کامیابی کی کلید

سمیع اللہ ملک
عالمِ اسلام آج اپنی تاریخ کے ایک تاریک عہدسے گزررہاہے بلکہ یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ یہ اس کی تاریخ کابدترین دورہے۔درست ہے کہ ماضی میں بھی اِس پرکڑے وقت آئے ہیں پھربھی ایسانہیں ہواکہ اتنی بڑی بڑی آفتیں ایک ہی وقت میں اِس کے تمام خطوں اور براعظموں پرحملہ آورہوئی ہوں۔یہ گھنانی صورتحال،یہ خواری اورزیاں کاری جس سے امت کاکوئی ایک شعبہ محفوظ رہ گیا ہے اورنہ کوئی ایک خطہ،بلاشبہ اس کے ہاں پہلی بارایساہواہے۔مثال کے طورپراندلس کاسانحہ قرونِ ماضی میں ہم پرگزرنے والاایک بدترین سانحہ رہا ہے۔اب فلسطین اورکشمیرپرجو بیت رہی ہے،اس سے بدترہے۔اِس لیے کہ مسلم اقتدارکا سورج جس وقت اندلس میں غروب ہورہاتھاعین اسی وقت وہ عالم اسلام کے مشرقی افق پرطلوع بھی ہورہاتھا۔یہ عثمانیوں کی نوخیزدولت تھی جس نے تھوڑی ہی دیرمیں سلطنتِ روما کاافسانوی پایہ تخت قسطنطنیہ ہی اس سے چھین لیااوراس کوصدیوں تک کیلئے اسلام کا دارِخلافت بناڈالا،اورپھروہ قسطنطنیہ پرہی نہ رکی بلکہ یورپ میں اپنی کامیاب لشکرکشی کرتے ہوئے ویانااورپٹرسبرگ تک جاپہنچی۔
تاہم فلسطین کاجب سانحہ پیش آیاتومسلم اقتدارکاسایہ ہرطرف سے سمٹ ہی رہاتھا۔مسلم وجودزمین کے ہرہرخطے میں چیراپھاڑاہی جارہاتھا :فلپائن،ایتھوپیا،ارٹریا،چاڈ،نائجیریا ،عراق،کشمیر،افغانستان ،اِس دورمیں ہماراکونساخطہ لہولہان ہونے سے بچارہا؟اوراگرکمیونسٹ دنیاکوسامنے رکھیں جوکہ عالم اسلام کاایک وسیع وعریض خطہ تھا،تووہاں تومسلمانوں کے پاس چناہی ایک تھا:اپنادین چھوڑکرکفرکامذہب اختیارکرلیں یاموت کوگلے لگائیں۔ابھی وہ دیوہیکل منصوبے الگ ہیں جوعالمی طاقتوں اوربین الاقوامی اداروں کی سطح پرمسلم دنیاکی تقدیرطے کرنے کیلئیبرسرعمل رہے۔عالم اسلام کی تقسیم درتقسیم درتقسیم کاسلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔سرزمینِ اسلام کے حصے کاٹ کاٹ کرغیرمسلموں کے ’’گھر ‘‘ بنانے کاعمل زوروں پرہے۔ابھی ایک خطے میں مسلمان اکثریت میں ہوتے ہیں لیکن اپنے ایجنٹوں کی وساطت سے انہیں ایک ذلیل اقلیت بناکررکھ دیاجاتاہے۔جہاں مسلمانوں کی’’جان بخشی‘‘کا مسئلہ ہی وقت کے سرفہرست مسائل میں جگہ پالیتاہے!ادھراسلام کے داعی اپنے گھروں میں گردن زدنی اوربدترین ظلم اورتشدد کے سزاواریعنی اسلامی ملکوں میں اسلام ہی کی صدابلندکرناسب سے بڑاجرم۔ جیلیں،کال کوٹھڑیاں،تختہ دارسب انہی کیلئے،اوران کاجرم صرف ایک:یہ ان حکومتوں کے وفادارنہیں جودیارِاسلام سے شریعتِ اسلام کوبے دخل کررکھنے پرمصرہیں!یہ زیاں جس میں عالم اسلام آج جی رہاہے،تاریخ میں اس سے پہلے بھلا کب تھا؟
