نیا سال زندگی کے محاسبے کی دعوت دیتا ہے

محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
9358163428
کسی دن یا ماہ وسال کا اختتام نہ ہی کبھی رنج وغم اورحسرت وافسوس کا وقت ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا آغاز خوشی ومسرت کے اظہارکا دن ہوتا ہے در اصل یہ مواقع ماضی کےمحاسبہ کا اور آئندہ کے منصوبے اور لائحہ عمل طے کرنے کا ہوتاہے کہ انسان دن یاماہ وسال کے اختتام اور اگلے دن ماہ سال کے آغاز پر سنجیدگی سے غور وفکر کرے کہ گزرے ہوئے دن ،ماہ وسال میں کیا کیا خوبیاں اچھائیاں بھلائیاں اور نیکیاں انجام دیں اور کون کون سی نعمتوں سے اللہ نے نوازہ ہے کن کن برائیوں بداعمالیوں سے اللہ نے اپنے فضل وکرم سے محفوط رکھا اس پر اللہ کا شکر بجالائے
اسی طرح یہ غور وفکر کرےکہ کون کونسی برائیاں خامیاں بداعمالیاں ہیں چاہنے کے باوجود بھی جس سےبچ نہ سکے اور کیا کیا بھلائیاں نیکیاں وسعت وفراخی کے ہوتے ہوئے بھی ہم نہ کرسکے
اور کون کون چیزوں سے ہم محروم کردیئے گئے اور اب ہمیں آئندہ کیا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے کہ ہم دینی ودنیاوی نقصانات سے بچ بچا کراپنی زندگی کے لیل ونہارکو بے داغ بنائیں اور روشن مستقبل کے خاکوں میں رنگ وروغن بھر سکیں
اس لئے ماضی کی نافرمانیوں گناہوں سے اللہ کے حضور معافی توبہ واستغفار کرآئندہ ان سے بچنے کی توفیق طلب کریں
یہی اسلامی تعلیمات کا مقصد ہے اور یہی چیزیں انسانی زندگیوں میں انقلابات کاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں اور وہ کبھی حالات سے مایوس نہیں ہونے دیےتیں ہیں بلکہ حالات کا مقابلہ کرماضی کے اندھیروں سے بھی مستقبل کا چراغ روشن کرنے کی ہمت وحوصلہ بخشتیں ہیں
اورجو قومیں اپنے ماضی کو فراموش کردینی ہیں اپنے نقصانات سے سبق لےکر آئیدہ فوائد ثمرات کے حصول کی تدابیر اختیار نہیں کرتیں وہ کبھی بھی انقلابات کی دہلیز تک نہیں پہنچ پاتیں ہیں ہاں نقصانات پر واویلا اور منافع کے حصول پر مسرت کے اظہار کے نام پر اسراف ولایعنی کا چوپٹ دروازہ ضرور کھول دیتیں ہیں
اور یہ اسی وقت ہوتاہے جب قومیں فراست سے محروم ہوتی یا محروم کردی جاتیں ہیں
اب سال 2020 عیسوی بالکل اپنے آخری پڑاؤ پر ہے اوراسی کے ساتھ 2021 اپنے آمد کی دستک دے چکا ہے
اب اسی نئے سال کے آغازکی بےجاخوشی کےاظہار کےنام پر جشن وجلوس پر نہ جانے کتنے روپئے پانی کی طرح بہا دئیے جائیں گے
جیسے 2020 کے آغاز پر لٹائے گئے تھے لیکن کیا ہوا پورا سال کرونا کے نام پر معیشت کی چکی کو ٹھپ کرکے رکھ دیا گیا
پھر کیا تھا غربت وافلاس بھکمری لاچاری بے بسی کسمپرسی نے اپنے پاؤں جمالئے اور اب اسی کا بول بالاہے نہ حکومتوں کو کوئی فکر اور نہ ہی سرمایاداروں کو کوئی غم سب اپنی اپنی تجوریاں بھرنے میں یا اس کی تدابیر کرنے میں مست ہیں
آج مسلم معاشرہ اپنی اخروی زندگی کو فراموش کرکے حرص وہوس کا شکار ہے دین مذہب قران سنت موت قبر آخرت حساب وکتاب سے بے پرواہ ہوکر دینا کی رنگینیوں میں اس قدر مست ہے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی اسے سوچنے کی فرست نہیں کہ یہ رنگین دنیا بھی فنا ہوگی اور مالک الملک جبار قہار کے سامنے ہماری پیشی ہوگی پھر ہماری نجات کا سامان صرف ہماری نیکیاں ہی ہونگیں اعمال بد ہمارے لئے وبال جان ہوگے اسلئے جلد سے جلد غفلت ولاپرواہی کے پردے کو چاک کریں اپنی سابقہ زنگیوں سے توبہ کر نئے سال پر ایک نئی زندگی کا آغاز کریں
ویسے بھی جشن وجلوس سے نہ کسی کا پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی کسی کے تن ڈھکتےہیں اور اگر انھیں فضولیات میں بےتحاشا خرچ کی جانے والی دولت کو غریبوں میں تقسیم کیا جاتا تو شاید لاکھوں یتیموں کے گھر سے لاچاری کا درد دور کیاجاسکتا تھا
اب آپ غور کیجئے کہ کئی دنوں سے ہورہیں جشن وجلوس کی تیاریاں ،پیغامات کی روانگی نئے سال کی مبارک بادی اور طرح طرح کے پروگراموں کے انعقاد سے نہ کسی کا ماضی شاندار ہو سکتا ہے اور نہ ہی منصوبہ بند اور لائحہ عمل کے بغیر مستقبل کو تابناک بنایا جا سکتا ہے اس لئے اب اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے اور اپنی زندگی کی شاہراہ کو صحیح رخ دینے کی ضرورت ہے
الغرض اللہ رب العزت نےجو زندگیاں بندوں کو دی ہیں اس میں سے شاندار مکمل ایک سال کم ہو گیا ایک مسلمان کو بحیثیت مسلمان یہ سوچنااوراستحضار کرناچاہئے کہ اب ہم موت سے ،قبر سے ایک سال اور قریب ہوگئے ہیں بیش قیمت ایک سال ہماری زندگی کا کم ہو گیاہے ہم نے اس گذرے ہوئے ماہ وسال میں اپنے لئے اپنے والدین اپنے بیوی بچوں کے لئے کیا اپنی قوم کے لئے کیا اور کیا کرنا چاہئےتھا جو کر لیا اس پر اللہ کا شکر اور جو رہ گئے ہیں ممکن حد تک اسکے تلافی کی سبیل کرنا ہے یہی نئے سال کی آمد کا اصل پیغام ہے
Comments are closed.