وقف معانقہ (قرآن مجید میں موجود ایک علامت کی وضاحت)

مرتب: قاری محمد حنیف ٹنکاروی
(استاذ شعبۂ تجوید و قرأت: دارالعلوم ہدایت الاسلام، عالی پور، گجرات)
کسی بھی کلام میں دوران گفتگو وقف بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ وقف کے غلط ہونے سے معنی و مفہوم میں غلطی واقع ہو کر منشا و مقصد کبھی تبدیل ہوجاتا ہے تو کبھی ختم ہو جاتا ہے۔ جب کہ قرآن مجید تو کلام اللہ ہے اس میں تو بہت زیادہ اہتمام ہونا چاہیے۔
اسی لیے قاری و مقری کے لئے علوم خمسہ (تجوید، قراءات، وقف، رسم، عد الآی) میں رسوخ پیدا کرنا ضروری ہے۔
اسی لیے امام الفن قاری و مقری جناب محب الدین صاحب رحمہ اللہ نے بڑے درد سے فرمایا تھا کہ موجودہ زمانے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو قرآن کریم کو تجوید کے ساتھ بہت عمدہ پڑھتے ہیں مگر جس وقت اوقاف میں غلطی کرتے ہیں تو سن کر بڑی کُلفت ہوتی ہے۔ اسی لیے قاری صاحب رحمہ اللہ نے ایک رسالہ بنام ”جامع الوقف“ تحریر فرمایا جو آج بھی مدارس میں داخل نصاب ہے اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
امت کی سہولت کے لیے اسلاف نے قرآن مجید میں جگہ جگہ وقف کی علامتیں وضع فرمائیں۔ ان میں سے ایک وقف معانقہ ہے ۔ معانقہ کی علامت تین تین نقطے ( ۚۛ ) ہیں۔
معانقہ کے لغوی معنی گلے لگنا۔ اصطلاح میں جب کسی آیت میں قریب قریب دو مساوی الحیثیت وقف جمع ہو جائیں تو اس کو وقف معانقہ کہتے ہیں اس کا حکم یہ ہے کہ یہ علامت جہاں کہیں آئے تو دونوں میں سے کسی ایک جگہ وقف اور دوسری جگہ وصل کرنا ضروری ہے دونوں جگہ، وقف اسی طرح دونوں جگہ وصل مناسب نہیں ہے۔ ورنہ درمیان والا کلمہ بے ربط ہو جائےگا۔ جیسا کہ سورہ بقرہ کی شروع میں آیت:
ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ میں فیہ کا تعلق ”ریب“ سے بھی ہے اور ”ھدی“ سے بھی ہے۔ تو اب دونوں میں سے یا تو ”ریب“ پر وقف اور ”فیہ“ کو ملا کر پڑھیں یا بر عکس پڑھیں۔
علامہ جزری رحمہ اللہ ”النشر“ میں فرماتے ہیں کہ: ”قرآن مجید میں وقف معانقہ کی علامت سب سے پہلے امام جلیل حضرت ابو الفضل رازی رحمہ اللہ نے لگائی ہے۔ اس کو وقف مراقبہ بھی کہا جاتا ہے چناں چہ عرب حضرات آج بھی مراقبہ سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ معانقہ میں ”ن“ اور ”ق“ سے نقطہ لے کر اس کی علامت تین تین نقطے قائم فرمائی ہے۔ مکمل قرآن مجید میں کل ملا کر علی اختلاف الاقوال ٣٤ جگہیں بیان فرمائی ہیں۔ بعض نے ٣٥ مواقع اور صاحب ”الاہتدا فی الوقف والابتداء“ نے وقف معانقہ کے ٣٩ مواقع ذکر کیے ہیں۔
تمام مواقع آیتوں کی تعیین کے ساتھ کتابوں میں درج ہیں ۔تفہیم الوقوف نامی کتاب میں بھی صفحہ ٢٥١ سے تمام مواقع کو ذکر کیا گیا ہے۔
امام ابو الفضل رازیؒ فرماتے ہیں: کہ میں نے یہ نام معانقہ ”علم عروض(اوزان) کی اصطلاح مراقبہ“ سے اخذ کیا ہے، شعر میں اوزان ہوتے ہیں، اسی علم عروض کی اصطلاح مراقبہ کے معنی ہوتے ہیں ”دو خفیف سبب ایک ساتھ آ جائے تو ان میں سے کسی ایک کا اسقاط ضروری ہے۔“
یہاں فن تجوید میں دو خفیف سببوں سے مراد دو وقف ہیں۔
امام ابو الفضل رازی رحمہ اللہ کے حالات زندگی
اسم گرامی: عبد الرحمن ابن محدث احمد بن حسن بن بُندار پیدائش ٣٧١ ھ آپ مقری ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایا محدث تھے ۔آپ ابن مجاہدؒ کے مایۂ ناز شاگرد ابو عبد اللہ المجاہدی کے شاگر ہیں اور آپ نے علی بن داؤد دارانی سے ابن عامر شامی کی قرآت حاصل کی اور مختلف علاقوں میں مختلف شیوخ سے پڑھا۔ شیخ مستغفری فرماتے ہیں کہ: امام ابو الفضل رازی کے بے شمار تلامذہ ہیں ان میں سے ایک قابل ذکر ابوبکر خطیب بغدادی ہیں۔ ابو الفضل رازی ثقہ تھے، زیادہ تنہا سفر کرنے والے تھے اور قراءات کے ائمہ میں ان کا شمار رہا ہے اور ہمیشہ تنہا عبادت کے عادی تھے؛ بلکہ ویران مساجد میں قیام فرماتے تھے کسی سے کوئی چیز لیتے نہیں تھے۔ یحییٰ بن مَندہ فرماتے ہیں: بہت سے لوگوں نے آپ سے ایک مدت تک قرآن مجید پڑھا پھر آپ کَرْمان کے علاقہ میں منتقل ہو گئے اور وہاں حدیث کا درس ایک مدت تک دیا اور اَوشیر نامی شہر میں ٤٥٤ھ جمادی الاولی میں وفات پا گئے۔
شیخ خلال فرماتے ہیں کہ: جب امام ابو الفضل ہمارے پاس سے کَرْمان جانے لگے تو لوگوں کی ایک جماعت رخصت کرنے کے لیے پیچھے پیچھے چلنے لگی امام ابو الفضل نے سب کو ڈانٹ کر ہٹا دیا اور یہ شعر پڑھا
اذا نحن أدْلَجْنَا وأنتَ أمامنَا
كفي لمطايانا بذكراك حاديا
اور خلال فرماتے ہیں کہ: یہ اشعار بھی آپ گنگناتے رہتے تھے:-
یا موت ما اجفاک من زائر
تنزِلُ بالمرء علی رغمه
وتأخذ العذراء من خدرھا
وتأخذ الواحد من أمه
یعنی: اے موت! تو کتنا سنگ دل مہمان ہے کہ انسان کے نہ چاہتے ہوئے بھی تو اس کے پاس آ جاتا ہے۔
اور پاک دامن کنواری لڑکی کو اس کے پردے سے کھینچ لیتا ہے
اور اکلوتے بیٹے کو اس کی ماں سے چھین لیتا ہے۔
——————–
مصادر و مراجع
النشر
رسالہ وقف التجاذب (المعانقۃ)
جامع الوقف
توضیح الوقف
معلم الاداء فی الوقف والابتداء
تفہیم الوقوف
کامل الوقف
سیر اعلام النبلاء ج: ١٣
Comments are closed.