کوئی صنعت و حرفت یا ٹیکنل علوم بھی سکھانا چاہیے تاکہ وہ مدارس سے دینی تعلیم اور دینی شعور اور فہم و فراست حاصل کرنے کے بعد کسی بھی شعبہ میں قسمت آزمائی کرسکیں اور اپنے لیے راہ تلاش کرسکیں اور وہاں وہ اپنے دینی تشخص کے ساتھ کام کریں۔ پہلے بھی مدارس میں خطاطی اور بعض دیگر پیشہ ورانہ تعلیم دی جاتی تھی ، آج خطاطی کی جگہ کمپیوٹر کتابت نے لے لی ہے ،اس کے بدلے میں کمپیوٹر کورس رکھا جاسکتا ہے ، بجلی اور ولڈنگ کے کام کو بھی سکھایا جاسکتا ہے ، انہیں حساب اور طب و حکمت کا ماہر بھی بنایا جاسکتا ہے اور علیحدہ سے انہیں ڈگری دلائی جاسکتی ہے ۔ اور بھی بہت سے شعبوں میں خدمت کے لائق انہیں بنایا جاسکتا ہے، بلکہ اگر کوشش ہو تو انہیں دفاع اور قومی خدمت کے کسی شعبہ کے لائق بھی بنایا جاسکتا ہے۔

مدراس میں پڑھنے والے تمام طلبہ کے لئے مفتی عالم اور فاضل بننا شرط نہیں ہے ، بلکہ استعداد اور اہلیت کے اعتبار سے ان کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے بلکہ میری رائے میں بہت پہلے کر دیا جانا تھا۔

مولوی کی ڈگری یہ ڈگری ان طلبہ کے لئے ہونی چاہیے، جو کمزور یا متوسط ذہن کے ہیں، یا اپنے والدین کی خواہش اور چاہت میں مدرسہ میں دین و شریعت پڑھنے آئے ہیں ، لیکن ان کے اندر ذہانت اور فطانت کم درجے کی ہے ، ان کو مولوی کی ڈگری اور سند دے کر مدرسہ سے فارغ کردینا چاہیے اور مولوی کا نصاب ایسا بنانا چاہیے ، جس میں غیر حافظ طلبہ کو کم سے کم دو تین پارے وہ بھی اخیر کے ضرور یاد کرائے جائیں، بعض اور مخصوص سورتیں بھی، ا انہیں اتنی استعداد دے دی جائے کہ وہ مکتب ثانویہ تک پڑھانا چاہیں اور امامت و خطابت سے جڑنا چاہیں تو انہیں کوئی دقت نہ ہو یا وہ تجارت کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم بھی یہ دینی خدمت انجام دے سکیں اور عام امت کو موٹے موٹے مسائل بتا سکیں ،ان کی دینی رہنمائی آسانی سے کرسکیں نیز اہم مسائل میں وہ لوگ مفتی حضرات اور اہل علم و فضل سے رجوع کرکے امت کو مسائل بتائیں۔ پوری محنت سے اس کا نصاب تیار ہو ،جو ہائی اسکول یا انٹر کے مساوی ہو اور حکومت سے اس کو منظور بھی کرایا جائے۔

دوسرا درجہ اور گریڈ عالم و فاضل کا ہو، جو طلبہ واقعتا ذہین ہیں ان کے اندر اہلیت و استعداد ہے ، ٹھوس صلاحیت ہے،اور وہ شوق و رغبت سے مزید دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے عالمیت یا فضیلت کا کورس ہو جو بی اے اور ایم اے کے مساوی ہو اور اس شعبہ سے فارغ کو عالم یا فاضل کی ڈگری دی جائے ، اس شعبہ سے فارغ طلبہ عالیہ درجات کے مدارس میں پڑھانے کے لائق ہوں گے یہ وہاں خدمت انجام دیں گے اور ملت کے دیگر شعبوں میں بھی یہ خدمت انجام دیں گے ۔

تیسرا درجہ علوم و فنون میں تخصص کا ہونا چاہیے ، اب جو طلبہ بہت ہی ذہین و فطین ہیں اور ان کے اندر بھر پور صلاحیت و استعداد ہے ،تو ان کو تخصص کے شعبہ کے لیے منتخب کیا جانا چاہیے ، اور ان کے ذوق اور پسند کے مطابق انہیں تفسیر حدیث فقہ عقائد ادب دعوت و تبلیغ اور تحقیق و تالیف کے شعبوں کے لئے منتخب کرنا چاہیے تاکہ یہ متخصصین ان علوم میں مہارت پیدا کرکے علمی شعبوں میں کام کریں، تصنیف و تالیف سے جڑیں، اکیڈمک کام کریں ،افتا و قضا کے متخصص اس شعبے میں کام کریں، تحریکوں اور تنظیموں میں بھی یہ افراد عہدے سنبھالیں اور ملی قیادت کریں ۔

