Baseerat Online News Portal

آہ– مولانا رئیس الشاکری ندوی مرحوم!!

اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل لاکھ ڈھونڈے کوئی جلتی ہوئی

 

محمد صابر حسین ندوی

اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل
لاکھ ڈھونڈے کوئی جلتی ہوئی شمعیں لے کر
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک الموت چنندہ اور چیدہ شخصیات کو چن کر اپنا ہمسفر بنا لینے پر مصر ہے، رب ذوالجلال اپنے محبوب بندوں کی نیکیوں، عمدہ کارناموں اور تھکا دینے والی زندگی سے نجات دے کر قربت بخشنا چاہتا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ دنیا کی کشمکش، وبا کی ہلاکت اور زندگی کی ستم ظرفیوں میں اس کے نیک بندے الجھے رہیں اور وہ شوق ملاقات میں منتظر رہے، جنت کی وادیاں، نہریں، آبشار اور قسم ہا قسم کی نعمتوں سے وہ محروم رہیں، یہی وجہ ہے کہ حیات آبدار کی لڑیاں بکھری جارہی ہیں، ہیرے موتی ٹوٹ رہے ہیں، ایک ایک دانہ منتشر ہورہا ہے، دنیا ان بزرگوں، نیک ناموں اور اتقیاء و اولیاء سے خالی ہوتی جارہی ہے جن سے شب میں اجالا، گمراہی میں ہدایت اور بےدردی میں درد کا سماں رہتا ہے، عالم میں نیرنگی، امید، انصاف، اچھائی اور خوبی کا گماں رہتا ہے، جو سینہ کی تپش، سوز قلب اور نگاہ دور رَس سے انسانیت کی رہنمائی کرتے ہیں، کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان میں ایک نام گزشتہ شب اور جڑ گیا ہے، جو ندوہ اور طلباء ندوہ کیلئے محسن اور امت اسلامیہ کیلئے انسانیت کا اہم ستون تھے، جنہیں دنیا مولانا رئیس الشاکری ندوی (١٩٤٣- ٢٠٢١ ء) کے نام سے جانتی ہے- (انا للہ وانا الیہ راجعون اللهم اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناته ويلهم أهله وذويه الصبر والسلوان) مولانا رئيس الشاکری ندوی مرحوم وضعدار، قدیم روایات کے پاسدار، ندویت کے پاسبان، سنجیدگی، سادگی، اخلاقی بلندی، دوست نواز اور انسانیت نواز شخصیت کے مالک تھے، آپ ندوہ، فکر ندوہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا، مولانا ندوۃ العلماء لکھنؤ کی عظیم الشان علامہ شبلی لائبریری کے ذمہ داروں میں تھے، واقعہ یہ ہے کہ شلبی لائبریری کی زینت کتابیں ہیں، مگر ان کی دیکھ ریکھ کرنے والوں میں مولانا نگینے کی طرح تھے، اس مکتبہ میں جب کبھی جانا ہوتا تو مولانا کی موجودگی عجب طرب پیدا کرتی تھی، پہناؤ، رکھ رکھاؤ، شیروانی، کشتی نما ٹوپی، منہ میں پان کی گلوری لئے بہت ہی اعلی انداز میں گویا ہوتے؛ ایک ایک لفظ یوں ادا کرتے کہ جیسے کوئی ادبی کتاب خود محو گفتگو ہے، پدرانہ شفقت، مخلصانہ جذبہ اور ہمدردانہ سلوک ان کا خاصہ تھا، ویسے تو ماتھے پر بَل نہیں آتا، طلبہ سے نادانیاں ہوتیں تو تب بھی ادبیت، زبان کی لطافت اور متانت نہ چھوٹتی، شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے، کبھی شانہ پر ہاتھ رکھ کر تو کبھی چائے کی چسکی، خوش مزاج محفل اور مرنجان مرنج طبیعت کے ساتھ شیرینی گفتگو کرتے، جملوں کی نشست و برخواست، ناصحانہ انداز، فہم و فہمائش کے اچھوتے طرز سے دل آپ کی محبت سے معمور ہوجاتا تھا۔
