Baseerat Online News Portal

بدلے گی کیسے صورت حالات خودبخود؟

محمدجمیل اختر جلیلی ندوی

مومن کی فراست بہت مشہورچیز ہے؛ حتی کہ حدیث میں کہاگیاہے: ’’مومن کی فراست سے ڈرو؛ کیوں کہ وہ اللہ کے نورسے دیکھتاہے‘‘، اب سوال یہ ہے کہ فراست کسے کہتے ہیں؟ فراست دراصل کسی کے رنگ ڈھنگ کودیکھ کرکسی بات کے پتہ لگا لینے کوکہتے ہیں، ظاہرہے کہ یہ چیز ہرانسان کے اندرایک جیسی نہیں ہوتی؛ بل کہ اشخاص ، احوال، قوت قلب، پاکیزگی دل، قوت ایمان اورضعف ایمان کے لحاظ سے یہ مختلف ہوتی ہے؛ کیوں کہ اس کابراہ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے، لہٰذا جس قدرتعلق اس سے مضبوط ہوگا، یہ صفت اسی مقدارمیں کسی کے اندرپائی جائے گی۔

مولانامونگیری کی فراست ایمانی کے تعلق سے ایک واقعہ نقل کیاجاتاہے کہ ایک مرتبہ گاندھی جی ان سے ملنے مونگیرگئے، انھوں نے پیغمبراسلام اورقرآن کی تعریف کی، مولانا خاموشی سے سنتے رہے، جب گاندھی جی اپنی بات کہہ چکے تومولانانے کہا: مجھے آپ اسلام کی وہ باتیں بتائیں، جوآپ کوپسند نہیں آئیں اورپیغمبرکے اس پہلوسے آگاہ کیجئے، جسے آپ نے اچھا نہیں سمجھا، انھوں نے کہا: ایساتوکوئی پہلومیری نظرمیں نہیں آیا، اس پرمولانانے کہا: پھرآپ نے ابھی تک اسلام قبول کیوں نہیں کیا؟ گاندھی جی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، مولانانے خفگی کے ساتھ فرمایا: آپ نے جوکہا، وہ غلط ہے، آپ ہمیں صرف پھانسناچاہتے ہیں، صیاد بھی پرندوں کو پکڑنے کے لئے انہیں کی بولیاں بولتاہے۔

مولانامونگیری بہت قدیم زمانہ کے نہیں ہیں، ۱۹۲۷ء میں ان کی وفات ہوئی ہے، یعنی ابھی ان کے گزرے مکمل ایک صدی بھی نہیں ہوئی ہے، اب ہم صرف ان کے اس واقعہ کونقل کرتے ہیں، پڑھتے ہیں اورخوش ہوتے ہیں؛ لیکن جب ہم اپنے کودیکھتے ہیں اوراپنے زمانہ کے راہنماؤں کودیکھتے ہیں اورملک کے حالات کودیکھتے ہیں تواس فراست سے کافی دورپاتے ہیں، پھریہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس فراست میں کمی آج کی پیداوارنہیں ہے؛ بل کہ اس کی جڑیں پچاس سال پہلے تک گڑی ہوئی ہیں، اس کامطلب ہرگزیہ نہیں کہ تمام مسلمان ہی فراست سے خالی ہوگئے یاخالی ہیں؛ لیکن اکثریت اس سے محروم ہے؛ بل کہ اگریہ کہاجائے توبے جانہ ہوگاکہ آج فراست کی جگہ مصلحت نے لے لی ہے اوریہی وہ چیز ہے، جس کی وجہ سے ہماری یہ درگت بنی ہوئی ہے، مصلحت یقینا ایک بڑی چیز ہے اوراس سے کام بھی لیاجاتاہے ؛ لیکن ہرہرچیزمیں مصلحت، جہاں اس کی ضرورت نہیں، وہاں بھی مصلحت، یہ اچھی چیز نہیں ہے، اس کی وجہ سے جوقومی نقصان ہواہے، اس کی تلافی ممکن نہیں۔