یقینا یہ منتخب اور مختصر تعداد ہوگی اور یہ طبقہ اپنے علم و فضل سے امت کی صرف علمی فکری اور دینی رہنمائی ہی نہیں کرے گا ،بلکہ اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو مسکت بلکہ دنداں شکن جواب بھی دے گا ۔

میری نظر میں یہ تقسیم بہت پہلے ہونی چاہیے تھی اور اس پر عمل بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا ، لیکن ایسا نہیں ہوسکا ، لیکن اب بھی سویرا ہے ،صبح کا بھولا شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے ، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب رح اور بعض دیگر اہل علم کی بھی رائے یہی تھی ۔

بہر حال گفتگو طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے ، ہمارے قارئین اس طوالت سے اکتا جائیں گے اس لئے باقی باتیں کسی اور مجلس کے لیے چھوڑ رہا ہوں ،اب صرف حضرت مدنی رح کے خطبئہ استقبالیہ کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

اس خطبہ صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کا ارشاد گرامی یہ تھا کہ:

’’چونکہ اسلامی تعلیمات، اسلامی تواریخ، اسلامی معاشرت، اسلامی تمدن، اسلامی علوم و فنون یہ سب عربی زبان میں ہیں، اس ساڑھے تیرہ سو برس میں مسلمانوں نے بڑے بڑے مذہبی اور تمدنی انقلابات برپا کیے ہیں اور علوم و فنون کے بہت سے شعبوں میں مسلمانوں کا مستقل اور پائیدار اثر قائم ہوا ہے، اور یہ سب کچھ عربی زبان میں ہے۔ مسلمانوں کے خاص خاص علوم ہیں جو اور کسی زبان میں پوری طرح نہ مکمل ہو سکتے ہیں نہ ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے حدیث، تفسیر، اصول، اسماء الرجال وغیرہ۔ الفرض مسلمانوں کا سارا علمی سرمایہ عربی زبان میں ہے، اس لیے من حیث القوم مسلمان عربی تعلیم کے لیے مجبور ہیں۔ نہ اس کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ان کو چھوڑنا چاہیے۔

غور طلب یہ امر ہے کہ صرف ہندوستان میں شاید کئی لاکھ مسلمان ہر سال عربی تعلیم میں مشغول رہتے ہیں اور ہر سال ہزاروں طالب علم آٹھ دس برس کی محنت شاقہ کے بعد سند فراغ حاصل کرتے ہیں۔ ان لیے بظاہر معاش کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہی لوگ قومی اور مذہبی رہنما اور قومی رہبر ہوتے ہیں، مگر معمولی بسر اوقات اور اپنی قوت سے قدر کفاف حاصل کرنے کا موقع بھی ان کو حاصل نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رہنما ہوتے ہیں مگر محتاج، رہبر بنتے ہیں مگر مفلس۔ اور احتیاج کی وجہ سے جو جو خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں وہ ہوتی رہتی ہیں۔

یہ چیز ناممکن ہے کہ مسلمانوں کو عربی تعلیم سے روک دیا جائے، اور روکنا مناسب اور جائز بھی نہیں۔ ورنہ یہ مسلمانوں کی مذہبی اور ملی تباہی کا باعث ہو جائے گا۔ لہٰذا کیا مسلمانوں کی اس تعلیمی کانفرنس کے لیے یہ امر غور طلب نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی عربی تعلیم کے مسئلہ کی طرف اپنی مکمل توجہ منعطف کرتی ہوئی عربی تعلیم یافتہ اشخاص کے ذرائع معاش کے مسئلہ کو حل کرے۔

یقیناًمسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے اس مسئلہ سے اب تک بہت بڑی غفلت برتی ہے۔ شکایت کی جاتی ہے کہ اچھے علماء پیدا نہیں ہوتے، مگر اچھے علماء پیدا ہونے کے اسباب و ذرائع کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مقولہ ہے لو کلفت بصلۃ ما عرفت مسئلۃ (اگر مجھ کو پیاز کی تکلیف دی جاتی تو ایک مسئلہ کو بھی نہ پہچانتا)۔ ضروری ہے کہ علماء کو احتیاج اور افلاس سے نکالا جائے۔ ان کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ اپنی روزی اپنے قوت بازو سے حاصل کر سکیں تاکہ ان میں فارغ البالی، خود داری، آزادی رائے پیدا ہو سکے اور ’’چہ خورد بامداد فرزندم‘‘ سے فی الجملہ آزاد ہو جائیں۔ یہ امر مشکل نہیں ہے مگر اس کے لیے متفقہ قومی آواز کی ضرورت ہے۔ مسلم تعلیمی کانفرنس کا اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ اس مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں لے۔ مجھ کو قوی امید ہے کہ پوری مسلم قوم اس مسئلہ میں کانفرنس کا ساتھ دے گی۔۔۔۔۔۔۔۔

 

نوٹ/ اس مضمون پر اہل علم اپنا تبصرہ اور تجزیہ بھی پیش کریں ۔

Comments are closed.