ائمہ و مؤذنین ہمارے رہنما ہیں، ان کی تعظیم و تکریم ہی سے ہم فائز المرام ہوسکتے ہیں

تحریر: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
صدر: نوجوانان آب حیات ایجوکیشنل،سوشل ویلفیئر کمیٹی بی ایچ ای ایل بھوپال، ایم پی 9826268925
امام کی اہمیت: اسلام میں امام کا مقام بہت اہمیت کا حامل ہے، امامت سنت نبوی اور سنت صحابہ کرام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم امامت جبریل کے بعد سے تا حیات امامت فرماتے رہے، آپ کے عذر کی حالت میں اور آپ کے بعد تمام خلفاء راشدین اور مسلم سلاطین اس منصب کو اپنے لیے باعث شرف سمجھتے ہوئے امامت کرتے رہے۔ اللہ تعالی کے نزدیک امامت کا منصب ( عہدہ پیشوائ و سرداری) بہت عزت و عظمت والاہے۔ اس کا اندازہ قرآن کریم کی متعدد آیات کا بنظر غائر مطالعہ سے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے پیارے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمائشوں میں ڈالا آپ علیہ السلام تمام آزمایشوں میں کامیاب ہوئے تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’میں تمہیں لوگوں کا پیشوا (امام) بناؤں گا،انہوں نے عرض کیا، کیا میری اولاد میں سے بھی؟ ار شاد ہوا ہاں! مگر میرا وعدہ ظالموں کو نہیں۔ (سورہ بقر ہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے امام اللہ تعالی کے ہاں تمہارے نمائندہ ہیں۔ (اتحاف ا لسیا دۃ المتقین) ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام اس لیے بنائے گئے ہیں کہ ان کی اقتداء کی جائے۔ اس کا ایک ظاہری مطلب یہ ہے کہ نماز کے دوران اماموں کی اقتدا کرنا چاہیے ان کے عمل کے مطابق عمل کیا جائے، تاکہ ہماری نماز درست اور مکمل ہوسکے،لیکن ایک مطلب اس کا یہ بھی ہے کہ معاشرے میں امام کے منصب کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے اچھے اور اعلی اخلاق و کردار کو اپنایا جائے اور اس سلسلے میں بھی انہیں اپنا رہنما بنایا جائے۔
حضرت امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث نقل کی ہےکہ ایک صاحب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے دریافت کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کوئی کام بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی قوم کے امام بن جاؤ تو انہوں نے کہا، اگر یہ ممکن نہ ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،پھر مؤذن بن جاؤ۔ (شرح عمدۃ القاری) ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ میں جب جنت میں داخل ہوا تو موتیوں کا قبہ (محل) دیکھا میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کس کا ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ آپ کی امت کے اماموں اور مو ذنوں کے لئے ہے۔ (مطالب عالیہ)امامت اور موذنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مؤقر عمل ہے،اوران کےلیے اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت وانعام مقدرہے۔
