رمضان المبارک اور برادران وطن (٣)

محمد صابر حسین ندوی

٣- نماز کا ماحول دکھائیں
یوں تو پوری دنیا اللہ تعالی کی عبادت کرتی ہے، ہر مخلوق میں بندگی کا مادہ ہے جسے وہ کسی نہ کسی صورت پورا کرتی ہی ہے، بالخصوص انسانوں میں بندگی، عبادت اور جھک جانے کا خاصہ بدرجہ اتم ہے؛ لیکن چونکہ اسے اک گونہ اختیار حاصل ہے اسی لئے وہ مالک حقیقی کے بجائے کبھی کبھی اپنے سے حقیر مخلوق کے سامنے بھی سجدہ ریز ہوجاتا ہے، یا بسااوقات عقل و علم کی شوخی میں وہ کجی کا شکار ہوجاتا ہے، لادینیت، الحادیت کی آڑ میں نیچریت کا دلدادہ بن جاتا ہے، مگر جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت و رشد سے مالا مال کیا، صراط مستقیم کی راہ پر گامزن ہوئے انہوں نے اپنے مالک کو پالیا اور اس کی عبادت ویسے ہی انجام دی جس طرز میں اس کی رضا اور خوشنودی ہے، حقیقت یہ ہے کہ عبادت کرنے کے انداز اور طریقہ کار میں بھی ایک خاص اثر ہوتا ہے، یہ سمجھدار، عقلمند اور سلیم طبیعت کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے، آپ جانتے ہوں گے کہ مشہور صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالی کی جستجو اور حقیقی مالک الملک و رسول کیلئے زندگی کھپا دی، انہوں نے آزادی کے بعد غلامی اور پھر آزادی جیسے واقعات دیکھے، اپنے سے کمتر لوگوں کے یہاں خدمت اور نوکری کرنے پر مجبور ہوئے؛ لیکن آخر کونسی چیز تھی جس نے انہیں اس بات پر ابھارا کہ وہ ایرانی زرتشت سے نکل کر موحد کی جانب سفر کریں؟ یہ دراصل ایک چرچ/ کلیسا میں طریقہ عبادت کی زیارت تھی، ایسے میں ذرا سوچیے! کہ اگر نماز کا طریقہ لوگوں تک پہنچے، بندگی، عبادت، تذلل، خشیت اور للہیت کی سب سے اعلی کیفیت کا دیدار کروایا جائے تو بھلا لوگوں پر کیا اثر ہوگا، بالخصوص وہ ہندو سماج جو پتھروں، بتوں، صنم خانوں اور اپنے سے حقیر معبودوں کے آگے سر جھکاتا ہے، اگر وہ مالک حقیقی کی طرف سے عائد عبادت کی زیارت کرلیں، انہیں بتایا جائے کہ فطرت سلیمہ کا کیا تقاضا ہے اور انہیں کس طرح پورا کیا جائے تو پھر کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ بھی اسلام کی طرف مائل ہوں؟ عصر حاضر میں ایسے متعدد حالات سننے میں آئے ہیں کہ جنہوں نے مسلمانوں کے طریقہ عبادت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ہے، خاص طور پر رمضان المبارک میں نماز، روزے کا ایک خاص ماحول یوتا ہے، نماز کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے، یہ درست ہے کہ اس وقت لاک ڈاؤن اور کرونا وائرس کی مار ہے؛ لیکن عام حالات میں اگر غیر مسلموں کو ان عبادات کی جھلک دکھائی جائے، انہیں مسجد سے قریب کیا جائے تو بلاشبہ ایک اچھا نتیجہ سامنے آسکتا ہے، اس سلسلہ میں استاد گرامی قدر، فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں:
"یہ ایک حقیقت ہے کہ خود نماز کا منظر بھی بہت ہی پر کیف اور متاثر کن ہے، جو انسان پتھروں، درختوں، سیاروں اور سمندروں کے سامنے سرِ موجھکنے کو تیار نہیں، وہ خدا کے سامنے ایک زر خرید غلام کی طرح؛ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہاتھ باندھے کھڑا ہے، کبھی کمر تک جھکتا ہے، کبھی دو زانو نگاہوں کو پست کئے بیٹھا ہے اور کبھی اپنی پیشانی کو زمین پر بچھا دیتا ہے، پھرجب نماز سے فارغ ہو تا ہے تو خدا کے دربار میں اس طرح ہاتھ پھیلاتا ہے جیسے کوئی ضرورت مند اورمصیبت زدہ بھکاری دست ِسوال دراز کرتا ہے، یہ عجز و فروتنی، جھکاؤ اور بچھاؤ کی ایسی تصویر ہے کہ اس سے زیادہ اپنے آپ کو مٹا دینا اور سر خمیدہ ہوجانا حضرت انسان کے لئے ممکن ہی نہیں، پھر حاکم اور محکوم، دولت مند اور غریب، تعلیم یافتہ اور جاہل اور بڑے اور چھوٹے سبھوں کا ایک ہی صف میں دوش بدوش اور قدم بہ قدم کھڑا ہونا اجتماعیت اورانسانی وحدت کی ایسی مثال ہے؛ کہ اس ملک کی اکثریت اپنے مذہب میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔ رمضان المبارک میں نمازوں کا اہتمام بڑھ جاتا ہے، مسجدیں نماز پڑھنے والوں سے معمور ہو جاتی ہیں اور ذوقِ عبادت نسبتاً بڑھ جاتا ہے، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے پروگرام کا بھی اہتمام کرنا چاہئے کہ برادرانِ وطن نماز کے اس ماحول کو دیکھیں؛ تاکہ وہ اسلام کی عملی کیفیت کو ملاحظہ کر سکیں؛ بلکہ اگر کوئی مصلحت مانع نہ ہو تو انھیں مسجد میں دعوت دینی چاہئے؛ تاکہ وہ مسجد کے پرسکون ماحول اورسادہ طریقۂ عبادت کو دیکھ سکیں، رسول اللہ ﷺ نے بنو نجران کے عیسائیوں کو مسجد ہی میں ٹھہرایا تھا، غزوۂ بدر کے مشرک قیدیوں کے رہنے سہنے کاانتظام بھی مسجد میں ہی کیا گیا تھا ، بنو ثقیف کے مشرکین کے وفد کو بھی آپ ﷺ نے مسجد نبوی میں ہی ٹھہرایا تھا، اور جو غیر مسلم حضرات آپ ﷺ سے ملاقات کے لئے آتے تھے، عموماً مسجد ہی میں ان سے ملاقات ہوتی تھی؛ اس لئے دعوتی نقطۂ نظر سے غیر مسلم بھائیوں کو مسجد میں بلانے میں کوئی حرج نہیں ہے”۔ (شمع فروزاں: ١٦/٤/٢٠٢١)

[email protected]
7987972043

Comments are closed.