باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں!

(پچیس سالہ مخلص دوست “ مفتی مجتبی حسن قاسمی” کی رحلت پہ تاثراتی تحریر )

از: فقیہ و محدث مفتی شکیل منصور القاسمی

“موت “ کائنات کی اٹل حقیقت اور ناقابل تسخیر و شکست قوت ہے ، ہر آنے والے کو اپنے وقت موعود پہ جانا ہے ، ہزاروں ؛ بلکہ لاکھوں جارہے ہیں ، جانے والوں کے لئے کلمۂِ استرجاع ، دعاء مغفرت و ایصال ثواب، اور پسماندگان سے اظہارِ تعزیت وصبر وسلوان کی تلقین ، تسلی بخش اور حوصلہ افزا جذبات کا اظہار عام سی بات ہے ؛ پَر زندگی ، شباب ، فضل وکمال اور ہمہ جہت سرگرمیوں سے پُر کچھ جانے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے جانے پہ خود اپنے نفس سے “فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ ” کہنا بڑا تلخ وشاق ہوتا ہے ، جن کے ساتھ موت کا تصور بھی چند لمحوں کے لئے مشکل ہوتا ہے، جن کے فراق سے جگر شق ہوجاتا اور دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے
بیس ۲۰ اپریل ۲۰۲۱ عیسوی کی شب مطابق آٹھ رمضان المبارک 1442 ہجری ، روز چہار شنبہ ) مفتی مجتبی حسن قاسمی رحمہ اللہ وہاں چلے گئے جہاں ہم سب کو جانا ہے ۔ إنا لله وإنا إليه راجعون.
زندگی ، شباب ، قوتِ فکر وعمل اور علمی وتحقیقی سرگرمیوں سے پُر اس چیدہ وچنیدہ فاضل “مجتبی “ کی ناگہانی رحلت سے کس پہ کیا اثرات مرتب ہوئے ہونگے ؟ مجھے نہیں پتا ؛ لیکن اپنا حال یہ ہے کہ اس جواں سال گنج گراں مایہ کے فراق نے میرے ہوش وحواس گُم کردیئے ، آنکھیں خشک ، جسم نڈھال اور حوصلے پست ہوگئے ۔آج تیسرے روز بمشکل اعصاب پہ قابو پاکر یادوں کے چند ترچھے نقوش کھینچنے بیٹھا ہوں ۔
مفتی مجتبی حسن قاسمی رحمہ اللہ سے ہمارے دوستانہ ، برادرانہ رازدارانہ ، مخلصانہ تعلقات کم وبیش پچیس سالوں پہ محیط ہے ۔
١٩٩٥میں مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں سال چہارم عربی میں میرا بھی داخلہ ہوا اور ان کا بھی!
ہم مزاج وہم خیال جن چند جدید وقدیم طلبہ کے ساتھ اولیں علمی ربط ضبط شروع ہوا ان میں مفتی مجتبی حسن اور مفتی شمشیر حیدر خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ، درسگاہ چہارم اولی سے تعلقات کا آغاز ہوا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ رابطہ مستحکم ہوتے چلا گیا ۔
رفتہ رفتہ ہم مزاج طلبہ کی ہماری ایک علمی ٹیم تیار ہوگئی۔ اس کارواں سے وابستہ افراد میں ہردلعزیز رفیق مرحوم شمشیر عالم بھاگلپوری (اللہ پاک مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے)، ہم سب کے منظور نظر اور چہیتے مجتبی حسن قاسمی ( جنہیں اب مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے ) ، اور مجمع الکمالات مفتی شمشیر حیدر قاسمی ارریاوی ،نور محمد ہزاری باغ وغیرہم خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔
