سیاست کی ایک نئی بساط تیار ہے۔

محمد صابر حسین ندوی

بنگال، کیرلا، تمل ناڈو اور بہت حد تک آسام میں چناوی طمانچہ کھانے کے بعد بی جے پی کی کمر اگر ٹوٹی نہیں تو پھر ایسا جھٹکا لگا ہے کہ جس سے اُبرنا مشکل ہے؛ بلکہ اسی درد اور تکلیف سے ابرتے ہوئے اپاہچ ہونے کی امید ہے، رفتہ رفتہ پورے جسم سیاست کا نظام اتھل پتھل ہونے والا ہے، فاسد عناصر کاٹے جائیں گے اور شَل عضو کو الگ کیا جائے گا، اب یہ صاف نظر آتا ہے کہ بھگوا، ہندو راشٹر اور زعفرانی سوچ والے ملک کیلئے ناسور زخم کی طرح ہر طرف سے صاف کئے جائیں گے، کھرچ کھرچ کر انہیں نکالا جائے گا، جس بساط پر وہ ملک کی لگام تھام کر حکومت کرنا چاہتے تھے اور پوری سلطنت کو اپنی باندی بنا کر تماشہ کرنا چاہتے تھے اس میں وہ خود بے نام اور گمنام ہوجائیں گے، پھچلے ستر سالوں سے جس رساکشی میں وہ جی رہے تھے اب حالت اور بدتر ہوجائے گی، کیونکہ اب تک جتنے بھی منصوبے بنے، بی جے پی ہندو راشٹر کے نام جتنے بھی اقدامات کئے ہیں ان سب پر ایک بَند قائم ہوگیا ہے، ترقی و تعمیر، ڈیجیٹل انڈیا، آتم نِر بھر بھارت وغیرہ وغیرہ سب کی ہوا کی نکل گئی ہے؛ بالخصوص کروانا وائرس کی دوسری لہر اور پورے ملک کی بدترین صورتحال سے ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کے دئے میں پھر سے تیزی آرہی ہے، ملک کا بھائی چارہ جن لوگوں نے عمیق غار میں پھینک دیا تھا، ایک ایک کر کے سبزہ سے اکھاڑ پھینکا تھا، ہجومی تشدد، ناجائز قانونی کارروائی، این آر سی اور سی اے اے وغیرہ کے ذریعہ ملک کو تقسیم کرنے کی جو سازش کی گئی تھی؛ اب وہ خود مجبور ہورہے ہیں کہ اپنے قدم پیچھے لیں، مودی جی کا تکبر اور امت شاہ کا گھمنڈ چکنا چور ہورہا ہے، بنگال کی ریلیاں اور عوامی بھیڑ میں جس طرح دادا گری کی گئی، تقاریر میں جس طرح بھدی زبان استعمال کی گئی، کرونا گائڈ لائن کو نطر انداز کیا گیا اور ملک کو ایک خطرناک کیفیت میں مبتلا کردیا گیا ان سب نے ملکر بھگوا کے آشیانے پر جاں سوز حملہ کیا، ان کے قلعہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، اس وقت جبکہ ملک وینٹیلٹر پر آکسیجن لیکر زندہ ہے، عوام ایک ایک سانس کیلئے تڑپ رہی ہے، شمشان گھاٹ میں بھیڑ لگی ہوئی ہے، اور قبرستان بھی بھر رہے ہیں ایسے وقت میں تمام آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد وغيرہ لحاف ڈالے سو گئے ہیں، اب تو خود بی جے پی کے معاونین انہیں گالیاں دے رہے ہیں، ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، بنگال کی شکست کوئی عام بات نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک مکمل سوچ کی ہار ہے، جس وقت انہیں گھمنڈ تھا کہ وہ ہر حال میں جیت جائیں گے، وہ خواہ کچھ بھی کرلیں، لوگوں کو انتظامیہ کے بحران سے دوچار کردیں تب بھی عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھائے گی؛ لیکن ایسا نہیں ہے، انہیں سبق دیا جانے لگا ہے، انہیں یہ احساس کروایا جانے لگا ہے کہ تم عوام پر ظلم کر رہے ہو، کرپشن اور فساد کے نام پر سلطنت پاکر تم نے خود زمین میں فساد مچایا، چنانچہ عوام کیلئے ایک ایک سانس بھاری پڑنے لگی ہے، مہنگائی سے لیکر آکسیجن تک ہر معاملے میں افسوسناک مقام پر لاکھڑا کردیا، دنیا ہم پر ہنس رہی ہے، عالمی اخباروں میں لگاتار بھارت کی پہچان گرد آلود ہورہی ہے، جس ہندوستان نے پچھلے سولہ سال سے کسی بیرون ملک کی مدد نہ لی اب یہ عالم ہے کہ چھوٹے موٹے ملک جنہیں ہم خاطر میں لاتے تھے؛ ان کی بھی مدد لینے پر مجبور ہیں، پاکستان کو دشمن زمانہ سمجھنے کے باوجود ان کی امداد لی جارہی ہے اور امریکہ سے دوستی کے سارے رکارڈ توڑے جانے کے باوجود اس نے ہاتھ کھینچ لیا ہے، تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ بھارت کی سیاست ایک نئی بساط پر جا پڑی ہے؟ جی ممکن ہے کہ اب سیاست کی دنیا میں بھونچال آئے، بائیں بازو کی جماعتیں اپنی پکڑ مضبوط کریں اور رواں حکومت کی سیاست کا منہ توڑ جواب دیں-

[email protected]
7987972043

Comments are closed.