وہ معززتھے زمانےمیں مسلماں ہوکر

مکرمی!
علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کےزوال واضمحلال کااورامت مسلمہ کے نکہت وافلاس اورذلت وخواری کااصل سبب قرآن سے دوری
وہ معززتھے زمانےمیں مسلماں ہوکر
اور ہم خوارہوئے تارک قرآں ہوکر
اے مسلمان تیری ذلت اوررسوائی کااصل سبب تویہ ہےکہ توقرآن سے دور اوربے تعلق ہوگیا ہے لیکن تواپنی اس زبوحالی پرالزام گردش زمانہ کودےرہاہے اے وہ قوم جو شبنم کے مانند زمین پربکھری ہوئی ہے اورپائوں تلے روندی جارہی ہے اٹھ کہ تیری بغل میں ایک کتاب زندہ موجودہےجس کے ذریعے تودوبارہ بام عروج پرپہونچ سکتی ہے
جوقوم خداکی کتاب رکھتی ہو اورپھربھی ذلیل وخوار اورمغلوب ومحکوم ہوتو سمجھ لیجیے کہ وہ ضرور کتاب الہی پر ظلم کررہی ہے اوراس پر ساراوبال اسی ظلم کاہے خداسے اس غضب سے نجات پانے کی اس کےسواکوئی صورت نہیں کہ اس کی کتاب کیساتھ ظلم چھوڑدیاجائے اورحق اداکرنیکی کوشش کی جائے اگرہم اس گناہ عظیم سے بازنہ آئیں گے تو آپ کی حالت ہرگزنہ بدلےگی خواہ آپ یہودیوں کی طرح سودخوری کرکے کروڑ پتی ہی کیوں نہ بن جائیں۔
ہم دیکھ رہےہیں کہ زمانے کیساتھ ٹیکنالوجی بدلی ،جگہ کیساتھ آب وہوابدلی، نقل وحمل آسان ہوا ،اتصلات کی دنیامیں انقلاب آیا، معلومات میں بےتحاشہ اضافہ ہوا ،دنیاکے ہرحصےمیں بالخصوص بڑےشہروں میں ملی جلی آبادیاں بسنےلگی، ان تبدیلیوں کے نتیجےمیں لوگوں کے مزاج ،نفسیات اورزندگی سے ان کی توقعات میں بھی تبدیلی آئی ،نئے مسائل کیلئے قرآن مقدس کی طرف رجوع کیلئے ان تمام باتوں کوسامنے رکھناہوگا ،قرآن کی شرح کے طورپر احادیث کے ذخیرےکوکھنگالنا ہوگا،تاریخ کامطالعہ یہ جاننےکیلئے کرنا ہوگاکہ ہم سےپہلےلوگوں نے بدلتے حالات میں احکام خداوندی کی تعمیل کس طرح کی اگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب رہے توان کی کامیابی کارازکیاتھا اگرناکام رہےتوناکامی کے اسباب کیاتھےمثال کے طورپر تجارتی لین دین میں عدل وقسط پرقائم رہنے اوررکھنے کےمسئلے کولیاجاسکتاہے اوریہ دیکھاجاسکتاہے کہ زندگی کے اس دائرےمیں مقاصدشریعت کےحاصل کرنےکی تفصیلی تدابیر حرمت ،ربا وقمارکے بنیادی ڈھانچےکیساتھ کس حدتک کارگرہیں اورمال کوقرآن مقدس کے الفاظ میں قیام حیات کاذریعہ کامیابی کیساتھ بنایاجاسکا یانہیں ۔
کیوں کہ آج یہ بات کھل کر کہی جارہی ہےکہ یورپین اورامریکن سائنس دانوں اورمحققین کی بہت سی تحقیقات اوراکتشافات کی بنیاد قرآن کریم ہے جس کی طرف قرآن میں یوں اشارہ کیاگیا ’’ویعلم مستقرھاومستودعھاکل فی کتاب مبین‘‘جب تک ہم نے اس کتاب عزیزکواپنے سینے میں بسائے رکھا اس وقت تک جہاں ایک طرف حکمرانی اورفرمانروائی کی باگ ڈور ہمارے ہاتھوں میں تھی وہیں دوسری طرف علوم وفنون کے تمام میدانوں میں مسلم مفکرین کی نمایاں نمائندگی تھی حکمت، طب، سائنس ،ریاضیات، سماجیات، ادبیات اورانجینئر نگ میں امت مسلمہ دنیاکی آنکھیں خیرہ کررہی تھی اندلس کی تاریخ سے کون واقف نہیں، یوروپ کی علمی بیداری کاسہراان مسیحی علماء وفضلاء کے سر جاتاہے جودراصل اندلس کے مسلم درسگاہوں کے پروردہ تھے جن کے اساتذہ مسلم تھے لیکن آگے چل کر یہی یوروپ شاگردی کےبجائے استاذی کادعویدار بن گیا اورمسلمانوں کاورثہ کلیساکی میراث بن گیا شاعر نے امت مسلمہ کے ماضی اورحال کاکیا خوبصورت موازنہ کیاہے۔
