لحن داؤدی
حضرت داؤد کو دو معجزے عطا کیے گیے تھے ایک ان کی سریلی اور خوبصورت آواز جس میں اس قدر تاثیر تھی کہ جب وہ زبور کی تلاوت کرتے تھے تو انسانوں کے ساتھ چرند و پرند بھی وجد میں آجاتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی اسی طرز تلاوت کو لحن داؤدی کہا جاتا ہے۔

قاری محمد حنیف ٹنکاروی
(استاذ تجوید و قرأت: جامعہ ہدایت الاسلام عالی پور، گجرات)
اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو معجزے عطا کرتا تھا۔ جو ایک سطح پر ان کی قوم کے لیے ان کے نبی ہونے کی دلیل بھی ہوتے تھے۔
حضرت داؤد کو دو معجزے عطا کیے گیے تھے ایک ان کی سریلی اور خوبصورت آواز جس میں اس قدر تاثیر تھی کہ جب وہ زبور کی تلاوت کرتے تھے تو انسانوں کے ساتھ چرند و پرند بھی وجد میں آجاتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی اسی طرز تلاوت کو لحن داؤدی کہا جاتا ہے۔
حضرت داؤدؑ کو دوسرا معجزہ یہ عطا کیا گیا تھا کہ ان کے ہاتھ میں لوہے اور فولاد کو موم کی مانند نرم ونازک کردیا گیا۔
”حضرت داؤد علیہ السلام ستر (۷۰) لہجوں (طرزوں) کے ساتھ زبور پڑھتے تھے اور ان کی قرأت میں ایسا سوز تھا کہ شدید بخار میں مبتلا شخص بھی جھوم جھوم جاتا تھا اور جب وہ زبور پڑھتے ہوئے روتے تو خشکی اور تری پر بسنے والا کوئی بھی ذی نفس ایسا نہ تھا جو خاموشی اور نہایت توجہ سے آپ کی قرأت کو سنتا اور روتا نہ ہو۔“
(فتح الباری: ۹/۷۲)
ستر طرزوں میں زبور پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ہر طرز دوسری سے مختلف اور جدا ہوتی تھی۔ لحن (طرز) نغمات اور لہجاتِ اصوات کی مختلف انواع و اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ جب ایک قاری، قرآنِ کریم کو ترنم سے پڑھتا ہے تو کیا اس کے لئے قانونِ نغمہ سے مدد لینا اور ان لہجوں کو استعمال کرنا جائز ہے؟ اس ساری بحث کا دار و مدار حضرت حذیفہ بن یمانؓ کی اس روایت پر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”إقرءوا القرآن بلحون العرب وأصواتها، وإياکم ولحون أهل الفسق … الخ“
”قرآن کو عربوں کے لہجوں اور ان ہی کی آواز میں پڑھو اور اہل فسق اور اہل کتاب کے لہجوں سے بچو۔ میرے بعد کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو گویوں اور ماتم کرنے والوں کی طرح قرآن کو گا گا کر پڑھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ ان گویوں اور ان کی گائیکی سے متاثر ہونے والوں کے دل فتنوں سے لبریز ہوں گے۔“ (مختصر قیام اللیل از محمد بن نصر المروزی، ص : ۵۸، طبرانی فی الاوسط، مجمع الزوائد : ۷/۱۶۹،بیہقی فی شعب الایمان :۵/۵۸۰)
اس حدیث میں قرآنِ کریم کو عرب کے لہجوں اور ان کی آواز میں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور شیطانی اور فحش قسم کے گانے گانے والے فاسق و فاجر گلوکاروں اور عیسائی چرچوں کے راہبوں اور نوحہ گروں کے لہجوں میں قرآن کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس ممنوعیت میں تلاوتِ قرآن کے وہ لہجے بھی داخل ہیں جو روافض یومِ عاشورا کے موقع پر دورانِ ماتم اختیار کرتے ہیں؛ کیوں کہ ان میں حرمت کی دو وجوہات پائی جاتی ہیں: ایک ان کا عجمی ہونا اور دوسرا یہ کہ یہ ماتم کرنے والوں کے لہجے ہیں۔ اور حدیث میں ان دونوں قسموں کے لہجوں میں قرآن پڑھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کو مختلف الحان اورطرزوں میں پڑھنا مطلق حرام نہیں ہے بلکہ بعض طرزوں میں پڑھنے سے روکا گیاہے اور بعض طرزوں میں پڑھنے کا حکم دیا گیاہے۔ چنانچہ اہل عرب کی آواز اور لہجوں میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن عجمیوں، اہل کلیسا اور گلوکاروں کے لہجوں اور ان کی آواز میں پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو گلا دیا ہے؛
لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ ماہر قاری سے رابطہ کرے اور معتبر قُراء کی تلاوتوں کو باربار سنیں۔ اس طرح کوشش کرنے سے تلاوت میں حلاوت پیدا ہوگی۔
Comments are closed.