"خواتین کا عالمی دن” خواتین اسلام کی نظر میں
اسلام نے عمل اور اجر میں مرد و عورت کو مساوی کیا ہے. چنانچہ قرآن پاک میں واضح کردیا گیا کہ"مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور (دونوں ) اللہ سے اس کا فضل مانگو" (سورۃ النساء 32 )

انیلا بتول اعوان (سیال کوٹ)
8 مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے. غور کریں تو بہت سے سوالات سر اٹھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ آیا اس دن کو کیوں منایا جاتا ہے؟ اس دن کو منانے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ اور اس دن کو منانے کے پیچھے کون سے حقائق پوشیدہ ہیں جن کی بنا پر اس دن کو خواتین کے دن سے منسوب کر دیا گیا ہے؟ اگر اس دن کے حوالے سے تاریخی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 8 مارچ 1907ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں 10 گھنٹے روزانہ کام کرنے والی خواتین نے اوقات کار کم کرنے کے لیے مظاہرہ کیا تھا۔ ان خواتین کا مطالبہ تھا کہ انھیں مردوں کے برابر حقوق دیئے جائیں۔ پولیس نے ان خواتین پر تشدد کیا۔ مظاہرہ کرنے والی خواتین کے خلاف گھڑسوار دستوں کو استعمال کیا گیا۔ نیویارک پولیس نے مظاہرہ کرنے والی خواتین کو گرفتار کر لیا۔
اس واقعے کے بعد یورپی ممالک میں ہر سال عالمی کانفرنس برائے خواتین کا انعقاد ہونے لگا۔ سب سے پہلے 1909ء میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکا نے عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظورکی۔ 1913ء تک ہر سال فروری کے آخری اتوارکو عورتوں کا دن منایا جاتا تھا۔ پھر 1913ء میں پہلی دفعہ روس میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین نے سرکاری طور پر 8 مارچ کو خواتین کا قومی دن قرار دیا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ ریاست کی ذمے داری ہے مگر خواتین دوہرے استحصال کا شکار ہیں۔ پاکستان کے بیشتر خاندانوں میں خواتین کی حیثیت ثانوی ہے۔ اس روایت پر ریاستی اداروں اور غیر ریاستی اداروں میں یکساں طور پر عمل ہوتا ہے۔ اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے حقوق کا تحفظ تقریباً چودہ سو سال پہلے کیا. اسلام نے عورت کو مقام و مرتبہ عطا فرمایا. ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت رکھ دی. بیٹی ہے تو اس کا اپنا مقام اور بیوی ہے تو اس کا الگ مقام رکھا. بہن ہے تو اس کو الگ مقام عطا کیا. جس دور میں عورت کو نفرت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور بیٹی کی پیدائش پر افسوس کا اظہار کیا جاتا تھا بلکہ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ ایسے دور میں اسلام کی آفاقی تعلیمات عورت کے عزت و مقام کا پرچار کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں. بلکہ اس کے ساتھ عورت کے حقوق کا تحفظ بھی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں. اسلام نے عمل اور اجر میں مرد و عورت کو مساوی کیا ہے. چنانچہ قرآن پاک میں واضح کردیا گیا کہ”مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور (دونوں ) اللہ سے اس کا فضل مانگو” (سورۃ النساء 32 )
عورت کے حقوق کے حوالے سے متعدد آیات اور احادیث ملتی ہیں. جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ "عورتوں کےمعاملے میں ﷲ سے ڈرو” (الحدیث)
اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو ہر حقوق عطا کیا. اسلام نے عورت کو ذلت و پستی سے نکال کر شرف انسانیت بخشا. لیکن ہماری آج کی مسلم خواتین نہ جانے کس روش پر چل نکلی ہیں.! اسلام نے تمام حقوق عطا کیے ہیں یہاں تک کہ جائیداد میں بھی حصہ رکھ دیا. مگر آج کی خواتین پھر اپنا حق مانگنے کے لیے مغرب کے دکھائے گئے راستوں پر چل رہی ہیں. اور یہ حق وہی خواتین مانگنے کے لیے سڑکوں پر نکل آتی ہیں جو پہلے سے خود مختار ہیں. جن کو انصاف یا حق چاہیے وہ تو آج بھی سفید پوش بنی گھر والوں کی عزت کی خاطر ہر ظلم سہہ جاتی ہے اور کوئی اولاد کی خاطر خاموش ہے.
آج کی عورت کو اپنے "عورت ” ہونے کا مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے. عورت کا مطلب پردہ ہے. مگر عورت وہ آزادی چاہ رہی ہے جو ہمارے اسلام میں نہیں ہے. اسلام نے عورت کو تمام تر حقوق عطا کیے ہیں. اس کو ضرورت کے وقت گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کی اجازت دی ہے. عورتیں تمام شعبہ ہائے زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں اور کرتی آ رہی ہیں. اگر اسلام میں دیکھا جائے تو غزوات میں بھی خواتین شامل تھیں. مگر ہماری آج کی عورت مرد کی برابری چاہتی ہے جب کہ قرآن مجید میں ﷲپاک نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ ” اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور ﷲتعالی غالب اور حکمت والا ہے.” (سورہ البقرہ آیت 228)
اگر دیکھا جائے تو ہماری آج کی عورت تربیت چھوڑ کر کفالت کے پیچھے بھاگ رہی ہے.
کفالت سے صرف گھر بنتا ہے. جب کہ تربیت عورت کو امن کی جگہ پر ٹھہرا کر سنوارتی، سجاتی اور قائم رکھتی ہے. ہماری آج کی عورت مرد کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے کہ اگر مرد نے چار قدم اٹھائے ہیں تو عورت کو پانچ اٹھانے پڑتے ہیں. لیکن عورتیں مقابلے کی زد میں آ کر چار کے مقابلے میں چار اٹھانے کی کوشش میں اپنی حسن کھو بیٹھے گی. احساس، محبت، شائستگی، حیا، ممتا، نزاکت، یہی تو زن کا حسن ہے. مرد و زن سائیکل کے دو پہیوں کی طرح ہوتے ہیں. آگے پیچھے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے. اگر پچھلا پہیہ آگے والے سے مقابلہ شروع کر دے تو سائیکل تو ٹوٹ جائے گی نا. محافظ ہی آگے چلتے ہیں، محبوب نہیں. عورت محبوب اور مرد اس کا محافظ ہے. لیکن آج کی خواتین آزادی کے نام پر بے بہود قسم کے پوسٹرز بنا کر اور "میرا جسم میری مرضی” جیسے نعرے لگا کر مرد کی غیرت کو للکار رہی ہیں.
آج کی عورت ہر مرد کو ہرانا چاہتی ہے جب کہ ﷲ پاک نے تمام جانداروں کو جوڑوں میں پیداکیا. انسان کے علاوہ کوئی جاندار اپنے ساتھی سے مقابلہ نہیں کرتا ہے. ہمارے ہاں مرد و زن نے آپس میں ہی مقابلہ شروع کر رکھا ہے. ہر کوئی انا کا مسئلہ بنا کر چلنا چاہتا ہے. مرد اور عورت مل کر معاشرہ بناتے ہیں، دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے لہذا دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق دینے پڑیں گے۔
Comments are closed.