یہ سب کے سب ہم درس، ہم ذوق، ہم فکر اور ہم جذبہ تھے، خورد ونوش کے اوقات ہوں یا سیر و تفریح کے حسین لمحات! ہر دم و ہر آن علمی مباحث ورد زبان ہوتے، کبھی درسی کتب پر حضرات اساتذہ کرام کی تشریحات کو موضوع نقد وتبصرہ بنایا جاتا، تو کبھی کسی درسی کتاب کی کسی عبارت کی توضیح و تحقیق پر احباب اپنے اپنے خیالات کا اظہار فرماتے، کبھی مروجہ نصابی فنون کے ائمہ کی زندگی اور اس کے نشیب و فراز پر احباب اپنے مطالعوں کی روشنی میں لب کشائی فرماتے، تو کبھی مخالفین اسلام اور اعداء اسلام کی اسلام دشمنی پر غور و خوض کیا جاتا اور ان کی سازشوں کے سلسلے میں قیاس آرائیاں ہوتیں، کبھی ملت اسلامیہ کی زبوں حالی پر رنج وغم کا اظہار ہوتا تو کبھی قائدین کی قیادت کو انصاف کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی جاتی۔ غرض کہ مادرعلمی کی علمی فضا میں ان علم دوست اور علمی ذوق کے حاملین احباب کے ملن سے ان کا ایک ایسا خاص علمی ماحول تیار ہوگیا تھا۔ جس میں لاپروائی، کوتاہ اندیشی، طالبعمانہ معصوم شرارت کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔
تعلقات تو سب سے گہرے تھے ؛ لیکن عاجز شکیل احمد ، مفتی شمشیر حیدر اور مفتی مجتبی حسن کی دوستی کا ایسا “مُثلّث “ تیار ہوا کہ ایک کا تصور دوسرے کے بغیر تقریباً ناممکن تھا ، مطالعہ و مذاکرہ ، خوردونوش ، نشست و برخاست اور سیر وتفریح بھی تینوں کی ساتھ ساتھ ہی ہوتی ۔
عزیزی مفتی مجتبی حسن ہم دونوں کے چھوٹے بھائی کے مانند تھے ، لاڈ وپیار سے ہم لوگ “بابو مجتبی “ کہہ کے پکارتے تھے
بعد میں اللہ نے بڑی مقبولیت اور علمی اعتبار و وقار انہیں بخشا ، لیکن تادم وفات ہم لوگ انہیں اسی کلمہ شفقت سے پکارتے رہے
طالب علمی دور سے ہی موصوف مرحوم ،ذہانت وذکاوت ، متانت ، حلم مزاجی ، خندہ جبینی ، کشادہ ظرفی ، وقار وتمکنت اور دور بینی کے تصویر مجسم تھے ، لاطائل و اختلافی بحثوں سے حد درجہ مجتنب رہتے ۔ وقت ضرورت قدر ضرورت ہی بولتے ۔
فکر تعمیری اور مثبت تھی ۔
خیر خواہی کا جذبہ رگ وپے میں پیوست تھا ، بدگمانی وبد خواہی ان کے قریب سے بھی نہ گزری تھی ، حق گو اور صلح جو شخص تھے ، خاموشی کے ساتھ گرد وپیش کی چیزوں پہ بصیرت مندانہ نظر رکھتے تھے ، تشہیر ذات اور پبلسٹی کے سخت مخالف تھے ، حوصلوں اور امنگوں کو مہمیز لگاتے ، خود اعتمادی میں طاق تھے ، جہاں بھی گئے “ مؤثر “ بن کے رہے ، کسی سے جلد “ متاثر “ نہیں ہوتے تھے۔
ہمارے “مثلث “میں برادر کبیر شمشیر حیدر صاحب شروع سے نستعلیقی شخصیت ہیں
متعدد محامد ومحاسن کے ساتھ مزاج انتہائی نازک اور زود غضب پائے ہیں ، جب کبھی دوران مذاکرہ و مباحثہ وہ مشتعل ہوتے تو انہیں منانے اور راضی کرنے کی ذمہ داری مفتی مجتبی کی ہی ہوتی اور وہ اپنے ٹاسک میں ہمیشہ کامیاب رہتے
دورہ حدیث شریف کے سال اکابر دیوبند کی عربی شروحات کی خریداری کا گراں بار معاملہ سامنے تھا ، میری طالب علمانہ زندگی بڑی غربت وعسرت کے ساتھ گزری ہے
