عالمی یوم تارکین وطن اورکشمیری مہاجرین

عبدالرافع رسول
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 4 دسمبر 2000 میں اپنی قرارداد نمبر 55/93کے ذریعہ ہر سال دنیا بھر میں مختلف وجوہات کی بنا پر تارکین وطن بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہر سال 18 دسمبر کو عالمی سطح پر یوم مہاجرین کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا، تاکہ مہاجرین کے تحفظ، ان کی بنیادی ضرورتوں اور ان سے انسانی سلوک کے شعور کی اہمیت کو سمجھا جا سکے ۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تارکین وطن کے ذریعہ جاری جون 2020 کی رپورٹ کے بموجب دنیا کے مختلف ممالک میں اس وقت 8کروڑ سے زیادہ تارکین وطن کی تعداد ہے۔ صرف 2020میں تارکین وطن کی تعداد میں ایک کروڑ کا اضافہ درج کیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تارکین وطن کی بڑھتی تعداد اور ان کی بے بس زندگی سے متاثر ہوکر 1077 سے ہی فلپائن تارکین وطن اور دیگر ایشیائی تارکین وطن کی تنظیموں نے تارکین وطن کی زبوں حالی کے تدارک کی شروعات کر دی تھی اور اقوام متحدہ سے مسلسل عالمی سطح پر یوم تارکین وطن کے انعقاد کئے جانے کی گزارش کی جا رہی تھی تاکہ اس عالمی مسئلہ سے دنیا کی توجہ مبذول ہو اور وہ سب مل کر اس انسانی مسئلہ کے خاتمے کے لئے لائحہ عمل تیار کریں ۔ لیکن افسوس کہ اس اہم اور انسانیت سے جڑے مسئلہ پر اب تک بہت سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کیا جا رہا ہے ، بلکہ عالمی سطح پر یوم تارکین وطن کے موقع پر چند ممالک بس رسمی طورپرمناتے ہیںبلکہ اکثرممالک اسے مناتے بھی نہیں۔
تقسیم برصغیرکے وقت مسلمانان برصغیرکی بہت بڑے پیمانے پرہجرت کاواقعہ عمل میں میں آیا۔تاریخی اعتبارسے یہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت تھی جس میں کم از کم دس ملین افراد گھر سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے۔مسلمانان برصغیرکی ہجرت کایہ واقعہ 1947میں اس وقت وقوع پذیرہواکہ ہندوستان میں برطانیہ کے اقتدار کا سورج ہمیشہ کے لیے ڈوب گیااورہندوستان دو آزاد ریاستوںہندو اکثریتی انڈیا اور مسلم اکثریتی پاکستان میں تقسیم ہو گیا۔اس دوران ہندوستان سے لاکھوں مسلمان، پاکستان کے مغربی حصے پاکستان کے صوبہ پنجاب اور مشرقی حصے آج کے ’’بنگلہ دیش‘‘کی طرف مہاجرت اختیاکر گئے۔اس دوران مختلف اندازوں کے مطابق لاکھوں افراد کو موت نگل گئی۔لاکھوں خواتین کی عزتیں پامال ہوئیںاوراغواہو گئیں۔ اس خون آشام ہجرت کے دوران جوخوش نصیب مسلمان پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے وہ ہمیشہ کے لئے کامران ہوئے ،ان کی عزت وعصمت اورانکی جان ومال محفوظ ہوگئی۔یہ مہاجرین پاکستان کے اعلیٰ منصبوں پرفائز رہے اورانکی اولادیں آج مملکت خدادادپاکستان میں اعلیٰ ترین عہدوں پرفائز ہیں۔ہندوستان سے جومسلمان پاکستان کے صوبہ پنجاب کی طرف ہجرت کرکے آبسے توانہوں نے اپنے آپ تعارف کے ساتھ مہاجرین کالاحقہ موجود رکھناقطعی طورپرمناسب نہیں پاکستانی سمجھاکیوں انہوںنے اپنی مہاجرت سے ایسے پاکستان اورایک ایسی مسلمان نئی مملکت کووجود بخشا جس میں سب کے حقوق مساوی ہیں۔لیکن ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے ہوئے جومسلمان پاکستان کے صوبہ سندھ میں آبسے توانہوں نے اپنے ساتھ مہاجرین کالاحقہ موجود اورقائم رکھاگوکہ اگر چہ شرعی طورپر اس بات کی کوئی قباحت نہیں لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان مہاجرین نے اپنی حقیقی شناخت پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ بطورمہاجراپنی ایک تنظیم بناڈالی جومہاجرقومی موومنٹ کے نام سے متعارف ہوئی ۔اس تنظیم نے آگے بڑھ کرمسلح روپ دھارا،اورپھراس نے جوجرائم کئے وہ محتاج وضاحت نہیں کیونکہ اس کے کرتوت تاریخ کاباضابطہ طورپرحصہ بن گئے ہیں۔