لیکن کیایہ سب کچھ بے سبب ہوگیا؟ کونسی چیزہے جواللہ کی اِس کائنات میں بیسبب ہوجاتی ہے؟حیاتِ انسانی میں ہرچیزاللہ کے مقررٹھہرائے ہوئے قاعدے اورقانون ہی کے تحت روپذیرہوتی ہے۔اللہ کے یہ قاعدے اورقانون اٹل ہیں جومخلوق میں کسی کی رو رِعایت نہیں کرتے: تو تم ہرگزاللہ کے دستورکوبدلتانہ پاگے اورہرگزاللہ کے قانون کوٹلتانہ پاؤ گے ۔ ( فاطر :43)۔
یہ اللہ کااپناہی دستورہے کہ :یہ اس لیے کہ اللہ کسی قوم سے جونعمت انہیں دی تھی بدلتا نہیں جب تک وہ خود نہ بدل جائیں اوربیشک اللہ سنتاجانتاہے۔(الانفال: 53)
نیزاللہ کایہ دستورکہ کسی کی رورعایت محض اس وجہ سے نہیں کردی جائے گی کہ وہ نیکوکاروں کی اولادہے: ’’اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی توان میں پورے اترے۔اللہ نے کہا کہ میں تم کولوگوں کاپیشوا بناں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو)۔اللہ نے فرمایاکہ ہمارااقرارظالموں کیلئے نہیں ہواکرتا‘‘۔(البقرہ:124)
وہ زمین میں ان کوتمکین دیتاہے،اس وقت جب وہ خودمومن اورصالح ہوں۔
جولوگ تم میں سے ایمان لائے اورنیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کاوعدہ ہے کہ ان کوملک کاحاکم بنادے گاجیسا ان سے پہلے لوگوں کوحاکم بنایاتھااوران کے دین کوجسے اس نے ان کیلئے پسندکیاہے مستحکم وپائیدارکرے گااورخوف کے بعدان کوامن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اورمیرے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ بنائیں گے۔اورجواس کے بعدکفر کرے توایسے لوگ بدکردارہیں ۔(النور:55)
ہاں وہ لوگ جو کتابِ اللہ کوموروثی اندازمیں لیں،کتاب اللہ کوخاص اپنے لیے نازل ہونے والی چیزنہ سمجھیں،اوراپنی بستیوں اور معاشروں کواس کاپابند نہ جانیں،توربانی دستورکی روسے یہ ناخلف ہیں، جن کی بنی اسرائیل کا قصہ بیان کرتے وقت باقاعدہ نشاندہی ہوئی تاکہ یہ امت اس سے عبرت حاصل کرے۔
پھر ان کی جگہ ان کے بعد وہ ناخلف آئے کہ کتاب کے وارث ہوئے اس دنیا کا مال لیتے ہیں اور کہتے اب ہماری بخشش ہوگی اور اگر ویسا ہی مال ان کے پاس اور آئے تو لے لیں کیا ان پر کتاب میں عہد نہ لیا گیا کہ اللہ کی طرف نسبت نہ کریں مگر حق اور انہوں نے اسے پڑھا اور بیشک پچھلا گھر بہتر ہے پرہیزگاروں کو تو کیا تمہیں عقل نہیں؟(اعراف: 169)
ایسا ہی سیاق ایک دوسری آیت کاہے:
پھران کے بعدچندناخلف ان کے جانشیں ہوئے جنہوں نے نمازکو(چھوڑدیاگویااسے)کھودیا۔اورنفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے،سوان کا نقصان ان کے آگے آئے گا۔ (سور مریم: 59)