وہ معززتھے زمانہ میں مسلماں ہوکر
اورہم خوارہوئے تارک قرآں ہوکر
مختصر یہ کہ مسلمانوں کی ساری ترقی اورتمام سربراہی کاراز صرف یہ تھا کہ انہوں نے قرآن کریم کو اپنی فکری جولان گا بناہ رکھاتھا اس کتاب کے ایک ایک حکم کوضابطہ حیات کے طورپراختیار کرتےتھے اللہ کے رسول ﷺ کواپنی زندگی میں جوچیز سب سے زیادہ باعث حزن وملال تھی وہ یہ کہ قوم اس صاحب مرتبت کتاب سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اجالوں سے ان کی حددرجہ بے اعتنائی اللہ نے اپنے حبیب مصطفی ﷺ کے جذبات واحساسات کی ترجمانی اس طرح کی ہے ’’وقال الرسول یارب ان قومی اتخذواھذاالقرآن مھجورا ‘‘اوررسول کہےگا کہ اےمیرےرب ! میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کونشانہ تضحیک بنالیاتھاخلفائے راشدین اوراصحاب نبی کریم ﷺ اپنی مختلف مجالس اورمختلف خطبوں میں قرآن کریم کی گرفت پرزور دیتےرہے اپنے معاملات وعبادات میں اسی کواپناحکم بتایا کیوں کہ اس میں عدالت اورسیادت وقیادت کےتمام خطوط موجود ہیں خلفائے راشدین اپنے گورنر زکوتمسک بالکتاب کاباربار حکم دیتے رہے کیوں کہ یہ ایک مستند سہاراہے جوانسان کوتمام سہاروں سے بےنیاز کردے ایک ایسا آستانہ ہے جوتمام آستانوں سےلا تعلق کردے اسی کو اس انداز میں پیش کیاگیا ’’فمن یکفر بالطاغوت ویومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی لاانفصام لھا واللہ سمیع علیم ‘‘اورجوکوئی طاغوت کاانکار کریگا اللہ پر ایمان لےآیا اس نے ایک ایسامضبوط سہاراتھا م لیا جوکبھی ٹوٹنے والانہیں اوراللہ سننے والا اورجاننےوالاہےآج کی دنیا میں ملت اسلامیہ تعداد مال ودولت اورجاہ ومنصب کے اعتبار سے ایک بڑی حیثیت کی مالک ہے لیکن دنیا کے منظرنامے میں اس کی کوئی حیثیت اورکوئی وقعت نہیں اہل ملت مساکین کی طرح زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں ہر شعبہ حیات میں افلاس زدہ نظر آرہےہیں آنحضورﷺ نے ملت اسلامیہ کے اس حالت زار کی طرف بہت پہلے اشارہ کردیا تھا کہ ایک وقت ایسا آئیگا جب تمہاری تعداد بہت بڑی ہوگی لیکن تمہاری حیثیت خس وخاشاک سے زیادہ نہ ہوگی کلام نبوت کاانداز بےمثال ملاحظہ ہو ـ’’ولکنکم غثاءکغثاءالسیل‘‘یعنی اےامت تم سیلاب کے اس جھاگ کے مانندہو جسے پانی ادھرادھر لیے پھرتارہتاہے،اس کاپانی پر کوئی اختیار واقتدار نہیں بلکہ وہ خود اس کے تصرف میں ہے اس کی اپنی کوئی ترجیح وتوجیہ نہیں ہے ؟غیروں کے احکام کاغلام اوربیگانوں کے رحم وکرم کی متمنی ہےعلامہ اقبال ؒکواپنی قوم کی بدقسمتی اورزبوں حالی پر گریہ وزاری کرتےہوئے یہ کہنا پڑاکہ ۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیاجائےگا تجھ سے کام۔۔۔دنیاکی امامت کا
مذکورہ سطورمیں مسلمانوں کے زوال وانحطاط کااصل سبب یہ بتایا گیاکہ قرآن کریم سے ان کاتعلق کمزور ہوگیااللہ تعالی نے اپنی اس کتاب کوباربار ’’کتاب مبین‘‘اور’’بلاغ مبین‘‘سے موسوم کیاہےیعنی یہ ایک ایسی کتاب اورایک ایسا پیغام ہے جوتمام عیوب ونقائص اوراوہام وخرافات سے مبراہے ہربات اورہرحکم صاف وشفاف اس کی آیات بینات حق وباطل کے مابین خط امتیاز کی مانند انسانی ذہن کیلئے سکینت وطمانیت کاذریعہ اورذہنی خلجان اورگندے وسوسوں کیلئے سم قاتل کادرجہ رکھتی ہے ۔
محمدطفیل ندوی
جنرل سکریٹری! امام الہندفائونڈیشن ممبئی
Comments are closed.