Baseerat Online News Portal

ہند، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا میں ایک ہی دن عید منائی گئی   چاند کے تعلق سے شرعی اور سائنسی نقطہ نظر  خلیجی ممالک میں چاند کی تاریخ ایک دن قبل کیوں؟ کیا پوری دنیا میں چاند کی ایک ہی تاریخ ممکن ہے؟)

 

 

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

 

عید الفطر اور عیدالاضحی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ مسلمانوں کے لئے دو خوشیوں کے تہوار بھی ہیں۔ قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کی روشنی میں ان ایام اور ہر ماہ کی یکم تاریخ کی تحدید 29 تاریخ کو چاند کی رؤیت یا عدم رؤیت پر کی جاتی ہے، جس پر مسلمانوں کے تمام مسلکوں کا اتفاق ابتداءِ اسلام سے ہی چلا آرہا ہے۔ سائنسی تحقیق اور اس کے ایجادات سے ہمیں کوئی نفرت نہیں ہے مگر چاند کی یکم تاریخ طے کرنے کے لئے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی وجہ سے ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم دنیاوی اغراض کے لئے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان میں کوئی توجیہ یا تاویل کریں۔ شریعت اسلامیہ کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ مہینہ کی 29 تاریخ کو چاند نظر آنے پر اگلے ماہ کی پہلی تاریخ، ورنہ مہینہ 30 دن کا شمار کیا جائے۔ رمضان اور عید کے تعلق سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ کی واضح تعلیمات حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں موجود ہیں۔ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم امت محمدیہ کو حکم (Order) دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو، ورنہ مہینہ 30 دن کا شمار کرو۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی ورسول بناکر بھیجے گئے ہیں، لہٰذا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ فرمان موجودہ دور کے دو ارب مسلمانوں کے لئے بھی ہے۔ اسی وجہ سے آج تک علماء امت کا اتفاق ہے کہ رمضان یا عیدالفطر کے ایام کی تحدید چاند کی رؤیت یا عدم رؤیت کی بنیاد پر کی جائے گی۔

سعودی حکومت نے سائنسی تحقیق اور موسم فلکیات کے اندازں کے مطابق چاند کی 29 یا 30 تاریخ طے کرکے عرصہ دراز سے ایک کیلنڈر ’تقویم ام القری‘ کے نام سے اپنے ملک میں رائج کررکھا ہے، لیکن یہ کیلنڈر حقیقت میں دفتری کاروائی تک محدود رہتا ہے۔ سعودی عرب میں چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا حقیقی فیصلہ سپریم کورٹ کرتی ہے جس کی روشنی میں روزے، عید الفطر، حج اور عید الاضحی وغیرہ عبادتیں کی جاتی ہیں۔ اس تعلق سے سعودی عرب میں کل 6 کمیٹیاں ہیں، ہر کمیٹی میں امارت یعنی حکومت، مجلس قضاء اعلیٰ یعنی علماء کرام اور موسم فلکیات کے نمائندے ہر ماہ کی 29 تاریخ کو ملک کے مختلف حصوں میں چاند دیکھنے اور شہادت قبول کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں۔ مہینہ کے آخر میں تمام اخباروں میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اعلان بھی شائع ہوتا ہے، جس میں عوام سے 29 تاریخ کو چاند دیکھنے اور چاند نظر آنے پر اطلاع دینے کی درخواست بھی کی جاتی ہے۔ ان چھ کمیٹیوں کا رابطہ سینٹرل کمیٹی سے رہتا ہے جو عرب ممالک کی دیگر رؤیت ہلال کمیٹیوں سے رابطہ میں رہتی ہیں۔ چاند نظر آنے کی صورت میں شہادت کے قبول ہونے کے بعد سعودی عرب کی سپریم کورٹ چاند نظر آنے کا اعلان کرتی ہے۔

یہ بات مسلّمات میں سے ہے کہ چاند کے طلوع ہونے کی جگہ یعنی مطلع مختلف ہوتا ہے، اس وجہ سے برصغیر اور خلیجی ممالک میں عمومی طور پر چاند کی تاریخ میں ایک دن کا فرق رہتا ہے، کبھی کبھی یہ فرق دو دن کا بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن ایسا عموماً نہیں ہوتا کہ پوری دنیا میں چاند کی ایک ہی تاریخ ہو، حتی کہ آج کی سائنسی تحقیق کے مطابق بھی پوری دنیا میں ایک ہی دن چاند نظر نہیں آتا ہے، یعنی سائنسی اعتبار سے بھی شمسی کیلنڈر کی طرح پوری دنیا میں چاند کی ایک تاریخ ممکن نہیں ہے۔