مفتی مجتبی اور مفتی شمشیر حیدر صاحبان نے اپنے جیب خاص سے صحاح ستہ کی قریباً تمام عربی شروحات خرید کر یہ معمہ حل کرکے مطالعہ آسان کردیا ، اور یوں ہماری ٹیم کے پاس ایک چھوٹی لائبریری دستیاب ہوگئی موقع غنیمت سمجھتے ہوئے ہم نے اختلافی ابواب کے کئی مکمل ابحاث زبانی یاد کرلی تھی جو سالانہ امتحان میں بڑے کام آئے اور الحمد للہ دورے میں پوزیشن کے ساتھ کامیاب ہوا۔
عاجز کی گردن پر ان دونوں بھائیوں کا یہ اتنا بڑا احسان ہے کہ ہم زندگی بھر اس کی قیمت نہیں چکا سکتے۔
دورہ حدیث کے سال ششماہی امتحان سے قبل بابو مجتبی حسن سخت علیل ہوئے ، ہم اور مفتی شمشیر حیدر دونوں بازو پکڑ کے دیوبند کے مشہور ڈاکٹر “انوج گوئیل “نزد مظفر نگر بس اسٹینڈ دیوبند / کے پاس لے جاتے ، ڈاکٹر کے کلنک کے انتظار گاہ میں ہی ہم تینوں دورے کی کتابوں کی تیاری بھی کرتے اور آپس میں مسائل کا مذاکرہ کرکے مباحث مستحضر کرلیتے
بابو مجتبی کے پھیپڑے میں جب ٹی بی (تپ دق) کی تشخیص ہوئی تو وہ مکمل آرام پہ چلے گئے ، وقفہ وقفہ سے کئی روز
صبح شام انہیں ڈاکٹر یہاں لے جانا اور دوتین ماہ تک پرہیزی کھانا بناکر کھلانا ہم لوگوں کی ذمہ داری تھی جس کا اصل سہرا مفتی شمشیر حیدر کے سر جاتا ہے ، یقیناً انہوں اپنے بچے اور حقیقی فرزند کی طرح ان کی مہینوں نہ صرف تیمارداری کی ؛ بلکہ وقت پر انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر دوائیاں تک پلائیں
اللہ مفتی شمشیر حیدر صاحب کو اپنی شایان شان بدلہ عطا فرمائے
پرسوں جب بابو مجتبی کی رحلت کی اطلاع ہم نے انہیں دی تو مفتی شمشیر حیدر پھوٹ پھوٹ کے یوں رو رہے تھے جیسے کسی کا اکلوتا فرزند چل بسا ہو ۔
دورے کے سالانہ امتحان میں بحمد اللہ ہم تینوں کے امتیازی نمبرات آئے اور سنہ ۲۰۰٠ میں ہم تینوں دورے سے راست تکمیل افتاء میں داخل ہوگئے ۔ سنہ دوہزار ایک میں تکمیل افتاء سے فراغت کے بعد ہم تدریسی زندگی سے وابستہ ہوگئے ۔ آندھرا پردیش (تلنگانہ ) کے مشہور وبافیض ادارہ دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد میں حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی بانی و ناظم کی طلب ، حضرت الاستاذ مفتی محمد ظفیر الدین صاحب مفتاحی مفتی دارالعلوم دیوبند کے امر ، اور حضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی مدظلہ استاذ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند کی وساطت سے بحیثیت استاذِ فقہ میرا تقرر ہوا ، مفتی مجتبی حسن مزید علمی تشنگی بجھانے کے لئے حضرت فقیہ عصر مولانا محمد خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ کے المعہد العالی حیدرآباد کے شعبہ افتاء میں داخل ہوگئے ۔ دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد مفتی مجتبی مرحوم کی مادر علمی بھی رہا ہے ؛اس لئے قیام حیدرآباد کے دوران
برابر وہ عاجز کے پاس تشریف لاتے
اور ہم دونوں کے مابین ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا
ایک سال بعد پہر وہ تدریسی زندگی میں لگ گئے اور راست ملاقاتوں کا سلسلہ منقطع ہوگیا
