حاطب ابن ابی بلتعہ کا واقعہ اور سبق

محمد صابر حسین ندوی

رسول اللہ ﷺ کے ایک مخلص صحابی حضرت حاطب ابن بلتعہ رضی اللہ عنہ تھے، جو غزوۂ بدر میں شرکت کرنے والوں میں سے تھے، وہ اصل میں یمن کے رہنے والے تھے، مکہ میں ان کا اپنا خاندان بھی تھا؛ لیکن حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے حلیف تھے اور ان کے خاندان بنو اسد بن عبد العزیٰ کی پناہ میں تھے، آپ ﷺ کے نبی بنائے جانے کے بعد ایمان لائے اور مدینہ ہجرت فرمائی، ہجرت کے آٹھویں سال جب اہل مکہ نے حدیبیہ میں ہونے والی صلح کو توڑ دیا تو آپ ﷺ اہل مکہ کے خلاف فوجی کارروائی کی تیاری کررہے تھے اور چاہتے تھے کہ مکہ والوں کو اس کی خبر نہ ہو؛ تاکہ آپ ﷺ اچانک مکہ پہنچیں، مناسب جنگی تیاری نہ ہونے کی بناپر اہل مکہ ہتھیار ڈال دیں اور حرم شریف میں خون خرابہ کی نوبت نہ آئے، اسی زمانے میں سارہ نامی ایک خاتون مکے سے مدینے پہنچیں، جو اصل میں گانا بجانا کیا کرتی تھیں اور اپنی غربت و محتاجی کے وجہ سے آپ ﷺ سے مدد کی طلب گار ہوئیں؛ حالاں کہ وہ مسلمان نہیں ہوئی تھیں اور نہ ہجرت کی نیت سے آئی تھیں، پھر بھی آپ ﷺ کی رحم دل طبیعت نے دشمنوں کی طرف سے آئی ہوئی ایک خاتون کے ساتھ بے مروتی کی اجازت نہیں دی اور آپ ﷺ نے اپنے لوگوں سے ان کی مدد کرائی، مکہ کے بیشتر مہاجرین کے کچھ نہ کچھ رشتہ دار مکہ میں موجود تھے اور انہیں اپنے اپنے خاندان کی حفاظت حاصل تھی؛ لیکن حضرت حاطب رضی اللہ عنہ چوں کہ اصل میں مکہ کے رہنے والے نہیں تھے؛ اس لئے بظاہر آپ ﷺ کے کنبے کے لوگوں کو وہاں کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا، انہیں خیال پیدا ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ جب مسلمان مکہ پر حملہ کریں تو اہل مکہ انتقامی کارروائی کے طور پر ان لوگوں کو نشانہ بنائیں، جن کے رشتہ دار مسلمان ہوچکے تھے تو اور لوگ تو شاید بچ جائیں؛ لیکن میرے خاندان کو تو کسی طرف سے کوئی تحفظ ہی حاصل نہیں ہوپائے گا؛ اس لئے انہوں نے سارہ کو دس دینار والی چادر دی اور اس کے ساتھ ایک خط دیا کہ یہ اہل مکہ کو پہنچادو اور خط میں لکھا کہ ”رسول اللہ ﷺ تمہارے پاس ایک ایسی فوج کے ساتھ آرہے ہیں، جو گویا ایک رات کی طرح ہے، یعنی بہت بڑی فوج، جو پانی کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مار رہی ہے اور میں تمہیں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر آپ تنہا بھی مکہ آجائیں، تب بھی اللہ آپ ﷺ کو تم لوگوں کے مقابلہ میں فتح عطا فرمائیں گے اور تم پر فتح پانے کا وعدہ پورا کردیں گے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے دوست اور مددگار ہیں“ بعض روایتوں میں یہ اضافہ ہے کہ: ’لہٰذا تم اپنے بچاؤ کا انتظام کرلو؛ مگر اس خط کی خبر آپ کو وحی کے ذریعے بتادی گئی، اور آپ نے خاتون کو مکہ پہنچنے سے پہلے ہی پکڑنے اور خط واپس لینے کے لئے ایک چھوٹا دستہ روانہ کردیا، بالآخر جب قاصد رسول اللہ کے پاس پہنچے اور خط کھولا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کا سر قلم کردوں، حضور ﷺ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور ان سے دریافت کیا، انہوں نے عرض کیا: میں جیسے پہلے مسلمان تھا، اب بھی مسلمان ہوں، میں نہ کافر تھا اور نہ مرتد ہوا ہوں، مسلمان ہونے کے بعد کفر پر راضی ہونے کا سوال ہی نہیں؛ البتہ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ لوگوں کا تعلق خود مکہ سے ہے اور مہاجرین کے کنبہ کے لوگ وہاں موجود ہیں، اگر ان کے قرابت داروں پر کوئی آفت آئی تو وہ ان کو بچالیں گے؛ لیکن میرے کچھ قرابت دار وہاں ہیں، ان کو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا تو ہم نے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے جس فتح کا وعدہ فرمایا ہے، وہ تو بہر حال آپ کو حاصل ہوکر رہے گی؛ لیکن میرے اس عمل کی وجہ سے میرے کنبہ کے لوگوں کو تحفظ حاصل ہوجائے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حاطب نے سچ کہا ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’حاطب بدر میں شریک رہے ہیں اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا: اب تم جو بھی چاہو عمل کرو ، میں نے تم لوگوں کو معاف کردیا‘۔ ( خلاصہ از : صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل اہل بدر الخ : ۲۴۹۴، تفسیر قرطبی: ۱۸؍ ۵۰۵۱، آسان تفسير قرآن مجید)۔
اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد نگاہیں کھل جانی چاہئیں، دل میں کوئی شبہ اور بے جا اشکالات نہ ہوں، ایک مؤمن کے حق میں الزام تراشی، جھوٹ، پروپیگنڈہ اور طوفان بدتمیزی سے پرہیز کرنا چاہیے، اکثر و بیشتر جو آنکھیں دیکھتی ہیں وہ نہیں ہوتا، دن کے اجالے میں بھی آنکھوں کی تاریکی قائم رہتی ہے، تصویر کا ہر رخ دکھائی نہیں دیتا، معاملہ فہمی میں سطحیت، تجزیہ نگاری میں نقص اور ماحول شناسی میں کمی کی وجہ سے بہت سی خامیاں پیدا ہوجاتی ہیں، جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا، انسان بھلے ہی سب کچھ دیکھتا ہے؛ لیکن بسااوقات دل کی نگاہیں بند ہونے کی وجہ سے وہ عصبیت و تشدد اور کبھی کبھی نفرت کی وجہ سے حق نہیں دیکھ پاتا، یا پھر اپنے خاص خول میں بند رہنے اور سماجی و علمی روابط سے دوری کی بنا پر بھی واقعہ کی نزاکت سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، عصر حاضر میں ایسے بہت سے مسلمان ہیں، جن کی خدمات، دین کیلئے قربانیاں اور معاشرہ و ملت کیلئے جاں فشانیاں مشہور ہیں، جنہوں نے جوانی سے لیکر اخیر عمر تک دین کیلئے خود کو وقف کردیا، وہ راہ حق کے سپاہی رہے، باطل کیلئے تلوار بنے رہے، بہت سوں نے علمی میدان میں بڑا عظیم کارنامہ کیا، ان کی علمی کاوشیں قابل قدر ہیں، ایک نسل ان سے استفادہ کر رہی ہیں، جدید دور میں مشعل راہ کا کام دے رہی ہیں، وہ بھی ہیں جو ملت کیلئے عملی میدان میں اور رفاہی کاموں میں یوں لگے رہے کہ سب کچھ بھلا دیا، رات دن ایک کردیا کہ لوگوں کو راحت پہنچے، انہیں دین وملت اور دنیاوی فوائد بھی نصیب ہوں؛ لیکن عجیب بات ہے کہ اگر کبھی ایک کام بھی یا غلط فہمی بھی عام ہوجاتی ہے تو ان کی شخصیت کو مجروح کر دیا جاتا ہے، انہیں ایسے فراموش کیا جاتا ہے گویا وہ کبھی کچھ تھے ہی نہیں اور امت کیلئے وہ نافع بھی نہ بنے، علم کا جواب علم اور کام کا جواب کام سے دینے کے بجائے الزام تراشی، چھینٹا کشی اور بہتان تراشی کرتے ہیں، یہ رویہ درست نہیں ہے، بلکہ ایک قدم بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے؛ کہ اگر ایسے افراد سے کوئی کام ایسا سرزد ہوجائے جس کی توقع نہ ہو تب بھی بدتمیزی کے بجائے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، انہیں ذلیل وخوار کرنے کے بجائے آپسی مشاورت سے کام لینا چاہیے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو ممکن ہے کہ ایک محسن شخصیت ہم سے دور ہوجائے، وہ غمگین یا دلبرداشتہ ہو کر راہ حق سے محروم نہیں تو ناامید ہوجائے، وہ خود کو معاشرے سے الگ کر لے اور اس کی نافعیت کند ہوجائے، یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امت میں انتشار پیدا ہو ہر ایک اپنی اپنی آراء کا بوجھ لئے گھومے اور ایک فرد کی وجہ سے پوری قوم اختلاف کے گہرے کنوئیں میں جا گرے، ایسا ہر گز نہ کیجیے! اپنے آپ کو روکیے۔!

[email protected]
7987972043

Comments are closed.