ملک کی آزادی کے وقت دوطرح کے نظریات سامنے آئے، جس کی وجہ سے ملک کی تقسیم عمل میں آئی؛ لیکن بہرحال آزادی کی فضا ہمیں نصیب ہوئی، آزادی کے فوراً بعد اس میں توضرور مصلحت تھی کہ قومی سطح پرخالص مسلمانوں کی سیاسی جماعت نہیں ہونی چاہئے، ورنہ مزید فسادات کے اندیشے تھے؛ لیکن جب امن ہوگیا اورشانتی مل گئی توپھراس میں مصلحت تھی کہ اپنی سیاسی جماعت بنالی جائے؛ لیکن یہ اسی وقت ہوتا، جب فراست کی آنکھ سے آج کے حالات کودیکھ لیاجاتا؛ لیکن ایسانہیں ہوا، جن کے اندر قوت فراست تھی، انھوں نے سیاست میں قدم رکھنے کودرست نہیں سمجھا اورجنھوں نے اس کی ضرورت کومحسوس کیا اورسیاست میں انھوں نے قدم اتارے، انہیں اپنوں ہی کی سننی پڑی۔

یہ توہمیں ازبریاد تھا کہ’’جدا ہودیں سیاست سے تورہ جاتی ہے چنگیزی‘‘؛ لیکن پھربھی ہم نے اسی میں مصلحت سمجھاکہ ایک پارٹی کی دم کوہی پکڑ کرآگے بڑھتے رہیں، دوسری پارٹی کی طرف ذرابھی توجہ نہیں دیناہے، حالاں کہ ہونایہ چاہئے تھا کہ اگراپنی پارٹی نہیں وجود میں لاسکتے تھے توبقدرضرورت ہرپارٹی سے تعلق بنائے رکھتے، کبھی اِس کوجیت دلاتے اورکبھی اُس کو، اس طرح بیلنس برابر رہتا؛ لیکن افسوس ! ایسانہیں ہوا، آج ہمیں اسی کاخمیازہ بھگتنا پڑرہاہے؛ لیکن اس کے باوجود آج بھی ہماری حالت وہی ہے، ہماری ایک بڑی تعداد اس کی دم کوچھوڑنے کے لئے تیارنہیں، اس پرجتنا افسوس کیاجائے کم ہے۔

آج تومسلمانوں کی اکثریت دین بیزار ہے، نہ اعمال ہمارے اسلام کے مطابق ہیں، ظاہرہے کہ ایسے میں توفراست ایمانی آنے سے رہی، ایک بزرگ ہیں شاہ کرمانی، انھوں نے لکھاہے کہ ’’نظرکی حفاظت، نفسانی خواہشات سے دوری، باطنی مراقبہ، اتباع سنت اوراکل حلال کی وجہ سے فراست آتی ہے‘‘ ، اب دیکھئے اوراپنا جائزہ لیجئے، اگرایک میں ٹھیک ہیں تودوسرے میں کوتاہ ، ایک عمل درست ہے تودوسرا عمل بودا، ایسے میں فراست آنے سے رہی کہ یہ اللہ کانورہے، جوہرایک کو نصیب نہیں ہوتا، نصیب اسے ہوتا ہے، جواللہ سے تعلق قائم کرتاہے، جب کہ آج ہماری اکثریت اللہ کی بجائے بندہ سے رابطہ استوارکرنےمیں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہماری توجہ اصل چیز کی طرف نہیں ہے۔

اب اس وقت کے حالات کودیکھئے، کیا ہماری ایک بڑی تعدادایسی نہیں ہے، جواس چیز کوشیئرکرنافرض عین سمجھتی ہے، جس میں کسی غیرکی طرف سے اسلام یا پیغمبر کی تعریف ذرابھی ہو؟ کیاایسے لوگوں کوہم دعوت اسٹیج نہیں دیتے رہتے ہیں، جن کی زبان سے اسلام اوراہل اسلام کے سلسلہ میں کچھ پھول جھڑتے ہوں؟ لیکن کیاکبھی ان سے یہ سوال کیا کہ پھرآپ اسلام میں داخل کیوں نہیں ہوجاتے؟ جب اس کے اندرخرابی نہیں ہے توپھرعقل مندی کاتقاضا کیاہے؟ یہ سوال ہم نہیں کرتے، کیوں کہ ہمارے اعتقاد ’’ڈوبتے کوتنکے کے سہارے‘‘ پرہے، مولانامونگیری کی طرح ہم کہاں کہ سوال کرسکیں؟