میں بھی مختلف مدارس کے گرم وسرد ماحول چکھتا ہوا بیرون ہند آگیا
لیکن ہم تینوں رفقاء میں رابطے ہمیشہ بحال رہے
سوشلستان کی ایجاد وشیوع کے بعد ہمارے باہمی رابطے مزید مستحکم ہوگئے ، ہم نے اپنے وہاٹس ایپ حلقے سے جہاں اپنے تمام رفقاء درس کو جوڑنے کی کوشش کی وہیں ہمارا “مثلث “ عملی طور پہ ایک بار پہر یہاں متحرک وفعال ہوا
دونوں رفقاء گرامی کو ہم نے ایڈمن شپ دی اور انتظامی اختیارات دیئے ۔
حلقے میں لکھنے کی بار بار تاکیدی گزارش کرتا
مفتی شمشیر حیدر صاحب کو تو ہم نے مکرر تحریک وتائید کے بعد مشغول کرلیا اور وہ حلقے میں مختلف علمی وادبی موضوعات پہ لکھنے لگے –
سہل ، دلکش اسلوب اور شستہ نویسی کے باعث ان کی تحریر قدر کی نگاہوں سے پڑھی جانے لگی
لیکن مفتی مجتبی حسن خاموش مزاجی کے ساتھ حلقے میں مشترک ہر مواد پہ ناقدانہ نظر رکھتے
میرے بعض جوابات کی فوری نجی نمبر پہ آکر تعدیل فرماتے اور خامیوں پہ متنبہ کرتے
شکریئے کے ساتھ بندہ اسے قبول کرکے مناسب حال حذف وزیادتی کرکے جواب پہر سے نشر کرتا
حلقے میں عدم فعالیت کی جب شکایت کرتا تو کہتے
“ بھئی ! آپ کے جواب ومضمون کا ایک ایک لفظ نہ صرف پڑھتا ہوں بلکہ اپنے طلبہ افتاء کو آپ کے فقہی مقالات و مضامین پڑھنے کی رہنمائی کرتا ہوں “۔
مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے شعبہ افتاء میں داخل ہوجانا ہی اپنی جگہ بڑے اعزاز واستناد کی بات ہے ؛ لیکن بابو مجتبی حسن کی تحقیقی تشنگی اور خوب سے خوب تر کی تلاش نے انہیں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ کے دربار دُربار تک پہنچا دیا ، فقیہ عصرف کی معیت اور مخصوص تربیت نے بابو مجتبی میں مزید فقہی بصیرت ، بالغ نظری ، تعمق ، درک وکمال پیدا کردیا تھا ، نئے مسائل پہ
بڑی گہرائی وگیرائی اور اعتدال کے ساتھ وہ لکھتے اور خوب لکھتے ، ان کی رائے ارباب افتاء میں بڑی وقعت کے ساتھ سنی جاتی ۔
بعض عجلت طلب اہم موضوعات و عنوانات پہ
عاجز کو لکھنے کہتے
بندہ اپنی ساری بے ہنگم مصروفیات تج کر عزیزی مجتبی حسن کا کام ترجیحی طور پہ کردیتا
فرائض و میراث میں قسّام ازل نے انہیں بڑی مہارت عطا فرمائی تھی
میراث کے اکثر الجھے ہوئے مسائل میں بندہ ان سے مراجعت کرتا اور وہ بھی ترجیحی طور پر فوری اس کا حل فراہم کرتے۔
سنہ دو ہزار سترہ میں عاجز نے اپنے گائوں (سیدپور /بیگوسرائے ) میں ایک دینی ،دعوتی واصلاحی اجلاس عام منعقد کیا تھا ، جس میں اکابر علماء کے علاوہ اپنے تمام مربوط رفقاء کرام کو بطور خاص مدعو کیا تھا
بابو مجتبی حسن اس حقیر سی دعوت پہ گجرات سے طویل سفر طے کرکے ذریعہ ٹرین بیگوسرائے پہنچ گئے
اپنے ساتھ اپنی تمام تصنیفات وتحقیقات
کے دو سیٹ بھی لائے تھے
ایک سیٹ مجھے اور دوسرا سیٹ حضرت الاستاذ مولانا محمد صابر نظامی صاحب قاسمی مدظلہ کو عنایت فرمایا
تعلقات و مراسم کو نبھانے میں اور اپنوں کے سامنے بچھ جانے میں وہ لاثانی تھے ۔
