Baseerat Online News Portal

قومیں اخلاق کے ساتھ ہی باقی رہتی ہیں

 

عمر فراھی۔۔۔۔

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے امن معاہدے کیلئے سفارتی تعلقات کی بحالی کا جو راستہ ہموار کیا اس پر جن عرب ریاستوں نے استقبال کیا یا جو خاموش رہے دونوں کا موقف یکساں ہی تصور کیا جائے گا کہ یہ لوگ بھی دیر سویر اسرائیل کے ساتھ ہنی مون منانے کی تیاری میں مصروف ہیں ۔دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکنے اور اس رشتے کا اخلاقی جواز پیش کرنے کیلئے اس معاہدے کو ابراہیمی معاہدے کا نام دیا گیا ہے ۔یعنی جب ہم ایک ہی باپ کی اولاد ہیں تو آپس میں بغض اور دشمنی کیوں ؟عرب عالم اسلام کو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن اللہ کو نہیں ۔قرآن کسی حد تک نصارٰی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا اشارہ تو دیتا ہے لیکن یہودی مسلمانوں کے دوست کبھی نہیں ہو سکتے ۔کچھ لوگ اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب کے سفارتی تعلقات کی حمایت کرتے ہوئے ترکی ایران مصر اور دیگر ممالک کا حوالہ دیتے ہیں کہ انہوں نے تو پچاس سال پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب انہوں نے پچاس سال پہلے ہی تسلیم کر لیا تو عرب خاموش کیوں رہے انہیں بھی اسی وقت اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہئے تھا آج تک کا انتظار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس وقت ایران اور ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کیا اس وقت ایران اور ترکی کے حکمرانوں کی غیرت مر چکی تھی جبکہ عرب حکمرانوں کا ضمیر زندہ تھا ۔کسی نے لکھا ہے کہ جب سعودی حکمراں شاہ فیصل کو خبر ہوئی کہ مصر کا صدر انور سادات اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے ہوائی جہاز سے امریکہ کے سفر پر جارہا ہے تو وہ بے چین ہو اٹھے اور دعا کی کہ ائے اللہ انور سادات کے جہاز کو تباہ کر دے ۔غیرت اور اخلاق کی بات آئی تو کسی نے شارجہ کے حکمراں سلطان بن محمد القاسمی حاکم شارجہ کے بارے میں لکھا ہے کہ سلطان قاسمی جب امریکہ کے دورے پر تھے تو ان کے اعزاز میں امریکہ میں ایرانی سفیر ارد شیر زاہدی (شاہ ایران کی بہن کا شوہر) نے عشائیہ دیا . عشائیہ کے بعد اس نے انھیں اپنے گھر کا چکر لگوایا اور اپنا "مخصوص خانہ” دکھایا. "مخصوص خانہ” دراصل ایک گول کمرہ تھا جس کی چھت بہت اونچی تھی، گنبد اور دیواروں پر اسلامی خطاطی اور نقش و نگار بڑی کثرت سے بنے ہوئے تھے. سلطان قاسمی نے یہ گمان کیا کہ شاید وہ اس میں عبادت کرتا ہو گا لیکن جب اس نے مختلف قسم کے شیشے کے گلاس دکھانے شروع کیے تو اس نے ان کا گمان غلط ثابت کر دیا.
ایرانی سفیر نے انھیں پہلی قسم کے گلاس دکھائے جن پر ایک عورت کی تصویر تھی جس کا چہرہ کھلا تھا. سفیر نے انھیں بتایا کہ جب ہم شراب کا پہلا جام پیتے ہیں تو یہ گلاس استعمال کرتے ہیں. پھر اس نے انھیں دوسرے گلاس دکھائے جس پر ایک عورت کی تصویر تھی، لیکن اس کا سینہ کھلا ہوا تھا. سفیر نے بتایا کہ دوسرا جام ان گلاسوں میں پیا جاتا ہے. پھر سفیر نے انھیں بتایا کہ جب شراب ہماری عقلوں سے کھیلنے لگتی ہے تو وہ پھر تیسرا گلاس استعمال کرتے ہیں جس پر ایک ننگی عورت کی تصویر تھی.
پھر چوتھی قسم کے گلاس…..
حاکم شارجہ لکھتے ہیں کہ
"سفیر نے میری طرف دیکھا تو مجھے اپنے پاس موجود نہ پایا کیونکہ میں اسے اس کے جام ہائے شراب نوشی کے پاس چھوڑ کر اپنی کار کے پاس پہنچ گیا تھا، جو میری رہائش گاہ پر پہنچانے والی تھی. شاعر کہتا ہے
انما الامم الاخلاق ما بقیت فان ھم ذھبت اخلاقھم ذھبوا
"قومیں تو اخلاق کے ساتھ ہیں اگر وہ باقی رہیں جب اخلاق ختم ہو گئے تو قومیں بھی ختم ہو گئیں.”
اب آپ عرب حکمرانوں کے حال سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب چند بھٹکے ہوئے عرب نواب شراب اور شباب کی تلاش میں یوروپ کی سیر کیلئے نکلا کرتے تھے آج یوروپ کی حسینائیں خود عربوں کے شہر میں رقص کی محفلیں سجا رہی ہیں اور دنیا کے امیر ترین لوگ ان کے حسن اور جمال کے خریدار ہیں ۔حالانکہ پچھلے سال تک عرب حکمرانوں نے ہوٹلوں میں غیر شادی شدہ جوڑوں کے ٹھہرنے پر پابندی لگا رکھی تھی اب یہ پابندی بھی اٹھا لی گئی ہے ۔ابھی تک شراب خانوں میں عرب دوشیزاؤں کے رقص پر پابندی ہے کل یہ پابندی بھی برقرار رہ سکے گی یا نہیں کسے پتہ ۔ویسے اگر عرب میں تھیٹر اور شراب خانے کھلنے لگیں تو فلمیں بھی ضرور بنیں گی اور پھر ان فلموں کی ہیروئینیں بھی کپ تک یوروپ سے برامد ہوتی رہیں گی ۔ظاہر سی بات ہے عرب دوشیزاؤں کے باہر نکلنے کا راستہ ہموار ہونا ہی ہے ۔جس کی شروعات ہو بھی چکی ہے ۔ہمارے سماج میں ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہو چکا ہے جو حدیث کا منکر ہے ۔مگر یہ بات اپنے بزرگوں سے چالیس سال پہلے سے تو میں سنتے آیا ہوں کی قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ ننگے پیر چلنے والے عرب کے چرواہے اونچی اونچی عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش نہیں کرنے لگیں گے ۔حدیث کی یہ پیشن گوئی اس وقت ہوئی تھی جب عرب کے ان صحراؤں میں دور دور تک بنجر ہی بنجر تھے اور عرب بہت ہی پسماندہ تھے ۔اب برج خلیفہ سے لیکر دیگر شاندار عمارتوں کو دیکھنے کے بعد حدیث اور محدثین دونوں کی اپنی معتبریت پر یقین کر لینے میں کوئی قباحت نہیں محسوس ہونا چاہیے۔باقی دیگر پیشن گوئیاں جو ابھی پوری نہ بھی ہوئی ہوں تو بھی جو علامات ظاہر ہو رہی ہیں انہیں دیکھ کر یہ اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں ہے کہ ان پیشن گوئیوں کے پورا ہونے کا وقت بھی قریب ہے ۔ان حالات میں ہم اس کے سوا اور کچھ کر بھی نہیں سکتے کہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اعمال اور اخلاق کا محاسبہ کر لیں ورنہ ہمارا اپنا حال بھی عربوں سے مختلف نہیں ہونے والا !

Comments are closed.