امسال (1442) بھی طویل عرصہ سے جاری معمول کے مطابق ہند، پاک اور بر صغیر کے دیگر ممالک سے ایک روز پہلے خلیجی ممالک میں ماہِ رمضان شروع ہوا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں 29 رمضان کو چاند کی رؤیت نہ ہونے پر 30 روزے مکمل کرنے کے بعد 13 مئی بروز جمعرات کو عید الفطر منائی گئی۔ ہندوستان کے صوبہ کیرلا اور کرناٹک وتمل ناڈو کے کیرلا سے متصل بعض اضلاع میں وہاں رائج نظام کے تحت رمضان کی ابتدا سعودی عرب کے مطابق ہندوستان کے دیگر صوبوں سے ایک دن قبل ہوئی اور 30 روزے مکمل ہونے کے بعد وہاں کے باشندوں نے سعودی عرب کے مطابق 13 مئی کو عید الفطر منائی۔ کیرلا کے باشندے 29 تاریخ کو چاند دیکھنے کے بجائے خلیجی ممالک میں موجود اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو سعودی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی جانکاری کے لئے فون کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کیرلا کے لوگ بڑی تعداد میں خلیجی ممالک میں بغرض معاش مقیم ہیں۔ہندوستان کے جنوبی علاقہ کا یہ عمل اس وقت میرا موضوع بحث نہیں ہے کیونکہ وہاں چاند کی یکم تاریخ کے لئے سعودی حکومت کے فیصلہ کو ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔

امسال پاکستان میں بھی برصغیر کے دیگر ممالک کی طرح ماہ مبارک کی ابتدا سعودی عرب کے ایک روز بعد ہوئی۔ 29 رمضان کو کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے بڑے بڑے علاقوں میں کسی ایک جگہ سے بھی چاند کی رؤیت کی کوئی خبر نہیں ملی، ہاں پشاور وغیرہ کے بعض علاقوں سے موصول شہادتوں کی بنیاد پر تقریباً رات 12 بجے فیصلہ کیا گیا کہ عید الفطر 13 مئی کو منائی جائے گی۔ اس اعلان کے خلاف شوروشرابا بھی کافی مچا، مگرعلماء کرام نے یہ کہہ کر اس ہنگامہ پر قابو پالیا کہ اب اس موضوع پر مباحثہ جاری نہ رکھا جائے، باوجودیکہ امسال عید الفطر کے چاند کے اعلان میں غلطی کے امکانات زیادہ ہیں۔ جموں وکشمیر میں سابقہ روایات کے مطابق پاکستان کے ساتھ 13 مئی کو ہی عید الفطر منائی گئی۔

ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں تمام مسلکوں کے اتفاق رائے سے کسی بھی جگہ سے چاند کی رؤیت نہ ملنے کی وجہ سے 30 روزوں کے بعد 14 مئی کو عید الفطر منائی گئی۔ البتہ ہندوستان میں اترپردیش کے قصبہ گھوسی (ضلع مؤ) میں چار افراد کی شہادت کی بنیاد پر دارالعلوم امجدیہ کے مہتمم مولانا ضیاء المصطفی قادری صاحب نے گھوسی اور مضافات کے لئے چاند کی رؤیت کا اعلان کردیا تھا، جس کو ہندوستان کی رؤیت ہلال کمیٹیوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا کہ جب گھوسی کا مطلع صاف تھا تو عید الفطر کی چاند کی رؤیت کے لئے صرف چار افراد کی شہادت قابل قبول نہیں ہے بلکہ بڑی تعداد کا چاند دیکھنا ضروری ہے۔ حتی کہ گھوسی کے قریب اہل السنہ والجماعت کی بڑی علمی درسگاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے مفتیان کرام نے بھی گھوسی کے چار افراد کی شہادتوں کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اس تعلق سے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے مفتی نظام الدین صاحب کی وضاحت مندرجہ ذیل لنک کے ذریعہ سنی جاسکتی ہے:

مشرقی چمپارن سے بھی ایک خبر چاند کی رؤیت سے متعلق وائرل ہوئی تھی مگر بہت جلدی ہی اُن کی طرف سے ایک وضاحتی ویڈیو اور پیغام سوشل میڈیا پر شیئر کردیا گیا کہ مشرقی چمپارن میں چاند کی رؤیت کے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبر غلط ہے۔ دارالعلوم امجدیہ گھوسی، ضلع مؤ میں چار افراد کی شہادت کے بعد بنارس اور الہ آبادکے بعض مفتیان کرام نے بھی 13 مئی کو عید ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ غرضیکہ گھوسی کے علاوہ پورے ہندوستان میں کہیں بھی چاند کی رؤیت کی تصدیق نہ ہوسکی۔ چنانچہ ہندوستان میں تمام مسلکوں کے مفتیان عظام اور علماء کرام نے شریعت اسلامیہ کے اصول پر عمل کرکے سمجھداری کا مظاہرہ کرکے 13 مئی کو 30 رمضان اور 14 مئی کو یکم شوال کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا ہمیں اس موقع پر اتحاد واتفاق کا عملی مظاہرہ پیش کرکے علماء کرام کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں جہاں علماء کرام یا ان کی سرپرستی میں چلنے والی رؤیت ہلال کمیٹیوں کو قانونی حیثیت سے بہت زیادہ اختیارات نہیں ہیں، لیکن پھر بھی پورے ہندوستان میں ایک ہی دن عید الفطر منائی گئی۔ یقینا ماضی میں ایک ہی علاقہ میں دو دو عیدیں منائی گئی ہیں، جس پر ہمیں بھی افسوس ہے، مگر چند سالوں سے اللہ کے فضل وکرم سے ایسا اختلاف پیش نہیں آیاہے۔

14 مئی بروز جمعہ کا انقلاب جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو حسب معمول میری نظر انقلاب اخبار کے ایڈیٹر جناب شکیل شمسی صاحب کے اداریہ (دو عیدیں، دو چاند اور مسلمانان ہند)پر پڑی، جس کے پڑھنے کے بعد مجھے کافی حیرانی ہوئی کہ جناب شکیل شمسی صاحب نے عیدالفطر کے دن بھی محبتوں، خوشیوں، مسرتوں، اللہ کی نعمتوں اور امت میں اتفاق واتحاد کے بجائے ہندوستان میں چاند پر معمولی اختلاف کو اس طرح ذکر کیا کہ زمینی حقائق سے ناواقف شخص اگر اس اداریہ کو پڑھے تو اسے لگے گا کہ ہندوستان میں جگہ جگہ دو دو عیدیں منائی گئیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مشرقی چمپارن سے آئی خبر جھوٹی تھی،جس کی تردید اسی وقت سوشل میڈیا پر بڑی تیزی سے گردش کرنے لگی تھی اور مجھے پورا یقین ہے کہ شکیل شمسی صاحب جیسی شخصیت کے پاس وہ تردید ضرور پہنچی ہوگی، مگر اس کے باوجودہ انہوں نے اپنے اداریہ میں مشرقی چمپارن میں چاند کی رؤیت کا ذکر کیا۔ گھوسی، بنارس اور الہ آباد میں زیادہ سے زیادہ دو ہندسوں پر مشتمل (یعنی 100 سے کم) مساجد میں عید الفطر کی نماز 13 مئی کو ادا کی گئی، باقی پورے ہندوستان کی تمام مساجد میں نماز عید الفطر 14 مئی بروز جمعہ ادا کی گئی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 25 کروڑ اور مساجد کی تعداد تقریباً 4 لاکھ ہے ۔