مارچ 2017 میں اسی اجلاس سے فراغت کے بعد نوجوان فضلاءِ بہار کے ایک مؤقر وفد ( مفتی مجتبی حسن قاسمی ، مفتی شمشیر حیدر قاسمی ، مولانا غفران ساجد قاسمی ( چیف ایڈیٹر بصیرت آن لائن ) مولانا نافع عارفی قاسمی اور مولانا امداد اللہ قاسمی وغیرہم ) کے ساتھ بیگوسرائے سے حضرت امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ کے دربار دُربار پہ حاضری ہوئی تھی ، زیارت کے لئے حافظ امتیاز رحمانی صاحب کے توسط سے ہنگامی طور پہ صرف دس منٹ کا وقت لیا گیا تھا ؛ پَر حضرت نے پون گھنٹے تک ہم سے مختلف موضوعات پر باتیں کیں ، ہمیں مفید وکار آمد ہدایات دیں ، جامعہ رحمانی کے تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے مفید مشورے طلب کئے ، کتب خانہ اور درسگاہوں کے معائنے ، بعدہ پر تکلف ناشتے کا انتظام ؛ بل کہ “اہتمام “ کروایا ۔ اور پھر ہرے بھرے انواع واقسام کے پھولوں پہ مشتمل پُر فضا وپُر کیف اپنی مخصوص بیٹھک میں جس تپاک وغایت شفقت کے ساتھ “کھڑے ہوکر” ہمارا استقبال فرمایا وہ اپنائیت و محبت اور خورد نوازی اکابر و مشائخ کی جھرمٹ میں ہمیں عنقاء نظر آتی ہے ۔ اپنے دست مبارک سے اپنے دو اہم رسالے اور جامعہ کا کیلنڈر وجنتری عطا فرمایا ، مفتی مجتبی حسن اور مولانا غفران ساجد کی ٹرینوں کا وقت ہوا چاہتا تھا ؛ اس لئے ہمیں آخری ملاقات کے لیے حضرت سے مصافحہ کے لئے خود ہاتھ بڑھانا پڑا ؛ ورنہ حضرت امیر شریعت ہمارے وفد کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے ۔
مبدا فیاض سے آپ کو جو محاسن وکمالات عطا ہوئے تھے ، ان میں خرد نوازی ، شفقت ومحبت ، ذہانت ، دور اندیشی اور ملی مسائل میں قوت ارادی ، جرأت وحق گوئی اور بر وقت فیصلے کی صلاحیت آپ کے امتیازی اوصاف ہیں ۔
خدا آپ کو خلد بریں کا مکیں بنائے ، امت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے:
هيهات لايأتي الزمان بمثله = إن الزمان بمثله لبخيل۔

حضرت موسی علیہ السلام اپنے بھائی ہارون علیہ السلام پہ اس قدر اعتماد فرماتے کہ حق جلّ مجدہ سے دعائیں کرکے نبوت مانگ لی
مجھے اپنے برادران ( مفتی مجتبی حسن اور مفتی شمشیر حیدر صاحبان ) کے علم وفقہ پہ اس درجہ اعتبار ووثوق تھا کہ علمی وفقہی سیمیناروں میں جہاں کہیں سے بھی مجھے شرکت کی دعوت موصول ہوتی بندہ وہاں تنہا نہیں جاتا ؛ بلکہ اپنے دونوں علمی بازؤں کے ساتھ پرواز کرتا
جس علمی حلقے سے بھی وابستہ ہوئے تینوں ساتھ ہوئے، جو علمی کام بھی سامنے آیا تینوں کی مشاورت اور بعض اوقات اشتراک عمل سے سامنے آیا ۔
گزشتہ مارچ کو جمعیت العلماء کے فقہی سیمینار منعقدہ بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی میں بھی ہم تینوں ایک ساتھ شریک رہے، رفیق مکرم مفتی سید محمد عفان منصوری پوری کی مہربانی سے تینوں کا قیام بھی ہوٹل کے ایک ہی کمرے میں ہوا
تین روز ہم ایک ساتھ رہے
سیمینار کے متعدد نشست گاہ سے لیکر دسترخوان تک تینوں یکجا رہے ، دہلی کے تاریخی مقامات کا دورہ بھی ایک ساتھ ہوا ، سیمینار کی رپورٹنگ بھی تینوں نے ایک ساتھ کی
