Baseerat Online News Portal

خدا بخش لائبریری عالمی پیمانے کا ورثہ ہے. اس کی حفاظت کیجیے…

 

 

از : مفتی محمد خالد حسین نیموی

[email protected] 9905387547

 

لائبریری کسی بھی تعلیمی ماحول کے لیے بنیادی عنصر، علم دوست افراد کے لیے روحانی غذا کا ذریعہ اور کسی بھی قوم کے ذوق علم پروری کا عکاس ہوتی ہے… کتابیں اور منبعِ کتب لائبریریاں ہمارے لیے عظیم سرمایہ بھی ہیں اور ہمارے فکر وشعور کو صیقل کرنے کے مراکز بھی… دنیا کی تمام اقوام میں لائبریری کی اہمیت مسلم ہے..لیکن ملت اسلامیہ کے جیالوں میں شمع علم پر پروانہ وار نثار ہونے کی جو صفت رہی ہے وہ ممتاز وصف ہے.

عرب کا فلسفی شاعر ابوالطیب متنبی کہتاہے… اعز شیئ فی الدنی سرج سابح

وخیر جلیس من الزمان کتاب

یعنی کائنات میں سب سے باعزت مقام تیز رفتار گھوڑے کی پشت ہے اور زمانے میں سب سے بہتر ہمنشیں کتابیں ہیں.

اور فارسی شاعر نے کہا،

زبہر روشنی دل مرا ندیم کتاب

لائبریری کی دنیا میں بانکی پور پٹنہ کی "خدا بخش لائبریری” ممتاز مقام رکھتی ہے… بہار میں الگ الگ زمانوں میں بڑی بڑی لائبریریاں ہوا کرتی تھی، ان لائبریریوں نے ہمیشہ علم نوازی، ادب پروری کے ذوق کی آبیاری کی.. جن میں خضرچک، ڈیانواں، استھانواں،شکرانواں وغیرہ کی لائبریریاں اہم تھیں؛ لیکن حوادث روزگار کی ستم ظریفیوں سے کوئی بھی نہ بچ سکیں…. سوائے خدا بخش لائبریری کے… اس کے بانی اور منتظمین کی بے پناہ شغف اور جنون کی حد تک اس کے فروغ کے لیے اقدامات کے نتیجے میں 1888 ء میں قائم اس لائبریری کی شہرت ملک کے حدود سے نکل کر بیرون ملک تک جاپہنچی… ہر طرف سے جویائے علم کشاں کشاں یہاں پہنچنے لگے.. اور اس لائبریری میں موجود قیمتی کتب کے نایاب ذخیرہ سے مستفید ہوتے رہے….

خدا بخش لائبریری یقینا کے ملت اسلامیہ کے لئے یہاں کے مخطوطات اور مطبوعات علم دوست حضرات کے لئے عظیم ترین سرمایہ ہیں.. یہاں ایسی کتابوں کا ذخیرہ ہے جنھیں دیکھنے کو جویائے علم ترستے ہیں ان کتابوں کو ریسرچ سکالر اپنی آنکھوں کے لئے کحل الجواہر بناتے ہیں،

اپنی طالب علمی کے زمانے میں "المنجد قسم الاعلام” کا مطالعہ کرتے ہوئے بانکی پور کا نام دیکھا تھا اس کے ذیل میں خدابخش لائبریری کا مختصر تذکرہ تھا… حیرت ہوئی تھی کہ عربی لغت میں بانکی پور اور خدابخش لائبریری کے تذکرہ کا کیا مطلب؟ اساتذہ نے بتایا کہ مستشرقین اس لائبریری کے بڑے قدر داں ہیں، چونکہ منجد کے مصنف بھی مستشرق نواز ہیں اس لیے یہ تذکرہ قرین قیاس ہے… یہ لائبریری اتنی اہم ہے کہ ایڈنبرگ کے ممتاز مستشرق V. C. Scott O. Connor خدا بخش لائبریری کو دنیا میں مسلم لٹریچر کا سب سے عمدہ ذخیرہ قرار دیا ہے

سنہ دوہزار میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی دعوت پر کچھ عرب اسکالرس کی امارت شرعیہ تشریف آوری ہوئی، جن میں تیونس کے شئون دینیہ کے وزیر دکتور نورالدین خادمی، کویت یونیورسٹی کے پروفیسر دکتور رواس قلعہ جی اور عراق کے سابق وزیر دکتور محروس المدرس خاص طور پر قابل ذکر ہیں.. ان حضرات کا قیام کئی دنوں تک امارت میں رہا…اور وہ مستقل طلبہ و اساتذہ کو فیضیاب کرتے رہے… بندہ مستقل ان حضرات کی ترجمانی کرتا رہا. اور دعاءیں لیتا رہا.. ان حضرات نےبڑے شوق اور وارفتگی کے جذبے سے خدا بخش لائبریری کو دیکھنے کی خواہش کی چنانچہ اس کا انتظام کیا گیا… ناظم امارت شرعیہ اور یہ عاجز ساتھ رہا. بہار پولیس کی ایک گاڑی بھی ساتھ تھی….. خدابخش لائبریری میں ڈاکٹر عتیق احمد قاسمی آروی اسسٹنٹ لائبریرین نے مختلف قیمتی ونادر مخطوطات کا تعارف کرایا…. جب شیخ رواس قلعہ جی جیسے ماہر محقق کتب کی نظر نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر کے اس مخطوطہ پر پڑی جسے علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنے ہاتھ لکھا ہے. توشیخ اس عاجز کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگے :واقعتاً یہ ابن حجرعسقلانی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مخطوطہ ہے… پھر انھوں نے ابن حجر کی تحریر کی دس سے زائد امتیازی شناخت کو بیان فرمایا…متعدد دیگر قیمتی مخطوطات کو دیکھ کر کہنے لگے کہ مخطوطات کی کثرت اور تنوع کے لحاظ سے یہ دنیا کی بے مثال لائبریری بے … لائبریری کے وزیٹر بک پر ان عرب اسکالرس کی شہادتیں موجود ہیں… کئی ایسی کتابیں اور مخطوطے جو دنیا کی کسی لائبریری میں نہیں ہیں انھیں اس سفر میں دیکھنے کا موقع ملا…