مؤ ذن کا مقام و مرتبہ: اور جب تم (ایمان والے) نماز کیلئے اذان دیتے ہو تو یہ لوگ (اہل کتاب اور کفار) اس اذان کے ساتھ ہنسی اور کھیل کرتے ہیں ایسا کرنے کا سبب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو بالکل عقل نہیں رکھتے ( سورہ مائدہ) اذان دین اسلام کا ایک اہم شعار اور اسلامی معاشرہ کی حقیقی پہچان ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ اذان ایمان کے شعائر میں سے ہے۔ اور علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ بلاشبہ اذان شعاراسلام ہے اور اس کا ترک کرنا جائز نہیں ہے ۔ (فتح الباری)اسی طرح اس عظیم، مقدس اور مبارک اذان کوہردن پانچ مرتبہ دینے والے مؤذن کا مقام و مرتبہ بھی شریعت اسلامی میں بہت زیادہ بلند و بالا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں مؤذن کی بڑی حیثیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔ ایک حدیث شریف میں مؤذن کو اللہ تعالی کا منا دی کہا گیا ہے (مسنداحمد) ایک اور حدیث میں ہے کہ مؤذن کو ان تمام نمازیوں کا بھی اجر و ثواب ملے گا جن نمازیوں نے (موذن کی اذان سن کر) اس کے ساتھ نماز پڑھی- (نسائی) نیز مؤذن کو اذان کی برکت سے اللہ تعالی کی طرف سے ہر اذان کے بعد جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ مؤذن جب اذان سے فاغ ہوتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے سچ کہا اور حق کی شہادت دی پس (اے مؤذن) تم کو جنت کی بشارت ہو۔ (عمدۃالقاری) اذان دینے کی وجہ سے موذنوں کی قبر میں کیڑے نہیں لگیں گے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اذان کی آواز سننے والے جاندار اور بے جان سبھی مو ذن کے لیے مغفرت (بلندی درجات) کی دعا کریں گے۔ (ابوداؤد) مؤذن کے لئے آخرت میں بھی اذان عزت و سعادت کا موجب ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ مؤذن قیامت کے دن تمام لوگوں میں ممتاز اور بلند رتبہ ہوں گے۔ (مسلم)
اسی طرح مؤذن کوروز محشر حساب و کتاب کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین قسم کے لوگ مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے جن کو اس دن کوئی ڈر اور خوف نہ ہو گا جس دن عام لوگ بڑے خوفزدہ ہوں گے (ان تین قسموں میں سے) دوسرا وہ خوش نصیب موذن ہوگا جس نے پانچ وقت لوگوں کو اذان دے کر نماز کے لئے بلایا ہوگا۔ (مجمع الزوائد)اور موذن عام لوگوں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے حضرات انبیاء علیہ السلام پھر حضرات شہداء رحمۃ اللہ علیہ، پھڑ بیت اللہ کے مؤذنین، پھر بیت المقدس کے موذنین،پھر مسجدنبوی کی مؤذنین،پھر تمام مساجد کے مؤذنین ہونگے۔(بیہقی) اور اذان دینے کی برکت سے جنت میں مؤذن موتیوں کے محل میں رہیں گے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہ السلام اور شہداء عظام کے بعد جنت کا جوڑا حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور صالح مؤ ذنوں کو پہنایا جائے گا۔ (عمدۃ القاری)
ہم مسلمانوں پر مؤذن کاسب سے بڑا حق یہ ہے کہ ہم تمام مسلمان مؤذنوں کی عزت و تعظیم صدق دل سے کریں اور ان کا شایان شان احترام و اکرام کریں کیونکہ موذن محبوب ترین عبادت ’’نماز‘‘ باجماعت کے مخلص ترجمان اور نقیب ہیں اور اللہ تعالی کے محبوب ترین بندے ہیں۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی بلیغ و مؤثر اسلوب میں ارشاد فرمایا کہ اگر میں قسم کھا لوں تو حانث نہ ہوں گا کہ اللہ تعالی کے محبوب بندے وہ مؤ ذن ہیں جو سورج اور چاند پر (نماز کے اوقات معلوم کرنے کے لیے) نگاہ رکھتے ہیں۔ (ترغیب) اسی طرح ایک اور حدیث میں موذن کو سب سے بہترین بندہ خدا بتایا گیا ہے اس لئے اللہ تعالی ان موذنوں پر خصوصی فضل و احسان اور توجہ و عنایت فرماتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی کا ہاتھ مؤ ذن کے سر پر رہتا ہے جب تک کہ وہ اذان سے فارغ نہ ہو جائے۔ (ترغیب) نیز مؤذن کی حیثیت اللہ تعالی کے نزدیک مجاہد کی ہے۔ حضرت محمد حنیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اجر و ثواب میں مؤذن اللّہ تعالی کے راستے میں مجاہد کی طرح ہے۔ (مصنف عبدالرزاق) آخرت میں بھی مؤذن کی نرالی شان ہوگی ایک حدیث میں ہے کہ مؤذن اور تلبیہ پڑھنے والے اپنی اپنی قبر سے اذان اور تلبیہ پڑھتے ہوئے اٹھیں گے۔ (مجمع الزوائد) ایک اور حدیث میں ہے کہ مؤذن شہید کے مرتبہ میں ہیں۔ (ترغیب)
فی الواقع مؤذن حضرات دنیاو آخرت میں قابل تعظیم اور لائق رشک ہیں۔ مؤذن کو اللہ و رسول کی محبوبیت حاصل ہے اور آخرت میں ان کے اعلی مقام اور رتبہ بلند کا مژدہ جانفزا احادیث میں موجود ہے خیرالقرون میں مؤذن کو کما حقہ عزت و احترام حاصل تھااور یہ سراپا قابل رشک تھے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اذان کہنے والے اجر وثواب میں ہم سے بڑھے ہوئے ہیں (کیا کوئی ایسا عمل ہے جس سے ہمیں بھی اذان دینے والی فضیلت حاصل ہو جائے؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہی کلمات اذان کہا کرو جو مؤذن کہتے ہیں پھر جب تم اذان کا جواب دے چکو تو دعا مانگو (جو دعا مانگو گے) و ہ دیا جائے گا۔ (ابو داود) اذان دینے کے شرف و اعزاز سے محرومی پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو افسوس ہوا کرتا تھا ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھے اس پر افسوس ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرات حسنین کے مؤذن بنائے جانے کی درخواست نہیں کی۔ (جمع الفوائد) الغرض خیر القرون میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیبی احادیث کی بنا پراور مؤذنوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعائے مغفرت اللہم اغفرللموذنین کی وجہ سے اسلامی معاشرہ میں مؤذن کو بڑی عزت و عظمت حاصل تھی۔
موجودہ حالات میں مؤذن کا حق: ہمارے ذمہ یہ ہے کہ ان کی دنیاوی ضروریات کا خیال رکھا جائے، ان کی حاجت براری کی جائے اور گاہ بگاہ مالی تعاون کیا جائے۔ اگر بیت المال کا نظام قائم ہو تو خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے معمول کے مطابق وظیفہ دیا جائے چنانچہ علامہ شبلی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’الفاروق‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ (حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے) ہر شہر و قصبہ میں امام و مؤذن مقرر کیے اور بیت المال سے ان کی تنخواہ مقرر کیں۔‘‘ (الفاروق صفحہ نمبر 140) علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت العمرین میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالی عنہ دونوں خلیفہ بیت المال سے ائمہ اور مو ذنین کو وظیفہ دیا کرتے تھے۔‘‘ (الفاروق) اور ا گربیت المال کا نظم قائم نہ ہو تو دیگر ذرائع و وسائل سے حاصل شدہ رقم میں سے ان کی ضرورت پوری کی جائے بلکہ مناسب تو یہ ہے کہ بقدر ضرورت ماہانہ وظیفہ متعین کر دیا جائے تاکہ مؤذن حضرات اوقات نماز کی صحیح معرفت اور صحیح وقت پر اذان دینے کی عظیم ذمہ داری کماحقہٗ انجام دے سکیں۔
ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آجکل بعض حضرات اپنی کوتاہ علمی کی وجہ سے امامت و موذنی اور تعلیم کی اجرت کو نا جائز کہتے ہیں حالانکہ اصحاب فقہ نے حالات کے پیش نظر عبادات پر اجرت لینے کی اجازت دی ہے تاکہ دین باقی رہے اور اس کے ارکان بحسن و خوبی انجام پاتے ر ہیں چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک (مؤذن کے) اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔( نیل الاوطار) اسی طرح امام شافعی کے نزدیک بھی اجرت لینا جائز ہے۔ ( کتاب الام) امام محمد رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اذان، اقامت، تعلیم اور درس و تدریس کی تنخواہ کو جائز قرار دیا ہے۔ (مبسوط) اسی طرح متاخرین علماء احناف نے بھی مذکورہ طبقات کی تنخواہ کو جائز قرار دیا ہے۔ (معارف السنن)
اذان اور مؤذن کے ادائے حقوق دنیا میں خیر و برکت کے باعث ہیں اور آخرت میں فلاح و سعادت کے موجب۔ ان کی بےعزتی اور حق تلفی دنیا میں ذلت اور رسوائی اور آخرت میں ناکامی و نامرادی کا سبب ہیں۔ اذان اور مؤذن کی بےتوقیری اورناقدری کو اکابرین امت نے بہت ناپسند فرمایا ہے چنانچہ حضرت عاصم بن بہدل رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ایک آدمی حضرت زرابن جیش کے پاس اس وقت آیا جب یہ اذان دے رہے تھے، آنے والا شخص ان کے اذان دینے کو ان کے لئے کسرشان سمجھا اور بول پڑا کہ ابو مریم! آپ بھی اذان کہتے ہیں، میں اذان دینے کو آپ کے شایان شان نہیں سمجھتا، حضرت ابومریم ؒ نے اس کو جواب دیا کہ تم مجھے اذان جیسے فضیلت والے عمل سے افضل سمجھتے ہو اوراس سے محروم کرنا چاہتے ہو! میں تم سے اللہ تعالی کی قسم ہرگز بات نہیں کروں گا۔ (جمع الفوائد)
امام اور مؤذن کے ساتھ ہمارارویہ: اس وقت مسلمانوں میں بے شمار سماجی اصلاحات کے ساتھ کرنے کا ایک اہم کام یہ بھی ہے کہ ائمہ اور مؤذنین کے تئیں لوگوں کے دلوں میں احترام اور وقار کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ مساجد کے ذمہ دار اور کمیٹیوں کی جانب سےآج ائمہ اور مؤذنین کی خدمت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہم جہاں مساجد کی تعمیر و تزئین میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں اور ہر محلے، بستی اور شہر کے مسلمان اپنی اپنی استطاعت کے بقدر یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے علاقوں کی مسجدوں میں نمازیوں کو ہر قسم کی سہولت دستیاب ہو، چنانچہ گرمیوں میں اے سی، پنکھوں اور کولر کا انتظام کیا جاتا ہے، بہت ساری مسجدوں میں مخمل اور گدے والے قالین بھی بچھائے جاتے ہیں، ان سب کے ساتھ ساتھ ہمیں اس پر بھی توجہ دینا چاہیے کہ جو شخص ہمیں پانچ وقتوں کی نماز پڑھاتا ہےاورجو ہمیں ان نمازوں کے اوقات کی خبر دیتا ہے، ہر طرح کے موسم اور حالات میں بر وقت اذان دیتا ہے، ان کی تنخواہیں بھی بہتر کی جائیں، آج کا دور اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ لاکھوں کمانے والے لوگ بھی پریشان ہی رہتے ہیں،لیکن کیا مساجد کی تعمیر و تزئین میں لاکھوں کروڑوں خرچ کرنے والے ہم مسلمان اپنے ائمہ مؤذنین کو اتنی تنخواہیں نہیں دے سکتے کہ وہ ایک بہتر اور اطمینان بخش زندگی گزار سکیں؟