جس کی تفصیل میرے فیس بک وال پہ موجود ہے
سیمینار کے دوران ہوٹل میں تین بیڈ والے ایک روم میں ہم تینوں شفٹ ہوئے
ایک بیڈ ڈبل تھا جبکہ دوسرا سنگل ۔
عاجز اور شمشیر حیدر کو بابو مجتبی نے ڈبل بیڈ پہ چھوڑدیا جبکہ خود کنارے میں لگے سنگل بیڈ پہ یہ کہتے ہوئے جگہ لے لی کہ میرے خرّاٹے کی تیز آواز کی وجہ سے آپ حضرات کے آرام میں خلل ہوگا اس وقت یہ حیلہ تسلیم کرلیا تھا؛ لیکن
آج ان کی رحلت سے یہ لطیف اشارہ وا ہوا کہ وہ درحقیقت ہم دونوں سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کش ہوجانا چاہتے تھے
آخر زندگی میں وہ متعدد امراض کا شکار ہوگئے تھے
شوگر ، گردے کی پتھری کے عارضے میں مبتلا تھے
گردی کی تکلیف جان لیوا ہوتی ، میں نے جلد آپریشن کا کہا اور برادرانہ معاونت کی پیش کش بھی کی تھی؛ لیکن وہ اس قدر غیور تھے کہ ہامی نہ بھری ۔
۱۷ اپریل کو بابو مجتبی کے ہم وطن، ہم قریہ، رفیق کار اور معتمد خاص
ممتاز فاضل اور متعدد علمی اور ملی کاموں کے حوالے سے امتیازی شان ومقام رکھنے والے ڈاکٹر مفتی اعجاز ارشد قاسمی رحمہ اللہ کی وفات حسرت آیات نے علمی حلقوں کو تڑپا کے رکھ دیا تھا
ان کی وفات پہ تعزیتی کلمات اور ہمدردی وتسلی کے اظہار کے مقصد سے سترہ اپریل کو بابو مجتبی سے فون پہ بات کرنا چاہا
بار بار کی کوشش کے بعد وہ فون پہ دستیاب تو ہوگئے؛ لیکن ان کا تنفس بے قابو تھا، آواز اکھڑ رہی تھی، کہا کہ صرف آپ کی کال دیکھ کے وصول کیا ہوں ، کسی سے بات کرنے کی سکت نہیں ہے ۔
ان کی یہ حالت غیر دیکھ کے چونک گیا، آنکھیں اشکبار ہوگئیں، چیخ اٹھا، مایوسی کے مہیب سائے نے چاروں طرف سے گھیر لیا، کانپتے انگلیوں اور ٹپکتے اشکوں کے ذریعے اپنے حلقوں میں فوری دعائے صحت کی گزارش نشر کی ۔ دوران گفتگو مجھ سے بار بار دعائے صحت کی درخواست کررہے تھے ۔ یہ پچیس سالہ مخلص دوست سے آخری بات تھی
اس کے بعد سے مسلسل رابطے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا
وفات کے دن عصر بعد سے عجیب بے چینی اور کرب محسوس کررہا تھا
پیارے دوست کی طبعیت کے احوال سننے کے لئے بے کل تھا ، کئی کالیں کیں ، لیکن بات نہ ہوسکی
مفتی شمشیر حیدر سے کہا مجتبی حسن سے رابطہ کرکے تازہ اپڈیٹ سے مطلع کیجئے
ان سے بھی رابطہ نہ ہوسکا
تراویح پڑھ کے قلق واضطراب کے ساتھ سویرے سو گیا
دس بجے شب میں حضرت الاستاذ مولانا محمد صابر نظامی صاحب نے فون کرکے رحلت کی اطلاع دی۔
روح فرسا خبر بجلی بن کے گری ، تحقیق حال کے لئے برادرم غفران ساجد قاسمی سے رابطہ کیا تو انہوں نے واقعے کی تصدیق کی
پھر کیا تھا؟ چاروں طرف افسردگی چھا گئی
علماء کا نوجوان طبقہ ان کی وفات کی خبر سے تڑپ اٹھا ، زندگی ، شباب اور سرگرمیوں سے پُر نوجوان فاضل کی ناگہانی رحلت پہ یقین کرنا بڑا مشکل ہورہا تھا ، مفتی شمشیر حیدر کو فون کیا وہ دہاڑیں مار مار کے رو رہے تھے ،بمشکل انہیں چپ کرایا
مفتی نافع عارفی بھی زار و قطار رو رہے تھے
میں بھی اندر سے بالکل ٹوٹ چکا تھا