اس وقت ملک کے اندررونی حالات کشیدہ ہیں، ایسے میں ہمارا فرض کیاتھا؟ کیا یہ فرض نہیں تھاکہ ان حالات سے مسلمانوں کوآگاہ کریں؟ اوران کے تعلق سے انھیں کیاکرناچاہئے، اس کی طرف رہنمائی کریں؟ لیکن ہم کرکیارہے ہیں؟ بعض لوگ ایسے وقت میں تعلیمی بیداری کانفرنسیں کررہے ہیں، وہ بھی اس وقت، جب کے اسکولس اورمدارس بند پڑے ہیں، بعض لوگ اصلاح معاشرہ کاپروگرام منعقد کررہے ہیں، یہ واقعی ضروری ہے؛ لیکن کیااس وقت اس سے زیادہ کچھ اورضروری نہیں ہے؟ کسان آندولن چل رہاہے اوربات گردش میں ہے کہ اگریہ آندولن ناکام ہوجاتاہے توشاید برسراقتدارپارٹی کے رہتے اورکوئی آندولن نہیں ہوسکے گا، اسی کے ضمن میں سی اے اے اوراین آرسی کی تلوارابھی تک لٹکی ہوئی ہے اوربنگال میں خصوصیت کے ساتھ اس کی دہائی دی جارہی ہے، کیاایسے وقت میں حالات حاضرہ سے باخبرکرنااورقوم کی رہنمائی سے زیادہ اصلاح معاشرہ پر کانفرنسیں کرنے کی ضرورت ہے؟ بعض لوگ مشاعرے منعقد کررہے ہیں اورلذت کام ودہن کاسامان فراہم کررہے ہیں، کیاملک کے موجودہ حالات اس کی اجازت دیتے ہیں؟ ہرچیز کاایک وقت ہوتاہے اوروقت پراگرکام کیاجائے توپھراس کانتیجہ درست آتا ہے، سی اے اے کے تعلق سے بات کیجئے، راجیہ سبھا میں پیش ہونے سے پہلے وہ احتجاج منعقد نہیں کئے گئے، جوہونے چاہئے تھے، اس وقت صرف بل تھا، ایکٹ نہیں بناتھا؛ لیکن اس وقت ہم بھروسہ کرکے بیٹھ گئے، بل کوکالعدم کرنااتنامشکل کام نہیں تھا، جتناایکٹ کوختم کرنامشکل کام ہے، پھر ہوا کیا؟ جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوادے گئے، کچھ واک آؤٹ کرگئے، کچھ حاضر ہی نہیں ہوئے، نتیجہ وہی ہوا، جوہوناتھا۔

آج کے ملکی حالات یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم حالات حاضرہ پرتقریں کریں، صحیح حالات سے لوگوں کوباخبر کریں، لوگ حالات کی سنگینی سے بے خبر ہیں، اسی لئے دادعیش دے رہے ہیں، قوم کوایسے وقت میں جس رہنمائی کی ضرورت ہے، اس کی رہنمائی ہم نہیں کررہے ہیں، کیایہ فراست ہے کہ ملک کے رنگ ڈھنگ دیکھ کربھی اندازہ نہیں لگاپارہے ہیں اورحالات کے خلاف مورچہ نہیں سنبھال رہے ہیں؟ کیا یہ مصلحت ہے کہ ہم مشاعرے، تعلیمی بیداری کانفرنسیں اوراصلاح معاشرہ کے پروگرام اس وقت کریں؟ یقیناان کے لئے یہ صحیح وقت نہیں ہے، ہمیں حالات کے رخ کوسمجھ کرفیصلہ کرناچاہئے کہ کیاکرناہے؟ ایسے وقت میں ہمیں فہم وفراست اورعقل ودانش سے کام لیناچاہئے، ورنہ حالات نہیں بدلیں گے:

جب تک نہ لیں گے فہم وفراست سے کام ہم

بدلے گی کیسے صورت حالات خودبخود؟

Comments are closed.