پاکستان کی طرف دوسری بارہجرت کاجوواقعہ پیش آیاوہ اگرچہ محدودپیمانے پرتھالیکن مہاجرین بن کریہ لوگ مملکت خدادادپاکستان میں ضرورآبسے۔یہ 1990کاواقعہ ہے کہ جب بھارتی بربریت کے باعث کشمیری مسلمان آزادکشمیرپہنچے ۔ ہجرت کرنے والے ان کشمیری مسلمانوںنے بھی کشمیر میں بھارتی بربریت ،قتل و غارت گری دیکھی ، اپنی نظروں کے سامنے اپنے بچوں کو ذبح ہوتے دیکھا ، ایسے بدترین حالات میں ان کے سامنے ہجرت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔ لیکن ان کے لئے ہجرت کرنا کوئی آسان کام بھی نہیں تھاان کے سامنے جنگ بندی لائن موجودتھی جسے اسلامیان کشمیر’’خونی لکیر‘‘کہتے ہیں وہاں موت ان کی منتظررہتی ہے ۔اس لئے 1990میںصرف وہی لوگ آزادکشمیرکی طرف ہجرت کرنے میں کامیاب ہوئے جوبالکل جنگ بندی لائن کے نہایت قریب رہتے بستے تھے۔یہ لوگ گپ اندھیرشبوں کے دوران بڑی مشکلوں سے اپنی جان و مال اور عزت وآبرو بچا کر آزادکشمیرپہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔انکی مجموعی تعداد50ہزارسے زائد نہیں ۔ان ہجرت والوں میں سے ضلع کپوارہ کے کرناہ ،کیرن اورمژھل علاقوں ، ضلع بارہمولہ کے اوڑی کے بالائی علاقوں اورضلع پونچھ کے دیگوار،گھگڑیاںاورچنددیگربالائی علاقوں کے مکین شامل ہیں۔سب سے پہلے ان مہاجرین کی عزت وعصمت محفوظ ہوگئی اورآزادکشمیرپہنچ کران کے بچوںکوتعلیمی مواقع نصیب ہوئے،وہ جج بنے ،ڈاکٹرزاورانجینئرزبن گئے اوراب وہ آرام وسکون کی زندگی گذاررہے ہیں ۔البتہ یہ الگ بات ہے کہ کسی نے اپنے بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ نہیں کیاوہ تولازماََپریشان ہونگے اورکسمپرسی کی حالت میں زندگی گذارناان کامقدرٹھرجاتاہے ۔مہاجرین کشمیرمیں سی ایسے لوگ بھی موجودہیں لیکن اکثریت نے اپنے بچوں کواعلیٰ تعلیم دلوائی اوروہ آسودہ حال بن گئے ۔لیکن جیساکہ عرض کیاجاچکاہے کہ عام کشمیری مسلمان کے لئے آزادکشمیرکی طرف ہجرت کرنا مکمل طورپرناممکن تھی کیونکہ جنگ بندی لائن کی خونی لکیرعبورکرناان کے لئے ممکن ہی نہ تھا۔
مملکت پاکستان نے انہیں آزادکشمیرکی شہریت دی، انکی نسل جوان ہو گئی اوروہ بڑے ہو کراپنے بہتر مستقبل کے لئے کوشاں ہے تاکہ ان کی زندگی عیش و آرام سے گزر ے۔ لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ ارض کشمیرپربھارت کے جبری قبضے ،جارحانہ تسلط اور بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث وہ اپنے آبائی وطن کو دیکھنے ، اپنے رشتہ داروں سے ملنے اور اپنے آباو اجداد کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے کے ارمان دل میں لئے درد وکرب میں جی رہے ہیں ۔ ایسی بات کبھی نکلتی ہے تو آنسووں کے ساتھ یہ لوگ ہجرت در ہجرت کے کرب کو بیان کرتے ہیں،ان مہاجرین کومیں نے زار و قطار روتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہر شخص کوخواہ وہ کسی بھی ملک سے ہجرت کرکے دوسرے ملک میں آکراپناگھربسائے،لیکن اسے اپنے آبائی وطن اوراپنی جنم بھومی سے فطری طور پرمحبت ،وابستگی، والہانہ لگاو اور جذباتی رشتہ ہوتا ہے ۔آبائی وطن کی اہمیت اور اس سے انسیت کا اندازہ اپنے آبائی وطن سے بے وطن ہونے یا دور جانے جانے کے بعد ہوتا ہے ۔واضح رہے کہ اپنی خوشی سے کوئی بھی فرد اپنا وطن نہیں چھوڑتا ۔ کچھ تو مجبوریاں رہی ہونگی، یوں کوئی(اپنے وطن )سے بے وفا نہیں ہوتا۔ ایسے حالات بن جاتے ہیں کہ انسان وطن چھوڑنے اور ہجرت کرنے پرخود کو مجبور پاتا ہے ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ان کشمیریوں کودیکھاکہ جو1947،1971,1965میںپاکستان کی طرف ہجرت کرگئے اورانکی عمریں 80،75سال سے تجاوز کرچکی ہیں اوروہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں عالی شان گذاررہے ہیں،ان کے بال بچے ہیں ،انکے بڑے بڑے کاروبار ہیںلیکن کشمیر کی یاد میں روتے ، بلکتے ہیں ۔وہ اپنے آبائی وطن کی مٹی کو آنکھوں سے لگانا چاہتے ہیں ، جہاں ان کا بچپن گزرا ، پلے بڑھے ، کھیلتے کودتے سِن بلوغت کو پہنچے ،ان جگہوں کو عمر کی آخری دہلیز پر کھڑے لوگ ایک بار صرف ایک بار دیکھنے کے لئے بے چین ہیں ۔
Comments are closed.