جہیز کے خاتمے کا ایک آسان طریقہ

حقیقت یہ ہے کہ اگر لڑکیوں کو اہتمام کے ساتھ ان کا حق میراث دیا جائے اور جہیز کے بجائے اس حق شرعی کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے تو رشتہ ملنا بھی آسان ہوگا، اگر شہر میں لڑکے والوں کو معلوم ہو کہ اس لڑکی کو ترکہ میں مکان کا ایک کمرہ ہی مل جائے گا ، دیہات میں لڑکے والوں کو خبر ہو کہ زرعی زمین کا ایک ٹکڑا اس لڑکی کے حصہ میں آئے گا تو مکان اور کھیت ملنے کی یہ امید بھی لڑکی کے رشتہ کو آسان کر دے گی۔

محمد صابر حسین ندوی

جہیز کے خاتمہ کے لئے مہم جاری ہے، مگر سچائی یہی ہے کہ اسے عملی طور پر برت کر بتانے کی ضرورت ہے، خصوصاً سماج کے نمایاں طبقے کو پیش قدمی کرنی چاہیے، جنہیں دیکھ کر عوام سبق لے اور بنت حوا کی دشواریاں آسان ہو؛ اس سلسلے میں ایک اہم پہلو قابل ذکر ہے، اگر اسے بروئے کار لایا جائے تو بہت حد تک نکاح کو آسان بنایا جاسکتا ہے اور جہیز کی لعنت پر روک بھی لگائی جاسکتی ہے، دراصل ہمارے سماج میں بچیوں کو ایک بوجھ اس لئے بھی گردانا جاتا ہے کہ ان کی شادی کا مسئلہ والدین کیلئے گلے کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جو نہ نِگلتے بنے نہ اُگَلتے بنے؛ صرف ایک بیٹی کی شادی میں ہی ایک متوسط گھرانے کی کمر ٹوٹ جاتی ہے، جب انہیں کسی لڑکی کی شادی جہیز و تلک کے ساتھ کرنی پڑ جائے، سسرالی رشتہ لالچی، دین سے پرواہ بلکہ کبھی کبھی دیندار بھی مال و دولت کے حریص مل جائیں؛ نیز داماد ایک خوش کن ازدواجی زندگی کے بجائے اہلیہ کی آبائی دولت و ثروت اور آسائش پر نظر گڑائے ہو تو یہ دشواری زندگی حرام کردینے کے مرادف بن جاتی ہے، اس کا ایک آسان حل یہ ہے کہ بچیوں کو بھی میراث میں حصہ دینے کی پہل کی جائے، لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ لڑکیوں کا حصہ من عند اللہ ہے، اسے روکا نہیں جاسکتا، ختم نہیں کیا جاسکتا، افسوس کا مقام ہے کہ شادی بیاہ میں فضول خرچی کرنے کی بات ہو تو ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ہوڑ لگی رہتی ہے، اعلی ترین بندوبست اور نظام بنانے کی کوشش ہوتی ہے، مزید یہ کہ لڑکے والوں کے مطالبات اور خواہشیں انہیں اور بھی مجبور کر دیتی ہیں؛ لیکن اگر انہیں میراث میں حصہ دینے کی بات کہی جائے اور شرعاً اسے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جائے تو سناٹا پسر جاتا ہے، اسی طرح اگر خواتین میراث کا مطالبہ کرلیں تو انہیں حقیر نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، سچ جانیے اگر لڑکے والوں کو اس بات کی یقین دہانی کروا دی جائے؛ کہ بچی حقِ میراث پاکر رہے گی، تو یقیناً جہیز کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوگا، ظاہر سی بات ہے کہ مادیت کے اس دور میں ایک لالچ جو انہیں جہیز پر ابھارتی ہے، غیر شرعی امور پر آمادہ کرتی ہے اور سماجی ناسور میں معاونت پر مجبور کرتی ہے؛ اگر اس کا علاج ایک نیک بدل اور شرعی جواز کے ساتھ کر دیا جائے تو دقت نہیں ہوگی، اکثر و بیشتر لڑکی کے گھر والد، والدہ کا ترکہ اتنا تو ضرور ہوتا ہے کہ انہیں اگر منصفانہ طور پر تقسیم کردیا جائے تو بچی کی شادی شدہ زندگی میں ایک سہارے کا کام بھی ہوسکتا ہے، اور پھر ایک لڑکے کو اس کی امید ہو تو شادی میں کوئی پریشانی بھی نہ ہوگی، ہمیں معلوم ہے کہ اسے کلی طور پر برتنا مشکل ہے؛ تاہم اکثری دائرے میں اسے روبعمل لایا جاسکتا ہے، یہ ایک اچھی پہل ہوسکتی ہے، استاذ گرامی قدر فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ نے اپنے ایک مضمون میں اس طرف اشارہ کیا ہے، جو نہ صرف پڑھنے، سمجھنے بلکہ قابل عمل بنانے کی طرف ابھارتا ہے، آپ رقم طراز ہیں:
