Baseerat Online News Portal

دیوبند اور علماء سے ابھی امیدیں وابستہ ہیں

 

 

طہ جون پوری

 

 

3 جون 2021 کو،  دارالعلوم دیوبند کی 155 سالہ خدمات پر، ٹویٹر پر ایک میزبان، بہ نام  مسلم ایسپیسز @MuslimSpaces کے توسط سے گفتگو کرنے کا موقع ملا. جس کا بنیادی مقصد دارالعلوم دیوبند کا مقصد قیام اور اس کی خدمات کو، سوشل میڈیا پر متحرک افراد، بہ طور خاص کالجز، یونیورسٹیز، کے طلبہ کے سامنے رکھنا تھا. جس میں دو سیشن تھا. پہلے سیشن میں، ڈاکٹر حکیم نفیس الرحمن قاسمی (جو احمد غریب یونانی میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل اور پروفیسر ہیں اور 36 سال کا تدریسی تجربہ ہے) نے خطاب کیا اور پھر اس کے بعد وقفہ سوالات و جوابات تھا. موصوف نے بہترین گفتگو کی. جنگ آزادی اور طبی میدان میں دارالعلوم دیوبند کی خدمات کے عنوان پر، موصوف نے گفتگو فرمائی. یہ سیشن تقریبا رات سوا دس سے سوا گیارہ تک چلا.

 

 

 

دوسرے سیشن کا آغاز اس کے معا بعد ہوا. جس میں بندہ نے متعینہ موضوع پر، کتابوں کی مدد سے کچھ گفتگو کی. اب اس کے بعد پھر سوالات و جوابات کا سیشن شروع ہوا. تو پہلا سوال سوشل میڈیا کے معروف ایکٹوسٹ *علی سہراب عرف کاکاوانی* کی جانب سے ہوا. موصوف کے بارے میں، یہ بات تو معلوم ہوگی ہی، کہ موصوف *دارالعلوم دیوبند* پر بھی بھر پور طنز کر چکے ہیں اور موقع بہ موقع کرتے بھی رہتے ہیں، لیکن انھوں نے کہا: کہ میں آپ کی بات سے، 95٪ متفق ہوں، پر کچھ باتوں میں عدم اتفاق کرتا ہوں. پھر انھوں نے کہا: انگریزوں سے جو لڑائی لڑی گئی تھی، وہ جہاد تھا. ملک کو آزاد کرانے کی لڑائی بالکل نہ کہا جائے، کیوں کہ اس وقت، ملک تھا، ہی نہیں بلکہ چھوٹی ریاستیں ہوتی تھیں. اس لیے علماء کو یہی بتانا چاہیے. خیر اس کا جواب بھی دیا گیا.

 

سوالات کا یہ سلسلہ جاری رہا اور رات تقریبا ایک بجے تک، یہ دوسرا سیشن چلتا رہا. اس دوسرے سیشن کے وقفہ سوالات و جوابات میں جو چیز قابل فکر نظر آئی، کہ اکثر سوالات اسی سے متعلق تھے، کہ جب *دارالعلوم دیوبند* کا مقصد ایسی نسل کو پیدا کرنا تھا، جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں، مگر فکر و سوچ، کے اعتبار سے اسلامی ہوں اور ایک ایسی نسل پیدا ہو، جو اسلام کا دفاع کرے. تو آخر آج کیوں *دیوبند* اپنی اس سوچ اور مقصد سے دور جارہا ہے اور جب اس طرح کے مسائل ہیں، کہ سیدھا مذہب پر حملہ ہورہا ہے، تو *دارالعلوم دیوبند* کیوں نہیں مضبوطی سے سامنے آتا؟..

 

 

اس سے یہ اندازہ ہوا، کہ امید کہ نگاہیں آج بھی، علماء حق کو تلاش کررہی ہیں. اور ان کے سوالات کی وجہ، عناد یا مخالفت نہیں، بلکہ یہ اس ادارے سے امید کا تقاضہ ہے، کہ جس سے امید ہوتی ہے، اس سے آدمی معلوم کرتا ہے.

 

اس لیے صحیح معنوں میں، علماء کرام کو، اپنا مقام پہچاننے کی ضرورت ہے. اوراس موضوع پر، *مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ* نے بہت تفصیل سے لکھا ہے. اس پر عمل کی ضرورت ہے. کیوں کہ یہ وقت کی سخت ضرورت ہے. امت مسلمہ کی کشتی بھنور میں ہے اور اصلی کھیون ہارے یہی علماء حق ہیں، اس لیے ان کی ذمہ داری عظیم ہے.

 

اللہ کرے حالات میں مثبت تبدیلی آئے اور اسلام کا جھنڈا سارے عالم پر لہرا جائے. اللہ ہم سب کو معاف بھی فرمائے.

Comments are closed.