یہ سب خدائی دستور ہیں۔حیاتِ انسانی کاپہیہ انہی کاچلایاچلتاہے۔ یہ اٹل رب کے قاعدے کبھی کسی کی رعایت کرتے ہیں او نہ کسی بشرکی خواہش کودیکھ کراپنی جگہ سے ٹلتے ہیں۔ اللہ نے اِس امتِ اسلام پرکمال نعمتیں فرمائی تھیں۔تمکین،خلافت،چین اورامن۔ آسمان اِس پررزق برساتاتھااورزمین اِس کیلئیسونا اگلتی تھی۔اللہ کے اس وعدہ کایہ بڑی صدیوں تک اپنی آنکھوں مشاہدہ کرتی رہی:
اگربستیوں کے لوگ ایمان لاتے اورتقوی کی روش اختیارکرتے توہم ان پرآسمان اورزمین سے برکتوں کے دروازے کھو ل دیتے(الاعراف: 96)
آخریہ استخلاف،یہ تمکین،یہ چین وآرام،اوریہ رزق کی فراوانی ذلت،بیچارگی،ناتوانی،بے خانمائی،افلاس اورمرگِ مفاجات میں بدلی،جب ان کامعاملہ عین اس حالت کوپہنچا جس سے اِس امت کے نبیؓ نے اِس کوخبرادارکیاتھا:
قریب ہے کہ قومیں تم پر یوں چڑھ دوڑیں جس طرح کھانے والے (بھوکے) کھانے کے تھال پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا:کیا یہ اس لیے کہ ہم تھوڑے ہوں گے اے اللہ کے رسول؟فرمایا:تم اس روزتعداد میں بہت زیادہ ہوگے مگراس خس وخاشاک کی طرح ہوگے جوسیلاب کی سطح پراٹھ آتاہے۔(خرجہ حمد وابو داؤد)
مسلمانوں کی اس طویل تاریخ میں بہت سے انحرافات واقع ہوئے ہیں۔ہرانحراف جواِن کی زندگی میں وقوع پزیرہوا،اس کانتیجہ جلد یابدیرنکل کررہا،جیسااورجس درجہ کاانحراف، ویسااوراسی درجہ کانتیجہ۔جس سطح کااس کاپھیلا،اسی سطح کااس کاانجام۔کسی فتنہ یاانحراف کے وقت امت کے حکمرانوں کاکیامقف رہا،علماکاکیاکرداررہا،عوام کاکیا وتیرہ رہا’’اسباب‘‘اور’’نتائج‘‘کااٹوٹ رشتہ ہمیشہ ان اعتبارات کاپابندرہایہاں تک کہ انحراف جب اپنی آخری حدکوپہنچاتواس کاانجام وہ ہواجوآج ہم بچشم سردیکھ رہے ہیں۔ذلت، بزدلی،خوف اوربے بسی کی ایک آخری حالت یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ہمارے اِنہی شہروں اوراِنہی ملکوں میں جہاں صدیوں استخلاف،تمکین،فراوانیِ رزق اورامن و چین کادوردورہ رہاتھا۔
یہ انحرافـ ـــ۔۔۔۔۔۔۔۔جس کے ہاتھوں ہمیں یہ دن دیکھناپڑے اورجس کے باعث ہمارامعاملہ اس خطرناک حالت کوپہنچاجوزمانہ حاضر میں مسلم معاشروں کا سب سے سنگین اورسب سے خطرناک انحراف ہے۔یایوں کہہ لیجئے،مسلم تاریخ میں جوجو انحراف آتارہا وہ سب رفتہ رفتہ،انحراف کی اِس خاص شکل میں ڈھلتاچلاگیاجوآج ہمارے سامنے ہے اورجوکہ انحراف کی سنگین ترین اورخطرناک ترین صورت ہے۔یعنی وہ انحراف جواب’’تصورات‘‘کی دنیامیں ہی واقع ہوچکاہے،اسلام کے بہت سے مخلص داعی اِس غلط فہمی کا شکارہیں کہ امت کااِس حالتِ زارکوجاپہنچنااس انحراف کے باعث ہے جو’’کردار‘‘اور’’عمل‘‘کی دنیامیں اِس کودرپیش ہے۔یہ مخلص حضرات اِس بحران کی صرف اِس قدرتشخیص کرتے ہیں کہ یہاں ’’کردار‘‘اور’’عمل‘‘کی وہ تصویرمفقودہے جوہمارے یہ مسلم معاشرے کسی زمانے میں پیش کیاکرتے تھے۔