”یہ عجیب بات ہے کہ شریعت نے جس بات کو منع کیا ہے، اس کا ارتکاب کیا جاتا ہے، نکاح کو آسان رکھا گیا ہے اور نکاح میں لڑکی اور اس کے اولیاء پر کوئی مالی ذمہ داری نہیں رکھی گئی ہے؛ لیکن ’’گھوڑے جوڑے‘‘ اور ’’جہیز ‘‘ کے مطالبے نے سماج کی کمر توڑ رکھی ہے اور لڑکی ماں باپ کے لئے ایک بوجھ بن گئی ہے، اور جس چیز کا شریعت نے حکم دیا ہے یعنی حق میراث، اس سے ان کو محروم کیا جاتا ہے، جہیز کی وجہ سے لڑکی کو ترکہ سے محروم کر دینا اور یہ کہنا کہ لڑکی کی شادی پر کافی رقم خرچ کی گئی ہے، ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ کا مصداق ہے، کوئی حق انسان کا اسی وقت ختم ہوتا ہے، جب دوسرے فریق سے معاہدہ ہو جائے کہ اس کے بدلے میں وہ اپنے فلاں حق سے دستبردار ہورہا ہے، اب اول تو جب تک والدین زندہ ہیں، ان کے ترکہ میں بیٹی کا حق ہی ثابت نہیں ہوتا اور جو حق ابھی ثابت ہی نہیں ہوا ہو، اس سے دستبردار ہونے کا اعتبار نہیں، فقہاء نے لکھا ہے کہ میراث ایک ایسا حق ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی وارث کا حق ختم کر دے، یا مروجہ اصطلاح میں کسی کو عاق کر دے، تب بھی اس کا اعتبار نہیں:الارث جبري لا یسقط بالاسقاط ( العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ:۲ء ۶۲) دوسرے: جیسے لڑکیوں کی شادی پر زائد رقم خرچ ہوتی ہے، عموماََ لڑکوں کی تعلیم پر بھی بڑی رقم خرچ ہوتی ہے، تو صرف لڑکیوں کی شادی کے خرچ کی وجہ سے ان کو ترکہ سے محروم کر دینا کیوں کر درست ہو سکتا ہے، بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ شادی کی فضول خرچی شرعاََ ایک ناپسندیدہ اور مذموم عمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر لڑکیوں کو اہتمام کے ساتھ ان کا حق میراث دیا جائے اور جہیز کے بجائے اس حق شرعی کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے تو رشتہ ملنا بھی آسان ہوگا، اگر شہر میں لڑکے والوں کو معلوم ہو کہ اس لڑکی کو ترکہ میں مکان کا ایک کمرہ ہی مل جائے گا ، دیہات میں لڑکے والوں کو خبر ہو کہ زرعی زمین کا ایک ٹکڑا اس لڑکی کے حصہ میں آئے گا تو مکان اور کھیت ملنے کی یہ امید بھی لڑکی کے رشتہ کو آسان کر دے گی۔ – – – – – — – – – – اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت کے حصہ سے محروم کر دیں گے: من فر من میراث وارثہ، قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۲۷۰۳، اور بعض حضرات بالکل محروم تو نہیں کرتے؛ مگر بیٹوں کو زیادہ دیتے ہیں، کاروبار ، گھر وغیرہ ان کے حوالہ کر دیتے ہیں اور ان چیزوں میں بیٹیوں کو دینا گوارہ نہیں کرتے؛ حالاں کہ اولاد ہونے میں دونوں برابر ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد میں سے کسی کو دینے اور کسی کو محروم کرنے کو جَور(ظلم) قرار دیا ہے، (صحیح البخاری: ۲۶۵۰)؛ اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر زندگی میں اپنی جائیداد کی تقسیم کرے تو بیٹے اور بیٹیوں کو برابر دینا چاہئے۔(فتاویٰ قاضی خاں:۳؍۱۵۴) پس، عورتوں کو حق میراث سے محروم کرنا ،بیٹیوں کو ترکہ میں سے حصہ نہ دینا اور ھبہ کرتے ہوئے لڑکیوں کو نظر انداز کرنا سخت گناہ اور ظلم شدید ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی عدول حکمی بھی ہے، قرابت داروں کے ساتھ حق تلفی اور نا انصافی بھی اور نہایت قبیح قسم کی حرام خوری بھی ، حرام خوری ایسا گناہ ہے کہ یہ انسان کی عبادت کو ضائع کر دیتی ہے، اس کی وجہ سے دُعائیں قبول نہیں ہوتیں، انسان طرح طرح کی آفتوں اورمصیبتوں میںمبتلا ہوتا رہتا ہے اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے؛ اس لئے کسی بھی طرح یہ مناسب نہیں کہ انسان دنیا کی متاعِ حقیر کے لئے دنیا اور آخرت کا اتنا بڑا خسارہ مول لے اور جانتے بوجھتے نقصان کی تجارت کرے!!“ (شمع فروزاں – ٢٦/٠٣/٢٠٢١)

[email protected]
7987972043

Comments are closed.