حضرت الاستاذ شیخ نظامی نے بڑی تسلی دی
ڈھارس بندھائی اور صبر کی تلقین کی ،وفات رسول سے صبر وہمت کا سبق لینے کا حکم فرمایا
مفتی محمد مصعب صاحب قاسمی علیگڑھی معین مفتی دارالعلوم دیوبند، مفتی محمد خالد حسین صاحب قاسمی نیموی صدر جمعیت علماے بیگوسرائے ، مفتی سید محمد عفان صاحب منصور پوری استاذ حدیث جامع مسجد امروہہ، اشرف عباس صاحب قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند ، ڈاکٹر عزیز صاحب ممبئی ، رفیق مکرم مفتی محمد نافع عارفی صاحب قاسمی ، مفتی محمد شمیم صاحب قاسمی ام القری مکہ مکرمہ، مفتی محمد اکرم صاحب قاسمی نیپالی مکہ مکرمہ ، مولانا زبیر ناصری صاحب قاسمی جنوب افریقہ اور دیگر علماے کرام فون و میسیج کے ذریعہ بندے کی تعزیت کی اور تسلی کے کلمات کہے ۔
جانا تو سب کو ہے ؛لیکن ایسی ، مخلص ، بے ضرر وبے نفس ، صاحب نظر فقیہ ومفتی اور یار غار کا عنفوان شباب میں یوں اچانک چلا جانا ناقابل تحمل صدمہ ہے ۔ایسی شخصیات اب کم ہی پیدا ہوتی ہیں ۔انہیں کبھی کسی عہدے کی طلب رہی نہ داد وتحسین کی کوئی پروا ! بے لوث ومخلصانہ خدمات نے انہیں حیات جاودانی عطا کردی ہے ، وہ ہمیشہ دھڑکنوں میں زندہ رہیں گے ، ان کی وفات سے میرا ایک علمی بازو ٹوٹ چکا ہے ۔جس کی بھرپائی بظاہر مشکل نظر آتی ہے ۔
مولانا مفتی محمد مجتبی حسن قاسمی رحمہ اللہ کی رحلت کا صدمہ صرف ان کے خانوادے کا تنہا صدمہ نہیں ؛ سنہ انیس سو ننانوے ۱۹۹۹ کے تمام فضلاء دارالعلوم دیوبند بالخصوص ہماری ٹیم کا اجتماعی صدمہ ہے،وہ ہمارا قیمتی سرمایہ تھے ، ان کی وفات حسرت آیات ہم تمام کے لئے بڑا خسارہ ہے ، ہم سب ایک دوسرے کی طرف سے تعزیت مسنونہ کے مستحق ہیں ؛ کیونکہ ان کی وفات سے ہم نے اپنا ایک بے لوث و وفاشعار علمی ترجمان اور فکری نمائندہ کھودیا ہے ، جس پہ ہم مرحوم کے خانوادہ کے ساتھ تمام رفقاء درس و ممبران حلقہ کو تعزیت وتسلی کا مستحق سمجھتے ہیں اور انہیں بطور خاص تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے ، لواحقین کو صبر جمیل اور بچوں کے تکفل کا غیبی نظم فرمائے ۔
اصل کارساز تو اللہ جل شانہ کی ذات مطلق ہے
لیکن مفتی صاحب مرحوم سے ہمدردی اور محبت رکھنے والے تمام رفقاے درس ، تلامذہ ومنتسبین سے گزارش ہے کہ اپنے اپنے طور پہ ان کے پسماندگان اور چھوٹے بچوں کے تکفل کی کوئی مخلصانہ سبیل نکالیں ۔
موت کے بے رحم پنجے نے میرا جگری دوست مجھ سے چھین لیا ہے
اب ان کی رحلت کے بعد زندگی بے کیف محسوس ہورہی ہے :
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

حَیف دَر چَشم زدن صُحبت یار آخر شُد ، روئے گل سیر ندیدیم ، وبہار آخر شُد

(افسوس کہ پلک جھپکتے ہی یار کی محبت ختم ہوگئی ، جی پھر کر پھول کی صورت بھی نہ دیکھی تھی کہ بہار ختم ہوگئی )

میرے دوست ! خدا تجھے خلد بریں کا مکیں بنائے

شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے
10رمضان 1442
۲۳اپریل2021

Comments are closed.