کئی دفعہ لائبریری میں کتاب کے مسئلہ پر کوئی نہ کوئی الجھن ہوجاتی، بہت کوششوں کے بعد بھی جب گتھی نہ سلجھتی تو مولانا ایک مسیحا بن کر رونما ہوتے، وہ بڑی دل نوازی فرماتے، اطمینان سے جواب دیتے اور کہتے عزیزم، محترم، برخوردار – – آپ ایسا کر لیجئے! ویسا کرلیجئے!…. واقعی آپ کا دل ایک آئینہ کی طرح صاف وشفاف تھا، ذاتی زندگی سے واقفیت نہیں لیکن جب کبھی آپ سے ملاقات ہوتی، یا دور کہیں آتے جاتے دکھائی دیتے تو صاف لگتا کہ ایک صاحب دل، ندوۃ العلماء کا حقیقی ترجمان، دل دردمند اور فکر ارجمند کے حامل چلے جارہے ہیں، آپ تخلیقی ذہن کے مالک تھے، ادبیت ان کا مزاج ثانی تھا، شعر و شاعری سے خاص لگاؤ تھا؛ بلکہ آپ فی الوقت ایک درنایاب شاعر تھے، بلاشبہ انہیں اس فن میں اتالیق کی حیثیت حاصل تھی، آپ کی فکری جولانی کا کوئی جواب نہ تھا، رباعی اور قطعیات میں ید طولی رکھتے تھے، امت مسلمہ کی فکر، ان کی زبوں حالی، شکستگی، لاچاری اور منافقین کی منافقت پر دل و جگر کاٹ کر رکھ دیتے تھے، برادر مکرم مولانا طارق ایوبی ندوی مدظلہ کے عم محترم تھے، انہوں نے اپنی فیس بک دیوار پر مولانا کی طرف منسوب اشعار نقل کئے ہیں، ان کی جرات، بے باکی اور حقیقت حال کی عکاسی دیکھیے!
روشن ہے شب عرس چھلکتی ہے نگاہ
سجتے ہیں تقدس کی فضاوں میں گناہ
جلتا ہے عقیدت کے چراغوں میں لہو
لا حول ولا قوۃ الا باللہ
اور کہتے ہیں
تقدیس کے خوش رنگ پرت ڈالے ہیں
چہرے ہیں چمکدار تو دل کالے ہیں
رضوان انھیں دیکھ کے تھراتا ہے
ہشیار کہ یہ لوگ خدا والے ہیں
آپ شعر و شاعری میں مولانا شاکر ناطقی کانپوری اور مولانا ماہر القادری رحمہمااللہ جیسے قادر الکلام شعراء سے شرف تلمذ رکھتے تھے؛ بالخصوص شاکر صاحب کی جانب نسبت سے ہی آپ اپنے نام کے آگے شاکری لگایا کرتے تھے، مولانا منجھے ہوئے شاعر تھے، آپ کو سب سے زیادہ نعتیہ شاعری سے دلچسپی تھی، بلکہ عشق رکھتے تھے، آپ جب کبھی نعتیہ کلام سناتے تھے تو حیران کن کیفیت دیکھی جاتی تھی، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم زبان وبیان اور چہرے کے ہاؤ بھاؤ اور نقل و حرکت سے نمایاں ہوتے تھے، اس سلسلہ میں ان کا ماننا تھا:
اگر کوثر کی خواہش ہے تو ساقی سے جڑے رہنا
کہ ساری قدر کھو دیتے ہیں ساغر بے سبو ہو کر
یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہی آپ کی زندگی کا پیغام تھا، ساغر و مینا سے عشق رکھنے والوں کو سبق تھا کہ کوثر سے جدا نہ ہونا، اگر کوثر سے نسبت نہ رہی تو پھر زندگی ہی کیا؟ اسے ایک نعتیہ کلام میں باقاعدہ کہہ دیا ہے:
سانسوں کی جائیداد بھی لکھ دو اسی کے نام
سارے جہان لکھے ہیں جس آدمی کے نام
کوثر نگاریوں کے سلیقے ہیں جا ں فروز
شیشہ گری کا حسن ہے تشنہ لبی کے نام
صدیوں کی پیاس شہر میں بے نام ہو گئی
صحرا بھی سر جھکا ئے ہیں دریا دلی کے نام
شفقت مزاج رافت و رحمت کا مے کدہ
تلچھٹ بھی کم نہیں ہے مری میکشی کے نام
اپنی مثا ل آپ تریسٹھ برس کا حسن
کیا کچھ نہ لکھ دیا ہے غمِ عاشقی کے نام
اے چارہ ساز امتِ مرحوم دیکھنا !
پھر دھر لئے ہیں دنیا نے بے چارگی کے نام
اللہ کی رضا کے چراغوں کی آبرو
تصدیقِ حق کے نام سخی کے ولی کے نام
تم بھی رئیس شہرِ سخن ہو تو جان لو
لوح و قلم کا حسن ہے دریا دلی کے نام
مولانا کے آخری اشعار جو تقریبا ایک ہفتہ قبل مولانا نے خود گروپ پر پوسٹ کیا تھا۔ پڑھتے جائیے اور سر پھوڑئے کہ کیسا عظیم شاعر ہم سے جدا ہوگیا، جو زندگی کی شہہ رگ پر ہاتھ رکھتا تھا، بلکہ در پردہ حیات کی ہوا بھی اسے محسوس ہوتی تھی، اللہ بال بال مغفرت فرمائے!
سیراب سخن ہوتے ہیں باران قلم سے
لفظوں نے بڑے کھیل کئے عشق میں ہم سے
بس کارگہ ہوش وخرد جھیل رہا ہو ں
جی اوب گیامجلس شوری کے بھرم سے
قلعے بھی جلے جاتے ہیں خاشاک کی مانند
وہ آگ اگلتی ہے زمیں نقش قدم سے
وہ روٹھ گئے شا مت اعمال پہ روؤ !
کیا ٹھیک جو آنسو انھیں راضی کریں ہم سے
محروم ہوئے روزوں کی لذت سے بھی ہیہات
بے کیف تھے ہم تر ک تراویح کے غم سے

[email protected]
7987972043
04/05/2021

Comments are closed.