کرداراور’’رویے‘‘کایہ انحراف بے شک جان لیواہے بلکہ یہ اس سے کہیں نمایاں ترہے کہ اِس کی نشاندہی ہو۔جھوٹ،بددیانتی، منافقت،جعلسازی،نکھٹوپن، بزدلی، چاپلوسی، ذلت قبول کرنا،اللہ کی نافرمانی کاچلن عام ہوجانا،نیزنوجوانوں کابے قابواوربے راہرو ہوتے چلے جانا،لوگوں میں حس کامادہ ختم ہوکررہ جانا،فسق وفجورکوسرعام دیکھ بھی ٹس سے مس نہ ہونا،بدعات کی کثرت، منکرات کی بھرمار غرض بیسیوں اوصاف اوراعمال ایسے ہیں جن کااسلام سے دورنزدیک کاکوئی رشتہ نہیں،جبکہ وہ سب اعمال اوروہ سب اوصاف مسلمانوں کے حق میں آج’’طبعی حالت‘‘کادرجہ رکھتے ہیں۔
بے شک یہ باتیں سچ ہیںپھربھی’’کردار‘‘کاانحراف وہ واحد انحراف نہیں ہے جومسلم زندگی کواِس وقت درپیش ہے۔نہ ہی یہ وہ انحراف ہے جس کوہم عصرحاضرکے مسلمان کے ہاں پایاجانے والاسنگین ترین انحراف قراردیں۔حق تویہ ہے کہ یہ انحراف اگر صرف”کردار”اور”رویے”کاہی انحراف ہوتاتواپنی تمام ترسنگینی کے باوجودمعاملہ کہیں آسان اورہلکا ہوتا ۔ مسئلہ بڑی دیرسے ’’کردار‘‘اور’’رویے‘‘سے گزرکر’’تصورات‘‘تک چلا گیاہواہے۔یہاں’’اعمال‘‘نہیں’’مفہومات‘‘ہی بگڑچکے ہیں،اور کوئی ایک دونہیں سب کے سب مفہومات،اورسب سے پہلے لا الہ الا اللہ کامفہوم ہی ہماری فکرکامتقاضی ہے۔
ایک ایساانسان جواپنے رویے اورسلوک میں تومنحرف ہے مگرحقیقتِ دین کی بابت اس کا تصورسلامت رہ گیاہے،اس کاانحراف درست کرنے پربھی ضرورآپ کومحنت صرف کرنا ہو گی لیکن جوشخص اپنے تصورات میں منحرف ہے اس کے ساتھ توآپ کو بے اندازہ جان کھپاناہوگی،یعنی پہلے آپ کواس کے تصورات درست کرناہوں گے اورپھراس کے رویے اور سلوک کی جانب توجہ دیناہوگی۔عالم اسلام میں اصلاح کاعمل آج عین اِس نقطے پرکھڑا ہے۔
انحراف آج’’عمل’’اور’’سلوک‘‘کے دائرے سے بہت آگے گزرچکاہے،اوراِس دین کے بنیادی ترین حقائق سے متعلقہ’’مفہومات‘‘اور’’تصورات‘‘تک جاپہنچاہے۔ یہ وجہ ہے کہ اسلام کوآج وہ غربت اوراجنبیت درپیش ہے،جس کی پیشین گوئی حدیثِ رسول اللہﷺ میں بیان ہوئی ہے:
اسلام کی ابتدا تھی،تویہ اجنبی تھا،عنقریب یہ پھراجنبی ہورہے گا۔(خرجہ مسلم)
اورآج یہ بالفعل اجنبی ہے،خوداپنے لوگوں میں اجنبی،جواس کوپہچانتے تک نہیں!پھررویے اورسلوک کاانحراف اس پرمستزاد!اسلام اپنے اصل حقیقی روپ میں ان کے سامنے پیش ہوتویہ اس کوکسی عجوبے کی طرح دیکھتے ہیں!وہ اسلام جوکتاب اللہ میں بیان ہوا،جورسول اللہ ﷺ کی سنت اورسیرت میں واردہوا،اورجوزمانہ اسلاف میں زمین پرایک جیتی جاگتی چلتی پھرتی حقیقت کی ماننددیکھاجاتارہا،اس اسلام کوآج یہ حیران پریشان ہوکردیکھتے اورسنتے ہیں۔ اصلاح کے میدان میں اترناہیتومعاملے کواس کی اصل حقیقت اورحجم میں دیکھے بغیرچارہ نہیں۔