اس لائبریری کی شہرت بین الاقوامی ہے.. بالیقین یہ عالمی ورثہ

Enter national heritage विश्व धरोहर ہے… اس کی عالمی حیثیت کا اندازہ اس عاجز کو صحیح معنوں میں مکہ مکرمہ کے سفر کے دوران ہوا… جب اس عاجز کے کان سے یہ جملہ ٹکرایا

"میں پٹنہ ضرور جاؤں گا کیونکہ وہاں خدا بخش لائبریری ہے”. یہ تاریخی جملہ تھا جامعہ ام القری، مکہ مکرمہ کے لائبریرین الشیخ الدکتور محمد شعبان عراقی کا… اللہ تعالی نے اس عاجز کو 2013 میں حج بیت اللہ کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کا موقع عطا فرمایا، حج کی سعادت سے فارغ ہونے کے بعد میرے دل میں یہ خواہش موجزن تھی کہ ہم دیگر مقامات مقدسہ کی بھی زیارت کریں اور وہاں موجود تعلیمی ادارے اور اس کے ذمہ دار شخصیات سے ملاقات کروں، مجھے اس سلسلے میں ہمارے مہربان دوست ڈاکٹر ابوالکلام نیپالی القاسمی کی رہنمائی میں مکہ مکرمہ کے علمی و تحقیقی اداروں کا سفر ہوا، خواہش تھی کہ جامعہ ام القریٰ کی لائبریری کا مشاہدہ کیا جائے اور وہاں موجود کتابوں کے انمول ذخیرہ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے… یہ عاجز اپنے مخلص ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی کی قیادت ودیگر کئی احباب کی معیت میں جامعہ ام القریٰ حاضر ہوا اور وہاں کے مختلف شعبوں کو کو دیکھا، درسگاہوں کا معائنہ کیا. خاص طور پر کلیۃ الشریعہ میں حاضری ہوئی. وہاں کے اساتذہ و ذمہ داران سے شرف لقاء حاصل ہوا. مختصر گفتگو بھی ہوئی؛ لیکن میرے لیے کشش کا مرکز وہاں کی کی شاندار لائبریری تھی، یہ عاجز لائبریری حاضر ہوا وہاں کے عملہ بالخصوص لائبریرین الشیخ الدکتور شعبان جو عراقی نزاد تھے اور مکہ مکرمہ کی شہریت حاصل تھی سے تفصیلی ملاقات ہوئی … باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے.. اس عاجز سے تعارف کے درمیان جب میں نے انھیں بتایا کہ میں انڈیا کے اس خطے سے ہوں جہاں خدابخش لائبریری ہے،،، تو سچ پوچھیے! وہ جھوم اٹھے… کہنے لگے ایک مدت سے خدا بخش لائبریری کے بارے میں تفصیل سے جاننا چاہتا تھا… آپ بتائیں، اس عاجز نے تعارف کرایا اور انھیں بہار پٹنہ آنے کی دعوت دی، تو وہ برجستہ کہنے لگے کہ میں پٹنہ ضرور آؤں گا کیونکہ وہاں کتابوں کا عظیم مرکز خدا بخش لائبریری موجود ہے ایک مدت سے میرے دل میں خدا بخش لائبریری کی زیارت کا داعیہ موجود ہے. میں اس کے لئے مناسب موقع کی جستجو میں تھا آپ نے جو مجھے پٹنہ آنے کی دعوت دی تو میں خدا بخش لائبریری کو دیکھنے کے لئے پٹنہ ضرور حاضر ہوں گا… ایک عرب اسکالر کی زبان سےنکلے ہوئے ان جملوں کو سن کر اور خدابخش لائبریری کے تعلق سے ان کے جذبات کو جان میں بہت متاثر ہوا اور میرے دل میں خدا بخش لائبریری کی غیر معمولی اہمیت بیٹھ گئی…… ہم اس طور پر قدر دان نہیں ہیں جیسا دوسرے ہیں… ہمارا حال تو یہ ہے

پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

معلوم ہوا ہے کہ بظاہر مختلف ٹیکنیکل اسباب کو بنیاد بنا کر اور درون خانہ بدترین سازش کے تحت ہمیں اپنے اس عظیم تہذیبی شناخت اور عالمی سطح کے ورثہ سے محروم کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے. اس اہم ترین اور قیمتی لائبریری کے وجود پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں..خدانخواستہ ایسا کچھ ہوا تو پوری ریاست پورے ملک کا نقصان اور تہذیبی ورثہ کا خون ہوگا . آئیے اس کے تحفظ کی تحریک چلائیں… اور اس عالمی ورثہ کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہیں.اور دعا بھی کریں.

 

مرے ٹوٹے ہوئے دل کی صدا سے کھیلنے والے

دعا اپنے لیے مانگ اب دعا سے کھیلنے والے

تجھے بھی ایک دن احساس تنہائی رلا دے گا

اکیلے بیٹھ کر اپنی ادا سے کھیلنے والے

Comments are closed.