جناب شکیل شمسی صاحب نے اپنے اداریہ میں مسلمانان ہند کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ سید البشر وسید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی چاند سے متعلق واضح تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کر ہندؤوں کی طرح اپنے تہواروں کی تاریخ پہلے سے طے کرلیں۔ نیز انہوں نے پریاگ راج (الہ آباد) کے اپنے ایک غیر مسلم دوست اتم شرما کی بات (((پریاگ راج میں کچھ لوگ آج 13 مئی کو عید منارہے ہیں، مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ کل تو اماوس کی رات تھی، 13 مئی کو بھارتیہ کیلنڈر کے حساب سے دوج ہے، اس حساب سے آج عید کا چاند نکلنا چاہئے اور عید 14 مئی کو منائی جانی چاہئے))) ذکر کرنے کے بعد خود تحریر کیا کہ (اتم شرما کی) ان باتوں کو کون قبول کرے گا؟ ہم تو اپنے مولوی، اپنے قاضی، اپنے مسلک، اپنے فرقے اور اپنی چاند کمیٹی کی بات ہی مانیں گے؟ غرضیکہ جناب شکیل شمسی صاحب مسلمانان ہند کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ علماء اور مفتیان کرام کی قرآن وحدیث کی روشنی میں رائے نہ مان کر وہ بات تسلیم کریں جو ان کے ایک غیر مسلم دوست ”اتم شرما“ نے اپنے مذہب وتجربات کی بنیا د پر پیش کی ہے۔

جناب شکیل شمسی صاحب نے اپنے اداریہ میں یہ بھی تحریر کیا کہ سائنس کے اس دور میں جب یہ بتایا جاسکتا ہے کہ چاند اگلے سال آج کے دن کتنے بجے نکلے گا اور کتنے بجے غروب ہوگا۔۔۔۔مگر ہم ہیں کہ عینی شاہدوں کی تلاش میں ہیں۔ اس تعلق سے عرض ہے کہ انہیں اس موضوع پر مزید مطالعہ کی ضرورت ہے کہ آج بھی سائنسی اعتبار سے ہر ماہ ہر جگہ 29 ویں تاریخ کو چاند نظر آنے یا نہ آنے کی سو فیصد تحقیق نہیں ہوسکتی ہے، بلکہ سائنسی اعتبار سے بعض علاقوں میں چاند نظر آنے اور بعض علاقوں میں چاند نظر نہ آنے کے یقین کے باوجود ہر ماہ دنیا میں بعض علاقے ایسے ہوتے ہیں جہاں 29 ویں تاریخ کو چاند کی رؤیت ہوبھی سکتی ہے اور نہ بھی، نیز 29 ویں تاریخ کا چاند ہر جگہ نظر نہیں آتا۔ سائنسی اعتبار سے بھی پوری دنیا میں چاند کی ایک تاریخ ممکن نہیں ہے اور شرعی اعتبار سے بھی پوری دنیا میں چاند کی ایک تاریخ مطلوب نہیں ہے۔ لہٰذا بعض حضرات کا یہ کہنا کہ دنیا میں ایک ہی چاند کی تاریخ ہونی چاہئے قابل تسلیم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کا ”تقویم ام القری“ جو دنیا میں چاند کی تاریخ کے لئے تیار کیا گیا سب سے معتمد کیلنڈر ہے، اور وہاں چاند کی رؤیت یا عدم رؤیت کے اعلان کے وقت ماہرین فلکیات کی دخل اندازی بھی رہتی ہے، اس کے باوجود بسا اوقات سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد چاند کی حقیقی تاریخ کیلنڈر سے مختلف ہوجاتی ہے۔ امسال (1442) ماہ شعبان کی ابتدا کے لئے بھی ایسا ہی ہوا کہ کیلنڈر کے مطابق 29 رجب کے بعد یکم شعبان تھی، مگر کسی جگہ سے رؤیت کی خبر نہ ملنے کی وجہ سے سعودی سپریم کورٹ کا فیصلہ کیلنڈر سے مختلف ہوا۔ سعودی عرب میں میرے بیس سال کے قیام کے دوران بیسیوں مرتبہ چاند کی حقیقی تاریخ کیلنڈر سے مختلف رہی، حتی کہ حج بھی کیلنڈر کی تاریخ سے ایک روز قبل یا بعد ہوا، حالانکہ حج کی تاریخ کیلنڈر سے مختلف ہونے پر فلائٹ اور ہوٹل کی بکنگ وغیرہ کے انتظام میں کافی دشواری سامنے آتی ہے۔

آخر میں عرض ہے کہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کی موجودگی میں عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے سرِ تسلیم خم کرنے میں ہی سب کی بھلائی ہے۔

Comments are closed.