آج ساری محنت اگر’’کردار‘‘اور’’عمل‘‘کی اصلاح پرلگادی جاتی ہے،جبکہ تصورات کاانحراف جوں کاتوں رہتاہے،تواِس محنت کا کوئی بہت اعلی ثمرسامنے آنے والا نہیں۔صرف ’’سلوک‘‘اور’’اعمال‘‘پرکرائی جانے والی محنت امت کواس انحطاط سے اوپراٹھانے کیلئے جس میں یہ جاگری ہے ہرگزکافی نہیں۔یہ غربتِ ثانیہ جس کاآج ہمیں سامناہے،اس کو دورکرنے کیلئے آج ایک ویسی ہی محنت درکارہے جواسلام کی اس جماعتِ اولی نے اس غربتِ اولی کودورکرنے کیلئے صرف کی تھی اوریہ ہے وہ گھاٹی جوہماری’’صحوہ اسلامیہ‘‘ کوآج چڑھ کردکھانی ہے۔سب سے پہلاجو کام کرنے کاہے وہ یہ کہ ہم اپنادین لینے کامنہج درست کریں۔
اِس دین کافہم اوراِس کے معانی ہم نے لینے کہاں سے ہیں؟کتاب اللہ سے؟سنتِ رسول اللہؓ سے؟سلف کے طرزعمل سے؟یااِدھر ادھرکے ان افکارسے،جوتاریخ کی راہداریوں سے گزرنے کے دوران ہماری دینی لغت کاحصہ بنتے چلے گئے؟اگرہم اپنے فہم اور تصورکامصدردرست کرلیتے ہیںاوراس سے کام لے کراپنے تصوراتِ دین کودرست کرلیتے ہیں ،نیز اِن سے وہ جھاڑجھنکاڑ نکال دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جن سے اِن آخری زمانوں کامسلمان”اسلام”کے نام پرمانوس ہوچکاہیتواس کے بعد صرف ایک مہم رہ جاتی ہے اورجوکہ اپنی جگہ پراتنی ہی اہم ہیاوروہ ہے دین کے صحیح وخالص مفہومات پرتربیت اورتزکیہ پانے کاعمل۔
تاہم تربیت وہ اصل محنت ہے جس سے حقیقی ثمرکی امیدرکھنی چاہئے لیکن تربیت کایہ ثمراپنے اصل شجرپرنمودارہوسکتاہے اور وہ ہے دین کے صحیح ومستندمفاہیم۔اِس ثمرکوکسی اورشجرپر تلاش کرناوقت اورمحنت کاضیاع ہے۔الغرض اسلام کے کچھ بنیادی ترین تصورات آج ذہنوں کے اندرہی درست حالت میں نہیں رہ گئے ہیں۔یہاں ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اِن مفہومات کے اندر اپنی اس پرانی تصویرکے نقش اجاگرکریں جوہمیں اپنے رب کی کتاب،اپنے نبیؓ کی سنت اوراپنے اسلاف کے دستوروطرزِ عمل سے ملتی ہے،جبکہ وہ دھبے اِس سے ہٹادیے جائیں جوتاریخ کے مختلف ادوارسے گزرتے ہوئے زمانے اورحالات کے ہاتھوں اِس پر لگ گئے ہیں اورجس کے باعث ہماری یہ تصویر کچھ سے کچھ ہو گئی ہے۔ اب اشدضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اسلام کے پانچ (لاالہ الا اللہ،عبادت،قضاوقدر،دنیااورآخرت،تمدن اورتعمیرِارض)بنیادی مفہومات کوبخوبی سمجھ کران کواپنااوڑھنابچھونابنا لیں۔یہی کامیابی کی کلیدہے۔

Comments are closed.