اس سلسلے میں مساجد کے متولیان اور ٹرسٹیان کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج خطیر رقم مسجد میں جمعہ دیگر چندوں اور متعدد ذرائع آمدنی کے ذریعہ جمع ہونے کے باوجود ائمہ ومؤذنین کو نہایت قلیل تنخواہیں دی جاتی ہیں۔بعض ذمہ داران اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ تنخواہ کم دے کر ہم مسجد کا پیسہ بچا رہے ہیں، جب کہ یہ حضرات سخت غلطی پر ہیں، اس طرح وہ ان حضرات کا استحصال کر کے مسجد کا پیسہ نہیں بچا رہے ہیں بلکہ اپنے لیے آخرت کی مصیبت مول لے رہے ہیں،ا ن حضرات کو احمقوں کی جنت سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ چندہ دہندگان چندہ مسجد کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے دیتے ہیں جن میں سرفہرست امام ومؤذن کی تنخواہ ہوتی ہے کہ امام مؤذن کی تنخواہ بہتر سے بہتر ہو، چنانچہ ان رقومات پر ذمہ داران کا ناگ بن کر بیٹھ جانا اور غیر معقول تنخواہ دیناقطعا نا جائز ہے ایسے لوگوں کو یہ روش ترک کرناضروری ہے۔
ہم اور آپ ذرااپنا موازنہ تو کریں کہ ایک مزدور بھی کم از کم دس ہزار پندرہ ہزار ماہانہ کما لیتا ہے، جب کہ دین متین کی حفاظت اس کی ترویج و اشاعت اور امت کی آخرت سنور جائے اس کی کوشش میں اپنے بچپن اور جوانی کے ایام جھونک دینے والے ان سعادت مند نفوس کے ساتھ امت کا کیا سلوک ہے؟ مساجد کے ذمہ داران،متولیان،وٹرسٹیان نےآج ائمہ ومؤذنین کو مزدور کے مقام سے بھی نیچے لا کھڑاکر دیا ہے۔موجودہ وقت میں اپنے معاشرے کے ائمہ و مؤذنین کی صورتحال اور ان کے ساتھ عوام خواص کارویہ نہایت افسوسناک اور تکلیف دہ ہے۔ خود مسلمان اور ان کا باشعور سمجھا جانے والا طبقہ بھی امام مؤذن کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ حالانکہ پانچ وقتوں اور عیدین کی نماز کے علاوہ بھی پیدائش سے لے کر موت تک ہم ایک امام کے محتاج ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے کہ جیسا کہ وہ معاشرے کے لیے کوئی بوجھ ہوں۔ ہمارا یہ عمل خود ہماری بدبختی اور اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ اور اس سے خود ہمیں ہی دنیا اور آخرت کا خسارہ ہو گا۔
مساجد مذہب و ملت کے ایسے عظیم الشان قلعے ہیں جن کے ذریعے ہمیشہ اسلام اور مسلمان دونوں کی حفاظت کی جاتی رہی ہے اور ان قلعوں کی پاسبانی کرنے والےہمیشہ یہی علماء وحفاظ ر ہے ہیں لیکن مساجدو مدارس کے ذمہ دران کی اپنے ساتھ غلط رویوں کی وجہ سے آج مدارس سے فارغ التحصیل باصلاحیت ان کے لڑکے مساجد و مدارس میں خدمات انجام دینے کے بجائے کالج اور یونیورسٹیوں کا رخ کرنے لگے ہیں، یہاں تک کہ اب علماء کرام کی ایک بڑی تعداد معاشی پریشانیوں سے تنگ آکر اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلانے کے بجائے عصری تعلیم دلارہی ہے کہ جس طرح سے ہم تمام عمر معاشی تنگی کا شکار رہے ہیں، ویسے کم از کم ہمارے بچے نہ ہو ں۔ اللہ تعالی ہم سب کو ان نفوس قدسیہ کی قدر دانی، بقدر استطاعت ان کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کرنے کی توفیق عطافرمائے اور مسلمانوں کے دلوں میں اس تعلق سے جو جمود اور بے حسی پیدا ہوگئی ہے اسے دور فرمائے۔اللہ ہم تمام اہل ایمان کو ائمہ اور مؤذنین کی صحیح قدر کرنے والا اور ان کے حقوق اداکرنے والاسچاا ور مخلص مسلمان بنائے۔ آمین۔
Comments are closed.